لاوراث بی بی

ہمارے اردگرد بکھرے ہوئے کئی معاملات دیکھ کر ایسا لگتا ہے، چونکہ اس ملک میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اس لیے بہت سارے لوگ صرف اس اکثریت کا مزہ چکھنے کے لئے مسلمان ہیں۔ورنہ جس نبی صلی اﷲ علیہ وسلم پر جھوم جھوم کر درود پڑھا جاتا ہے سب سے زیادہ حکم عدولی بھی ان ہی کے احکامات کی ہوتی ہے۔بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک نبیوں اور پیغمبروں کا شیوا ہے۔مگر انہیں اپنے حق میں استعمال کرنا ،جائیداد کا مسئلہ ہو، غیرت کے نام پر قتل یا بے جا تشدد کرکے انہیں پاگل و ذہنی مریض بنا دینا شیطانی فلسفہ ہے۔کچھ روز قبل ایک نجی فلاحی ادارے میں ایک نیم پاگل عورت کا انتقال ہوا۔اتفاقا اس روز میں کسی فلاحی کام کہ سلسلے میں وہاں موجود تھی۔اسکے لواحقین سے رابطے کی کوشش کی گئی مگر کوئی تھا ہی نہیں۔۔یا تھا بھی تو آنا نہیں چاہتا تھا۔۔مجبورا اسے" لاوارث بی بی " کہہ کر مدفن کیا گیا۔یوں تو اکثر فلاحی اداروں میں رہنے والی خواتین کی دکھ بھری داستان ایک دوسرے سے بڑھ کر ہوتی ہے مگر آخری وقت میں بھی اسکے اپنے اس سے منکر تھے مجھے بہت تشویش ہو رہی تھی۔ پوچھنے پر معلوم پڑا کہ وہ "لاوارث بی بی" کسی ہلکے پھلکے ذہنی عارضے میں مبتلا تھی جیسے گھر والے پاگل ثابت کر کہ جمع کروا گئے تھے۔ہمیں ایسی کئی وارداتیں دیکھنے کو ملتی ہیں جہاں ذاتی مفادات کی خاطر اچھے بھلے بندے بندی کو پاگل بنا دیا جاتا ہے۔شاید وہ اتنے پاگل نہ ہوتے جتنا انہیں بنادیا جاتا ہے۔پاکستان میں بسنیوالے نفسیاتی اور دماغی مریض عام طور پر دھتکاردیے جاتے ہیں اور مر جانے کی صورت میں لاوارث قرار دے دیے جاتے ہیں۔آج بھی ہمارے ملک میں تعلیم ،صحت ،روزگار اور بروقت انصاف سے محروم کروڑوں لوگ بستے ہیں۔گھریلو جھگڑے ،سماجی دباو،جان لیوا مہنگائی،بڑھتی ہوئی نا انصافی،دہشت گردی،ڈر،خوف،فکر،تشدد ہمارے اردگرد نفسیاتی مریضوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ کر رہا ہے۔ہمارے ہاں 63 فی صد طبقہ گھریلو جھگڑوں اور سماجی دباو کی وجہ سے نفسیاتی الجھنوں میں گھیرا رہتا ہے۔یہ بات درست ہے کہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار اور دماغی طور پر معذور افراد کو بعض اوقات ایسے شدید دورے پڑتے ہیں کہ گھر بھر کو انہیں سنبھالنا واقعی ممکن نہیں رہتا۔ دنیا بھر میں ایسے مریضوں کا پورا معاشرہ اور ان کا اپنا گھرانہ جلد از جلد بندوبست کرتا ہے۔پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے لیکن پاکستان وہ ملک ہے جہاں سماجی دباو سے لیکر موروثی بیماریوں تک دماغی مریض تو لاکھوں ہیں مگر ان کے لئے علاجگاہوں کا کوئی بندوبست نہیں، نہ ہی اس بڑھتے مرض کی روک تھام کے لئے کوئی خاطر خواہ حکمت عملی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں سوشل سائنسز اور anthropology یعنی بشریات،انسانیات جیسے مضامین کو پڑھانیپر توجہ دی جائے۔ان مضامین پر توجہ اس طرح سے نہیں دی رہی جیسا کہ دی جانی چاہیے۔اسکا نقصان یہ ہوا کہ ملک کا اک بڑا طبقہ انسانیت، معاشرہ اور معاشرے کو برتنے کی معلومات سے محروم ہے۔حکومت اگر واقعی اس معاشرے کو متوازن کرنا چاہتی ہے تو ماہر نفسیات،عمرانیات اور anthropologist خواتین و حضرات کی خدمات سے فائدہ اٹھائے۔
 

Fareeha Ahmed
About the Author: Fareeha Ahmed Read More Articles by Fareeha Ahmed: 4 Articles with 3069 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.