کچھ لوگ کچھ ادارے ملکوں اور
قوموں کی پہچان بن جاتے ہیں اور یہ خوش قسمت ادارے اور لوگ ان قوموں کے لیے
سلامتی کی ضمانت ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسا ایک ادارہ فوج ہے جو کسی
بھی صورت قومی بقا کے منافی کام نہیں کرسکتا ۔ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ
پامردی کے ساتھ کرتے ہوئے ہمیشہ ملک کا اور قومی مفادات کا دفاع کیا۔ ایسا
ہی ایک ادارہ ’’آئی ایس آئی ‘‘ بھی ہے جس نے کبھی قومی مفادات کا سودا نہیں
کیا۔ دنیا کی تمام خفیہ ایجنسیوں کا اکیلے اور ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کر رہا
ہے۔ جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم پر مسلط کی گئی ہے تب سے تو اسے مزید
مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے مجھے’’ آئی ایس آئی‘‘ کی صلاحیتوں پر
کوئی شک نہیں بلاشبہ یہ دنیا کے جس ملک میں چاہے گڑبڑ بھی پھیلا سکتا ہے
اور وہاں کے حالات سد ھارنے میں بھی معاون ہو سکتا ہے۔ لیکن اس وقت ملک کو
جن حالات کا سامنا ہے اس میں’’آئی ایس آئی‘‘ کے لیے وقت نکالنا یقیناً مشکل
ہے کہ وہ بھارت جیسے مکار دشمن ملک میں ممبئی حملوں جیسی لمبی کاروائی
کرسکے ۔ ہاں اگر وہ ایسی کوئی کاروائی کرے یا کرنا چاہے تو یقیناً ’’را‘‘
کیلئے اس کو روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ’’آئی ایس
آئی‘‘ کا کام اپنے دشمن کی خفیہ چالوں کے خلاف اپنے ملک کا دفاع ہے۔’’را‘‘
یا’’ سی آئی اے‘‘ کی طرح دوسرے ملکوں کی تباہی اور ان کو فتح کرنا نہیں
ممبئی حملے خود بھارت کے حکمرانوں کی بہت بڑی ناکامی تھی جسے بڑے آرام سے
پاکستان کے سر منڈھ دیا گیا اور اسے’’ آئی ایس آئی ‘‘کا کارنامہ قرار دیا
گیا،اگر یہ سب’’ آئی ایس آئی ‘‘نے کر نا ہوتا تو بھارت حکومت ایک ملزم یا
مجرم کو بھی نہ پکڑ پاتی اور منصوبہ بھی مکمل کردیا جاتا۔
ممبئی حملوں کے بارے میں تازہ اور بیہودہ قسم کا نیا شوشہ یہ چھوڑا گیا ہے
کہ امریکہ کی ایک عدالت نے ’’آئی ایس آئی ‘‘کے افسران کے نام ایک سمن جاری
کیا ہے۔ جس میں انھیں عدالت میں طلب کیا گیا ہے۔ ان افسران میں میجر سمیر
علی، میجر عظیم اور’’ آئی ایس آئی‘‘ کے سابق سربراہ جنرل ندیم تاج سمیت اس
کے موجودہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔
ممبئی حملوں کی خفت نجانے کب تک بھارت مٹاتا رہے گا اور اس کو مٹانے کے لیے
کتنی نامعقول حرکتیں کرتا رہے گا اگرچہ یہ حرکت اب کی با ر امریکی عدالت نے
کی ہے لیکن امریکہ میں ہندو لابی نے یقیناً اسکے لیے دن رات ایک کردیئے
ہونگے۔ امریکہ کو بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناکامی کے لیے بہت سارے
جواز ڈھونڈنے پڑ رہے ہیں اور آج کل ہمارے حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے
پاکستان ان کے لیے ایک آسان نشانہ ہے اور دنیا میں ہونے والی کوئی بھی دہشت
گردی اس ملک کے سر دھر دی جاتی ہے جو خود سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار
ہے۔ اب تک امریکی حکومت یہ کام کررہی تھی لیکن اب شاید امریکی عدالتوں نے
بھی اپنی حکومت کی مدد کرنا شروع کردی ہے تبھی تو اس واقعے میں ہلاک ہونے
والے ایک یہودی خاندان کے لواحقین کی طرف سے بروکلن کی ایک عدالت نے یہ
احمقانہ سمن جاری کردیا۔ ربی گیوریل، ہالٹنربرگ اور اس کی حاملہ بیوی ریوکا
کی ہلاکت اس واقعے میں ہوئی جبکہ ان کے بیٹے موشے کو اس کی بھارتی آیا نے
بچالیا تھا۔ اب اگر ایک ایک خاندان کا حساب لینا اور دینا پڑے تو
پاکستانیوں کے خون کا حساب دیتے دیتے تو امریکہ ،بھارت اور یہودی اسرائیل
کو ہزاروں حساب دینے پڑیں گے اور’’آئی ایس آئی ‘‘کے قابلِ فخر افسران سے
پہلے ،جارج بش،اوبامہ ،منموہن سنگھ ،سونیا گاندھی ،آنجہانی ہالبروک، مک
ملن، ’’سی آئی اے ‘‘کے کئی افسران اور سربراہان اور’’ را‘‘کے کئی سربراہوں
اور کرنل سرکانت جیسے کئی بھارتی افسروں کو پاکستانی عدالتوں میں پیش ہونا
پڑے گا بلکہ اس فہرست میں مغربی پاکستان میں پاکستانیوں کے قتل کی سزا میں
مدتوں کی آنجہانی اندرا گاندھی اور کئی دوسروں کو بھی شامل کرلینا چاہیے۔
جنرل پاشا اور ان کے ساتھیوں کا جرم تو ثابت بھی نہیں بلکہ صرف ایک الزام
ہے جو ان کے ادارے پر دشمنی میں لگایا جا رہا ہے جبکہ ان شخصیات کے جرائم
تو بے شمار اور ثابت شدہ ہیں۔ ڈرون حملوں کا جرم ہی دیکھیئے جو مسلسل جاری
ہے ۔ ہمارے تو’’ آئی ایس آئی ‘‘کے سربراہ کو بلایا گیا ہے لیکن وہاں سے تو
صدر امریکہ یہ تمام احکامات جاری کرتے ہیں لہٰذا انھیں تو انتہائی مطلوب
قرار دے دینا چاہیئے چاہے یہ موجودہ صدر ہو یا سابقہ اور یہ دلیل انتہائی
بودی ہوگی کہ یہ سب کچھ جنگ کے دوران ہورہا ہے ۔ پاکستان پر ایک انتہائی ان
چاہی جنگ کا تسلط مزید بڑا جرم ہے۔ اس لیے اس جرم کی سزا زیادہ سخت ہونی
چاہیے کہ ایک پر امن قوم کو جنگ کی آگ میں جھونکا گیا ہے اس کے ترقی کے عمل
کو روک دیا گیا ہے بلکہ ترقی معکوس کا عمل جاری ہے۔ موجودہ املاک کو بہت
زیادہ نقصان پہنچایا گیا ہے ۔ حکومت کے پاس ایک اچھا موقع ہے کہ وہ نقصانات
کے الزالے کا مطالبہ امریکہ اور نیٹو سے کر دے ۔ انسانی جانوں سے لے کر
سڑکوں ،پلوں اور عمارات تک کے نقصانات کا۔
اس وقت حکومت کو نہ صرف معذرت خواہانہ یا کمزور موقف نہیں اپنانا چاہیئے
بلکہ اس حرکت کا مضبوط بلکہ جارحانہ جواب دینا چاہیے کہ واقعہ بھارت
کا،عدالت امریکہ کی تو مدعا علیہ پاکستان کیسے اور پھر’’ آئی یس آئی ‘‘کے
چیف کو طلب کر نا خاصا تو ہین آمیز ہے جس پر ابھی تک تمام سیاسی لیڈروں نے
قومی اتفاقِ رائے کا اظہار کیا ہے لیکن حکو مت کو اس پر انتہائی سخت موقف
اپنانا چاہیے ۔ ’’آئی ایس آئی ‘‘کے سربراہ یا دوسرے افسران امریکی شہری
نہیں لہٰذا اسے کو ئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ انھیں طلب کرے اس پر اس عدالت
کے جج پر ہتک ِعزت کا دعویٰ دائر کیا جانا چاہئیے اور وزیرِاعظم گیلانی کا
یہ کہنا کہ ہم’’ آئی ایس آئی ‘‘کے کسی افسر کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ
کسی امریکی عدالت میں پیش ہوں ، کافی اور مناسب نہیں ، انہیں زیادہ مضبوط
لہجہ اور مؤقف اپناتے ہوئے کہنا چاہیئے تھا کہ حکومت پاکستان ایسا سوچ بھی
نہیں سکتی کہ وہ اپنے قابلِ فخر ادارے ’’آئی ایس آئی ‘‘کے سربراہ تو کیا
ایک عام سے اہلکار کو بھی کسی امریکی یا غیرملکی عدالت میں پیش ہونے دے ان
کا لہجہ اتنا مظبوط ہونا چاہیے کہ آئندہ کوئی ملک یہ حرکت نہ کر سکے اور
ایسی حرکت کرنے سے پہلے یہ سوچ لیا کرے کہ جس طرح ’’آئی ایس آئی ‘‘ہر وقت
اپنے ملک کی خاطر کسی بھی آگ میں کودنے کے لیے تیار رہتی ہے اس ملک کی
حکومت ،سیاستدان اور عوام اس ادارے کی عزت برقرار رکھنے کے لیے کمر بستہ
رہتے ہیں۔ |