“درخت کاٹنے سے سیلاب تھوڑی آتا ہے”


پاکستان میں بارش آئے تو پانی کے ساتھ ساتھ بیانات کا ریلا بھی بہنے لگتا ہے۔ کوئی بھارت کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے، کوئی موسمیاتی تبدیلی کو۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جو اسے میڈیا کی بڑھک قرار دیتے ہیں۔ مگر اس بار وزیرِاعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے ایسا بیان دے دیا جو سب پر بازی لے گیا۔ فرمایا: “درخت کاٹنے سے سیلاب تھوڑی آتا ہے!”یہ بات انہوں نے ایسی سادگی سے کہی جیسے کوئی طالب علم کہہ رہا ہو، "ٹیوشن چھوڑنے سے نمبر تھوڑی کم ہوتے ہیں!" یا جیسے پشاور کا رکشہ والا کہتا ہے، "دھواں نکلنے سے انجن تھوڑی خراب ہوتا ہے!"۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر درخت کاٹنے سے سیلاب نہیں آتا تو پھر کس سے آتا ہے؟ شاید کسی بیرونی سازش سے۔ ممکن ہے سیلاب دراصل اس وقت آتا ہو جب عوام زیادہ سوال پوچھنے لگیں۔ یا پھر یہ بارشوں اور پہاڑوں کی "اپنی ذاتی ناراضی" ہو۔

سائنسدان تو برسوں سے چیخ رہے ہیں کہ جنگلات پانی جذب کرتے ہیں، زمین کو سہارا دیتے ہیں، اور بارش کے اثرات کو قابو میں رکھتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں سیاست میں سائنس کی نہیں، صرف بیان کی اہمیت ہے۔ کتابیں کہتی ہیں جنگلات کٹیں گے تو زمین کمزور ہوگی، پانی راستہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے سیلابی شکل اختیار کرے گا۔ لیکن سیاسی منطق کہتی ہے، "یہ سب بکواس ہے"۔

ایک دوست کا کہنا ہے، اس بیان کے بعد ممکن ہے کوئی اور رہنما یہ بھی کہہ دے: "پلاسٹک بیگ سے نالہ تھوڑی بند ہوتا ہے، نالہ تو عوام کے صبر سے بند ہوتا ہے۔"
"مہنگائی سے بھوک تھوڑی لگتی ہے، بھوک تو میڈیا بڑھاتا ہے۔" "بیروزگاری سے غربت تھوڑی آتی ہے، بلکہ انسان کو فارغ وقت ملتا ہے سوچنے کا!"
گویا یہ ایک نئی سیاسی فلسفہ کتاب کی بنیاد بن سکتی ہے جس کا نام ہو: “منطقِ گنڈاپور”۔

سوشل میڈیا پر لوگ مزے لے رہے ہیں۔ کسی نے کہا، "اگر درخت کاٹنے سے سیلاب نہیں آتا تو کیا یہ مطلب ہے کہ پانی کا اصل قصور عوام کا ہے؟"۔ کوئی اور بولا، "سیلاب تو آتا ہی تب ہے جب بندے کا بجلی کا بل زیادہ آجائے!"۔اصل حقیقت یہ ہے کہ جنگلات کٹیں گے تو زمین کھوکھلی ہوگی، بارش پانی کو روک نہ پائے گی اور سیلاب کے ریلے سب بہا لے جائیں گے۔ مگر حقیقت اور سیاست میں اکثر فرق ہوتا ہے۔ عوام چاہے پانی میں ڈوب جائیں، مگر سیاستدان ہمیشہ بیانات میں تیرتے رہتے ہیں۔

ہمارے ہاں عجب تماشہ یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کو سب مانتے ہیں مگر اپنی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا۔ درخت کٹتے ہیں تو لکڑی کے مافیاز خوش ہوتے ہیں، پہاڑوں پر زمین کھلتی ہے تو پراپرٹی ڈیلرز خوش ہوتے ہیں، اور جب پانی گاوں کے گاوں بہا لے جائے تو بیانات کی ندی بہتی ہے۔ ہر کوئی سیلاب کے پانی پر اپنی سیاست کی کشتیاں چلاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عام لوگ جب اپنے ڈوبے ہوئے کھیتوں اور گھروں کے سامنے وزیر صاحب کا بیان سنتے ہیں تو ہنسنے اور رونے کے بیچ پھنس جاتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ شاید ہمارے گاوں کو درخت کاٹنے نے نہیں بلکہ بیانات نے ڈبویا ہے۔

سو جناب، اگلی بار اگر آپ کے گاوں میں پانی داخل ہو جائے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ کھڑے ہوکر اونچی آواز میں کہیے: “درخت کاٹنے سے سیلاب تھوڑی آتا ہے!”۔ممکن ہے پانی شرما کے واپس چلا جائے۔

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 749 Articles with 617448 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More