حکومت کے ذمہ صرف بل، باقی سب اللہ اور عوام کے سپرد
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ہم صوبائی حکومت کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں جنہوں نے اتنے نازک اور کٹھن حالات میں بھی اپنی بنیادی ذمہ داری نہیں بھلائی۔ جی ہاں، راشن نہ پہنچا ہو، خیمے نہ لگے ہوں، دوائیوں کا نام و نشان نہ ہو، لیکن بجلی اور گیس کے بل بہرحال تباہ شدہ گھروں تک باعزت اور محفوظ پہنچا دیے گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ گھر کی چھت نہ رہی، دیواریں نہ رہیں، لیکن بل کی ترسیل اتنی پکی اور ایمانداری سے ہوئی کہ اگر انسانوں کی زندگیاں بھی اتنی سنجیدگی سے لی جاتیں تو شاید آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
حکومت نے گویا اعلان کر رکھا ہے: "روزگار، علاج، تعلیم سب بعد میں، لیکن بجلی کا بل بروقت ملنا عوام کا بنیادی حق ہے۔" باقی روزی روٹی، بچوں کا دودھ، یا آٹا، یہ سب اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب متاثرہ لوگ راشن مانگتے ہیں تو سرکاری اہلکار دعا دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں: "اللہ بڑا رازق ہے!"۔
اب ذرا اس منطق پر غور کریں: صوبائی حکومت نے ملازمین کی تنخواہوں سے تین ارب روپے کاٹ لیے تاکہ شہداءکے لواحقین کو امداد دی جا سکے۔ بظاہر تو یہ قدم بڑا شاندار لگتا ہے۔ لیکن حساب لگایا جائے تو اگر حکومت ایک شخص کو بیس لاکھ روپے دیتی ہے تو یہ رقم بمشکل پندرہ سو شہداءکیلئے کافی ہے۔ بونیر میں ہی تعداد چار سو کے لگ بھگ ہے جو تقریباً اسی کروڑ روپے بنتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ باقی اربوں روپے کہاں جائیں گے؟ شاید کسی نئے "پراجیکٹ" میں، یا پھر کاغذی دعووں میں۔
یہ وہی حکومت ہے جو ہر تقریر میں وفاق پر گلہ کرتی ہے۔ اور گلہ بھی بالکل جائز لگتا ہے کیونکہ وفاق نے بھی عوام کو زیادہ تر "بڑھکیں" اور "اعلانات" ہی فراہم کیے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خود صوبائی حکومت کیا کر رہی ہے؟ وفاق کو کوسنا ایک الگ فن ہے، مگر اپنا کام نہ کرنا شاید اس سے بھی بڑا کمال ہے۔
اصل المیہ یہ ہے کہ جس پارٹی کی صوبائی حکومت ہے، ان کے اپنے لوگ امدادی کاموں میں تو نظر نہیں آتے، البتہ ڈانس پارٹیوں اور تصویری تقریبات میں ضرور دکھائی دیتے ہیں۔ متاثرہ عوام البتہ اکیلے کھڑے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر انسان سوچتا ہے کہ اگر ان پارٹی لیڈروں کو امداد بانٹنے میں اتنی دلچسپی ہوتی جتنی "میوزک نائٹس" میں ہے تو شاید حالات مختلف ہوتے۔
اس موقع پر ہم ان اداروں کو ضرور خراجِ تحسین پیش کریں گے جو خاموشی سے خدمت کر رہے ہیں۔ الخدمت فاونڈیشن سمیت کئی مذہبی تنظیمیں دن رات میدان میں ہیں۔ مدارس کے طلبہ، جنہیں یہی پارٹی حکومت اور اس کے حامی نوجوان آئے روز طنز اور گالیوں کا نشانہ بناتے ہیں، آج انہی مدارس کے بچے اور نوجوان سیلاب متاثرین کے خیمے لگا رہے ہیں، کھانا پکا رہے ہیں اور امداد تقسیم کر رہے ہیں۔ یہ تضاد بھی کسی کالم نگار کی تخیل سے نہیں، بلکہ زمینی حقیقت ہے۔
عوام کے سامنے اب ایک ہی منظر ہے: حکومت کے نمائندے امدادی کیمپوں میں تصویریں کھنچوا کر چلے جاتے ہیں، اصل مدد کا بوجھ مذہبی ادارے، فلاحی تنظیمیں اور عام لوگ اٹھاتے ہیں۔ اور ہاں، بل وقت پر ضرور آتے ہیں۔ شاید بجلی کا محکمہ اگلی بار اعلان کرے: "گھر نہ ہو تو کوئی بات نہیں، بل پڑوسی کے خیمے پر مل جائے گا۔"
مختصر یہ کہ ہم پھر سے شکریہ ادا کرتے ہیں صوبائی حکومت کا، جنہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ چاہے حالات کتنے ہی برے ہوں، بل کی ترسیل پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ باقی ذمہ داریاں اللہ اور عوام کے کندھوں پر ہی بھلی لگتی ہیں۔ شاید یہی اصل "گڈ گورننس" ہے۔ |