حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا
حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس ظاہری دنیا سے پردہ فرما جانے
کے بعد اکثر روضہ مبارک پر حاضر ہوا کرتی تھیں۔حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے
اہلِ مدینہ کو قحط سالی کے خاتمے کے لئے قبرِ انور پر حاضر ہو کر توسل کرنے
کی تلقین فرمائی۔ ’’مدینہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے تو انہوں نے حضرت
عائشہ رضی اﷲ عنہا سے (اپنی دگرگوں حالت کی) شکایت کی۔ آپ نے فرمایا : حضور
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس جاؤ اور اس سے ایک
کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی
پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کی دیر تھی کہ بہت زیادہ
بارش ہوئی حتی کہ خوب سبزہ اُگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہوگئے کہ (محسوس
ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ لہٰذا اُس سال کا نام ہی ’عامُ
الفتق (سبزہ و کشادگی کا سال)‘ رکھ دیا گیا۔
:: سنن دارمی، 1 : 56، رقم : 92
مسندامام احمدبن حنبل، 6 : 202
مجمع الزوائد، 9 : 37
مواهب اللدنية، 4 : 276
وفا بأحوال المصطفيٰ : 817، 818، رقم : 1534
شفاء السقام في زيارت خير الأنام : 128
وفاء الوفا، 2 : 560
إمتاع الأسماع، 14 : 615
جب حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے خط پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے
لوگوں کو شام کی طرف کوچ کرنے کے لیے شہر سے باہر نکلنے کو کہا تو حضرت عمر
رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے مسجد نبوی میں حاضر ہوکر چار رکعت نماز ادا کی،
پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اقدس پر حاضری دی اور
(بارگاہِ نبوت میں) سلام عرض کیا۔کعب الاحبار کے قبولِ اسلام کے بعد حضرت
عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا : ’’کیا آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے روضہ اقدس کی زیارت اور فیوض و برکات حاصل کرنے کے لیے میرے
ساتھ مدینہ منورہ چلیں گے؟‘‘ تو انہوں نے کہا : ’’جی! امیر المؤمنین۔‘‘ پھر
جب کعب الاحبار اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ آئے تو سب سے پہلے
بارگاہِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری دی اور سلام عرض
کیا، پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مدفن مبارک پر کھڑے ہوکر اُن کی
خدمت میں سلام عرض کیا اور دو رکعت نماز ادا فرمائی
:: فتوح الشام، 1 : 306، 307۔،2۔1 : 318
جوهر المنظم : 27، 28
محمد بن منکدر فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو
روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب روتے ہوئے دیکھا۔ وہ کہہ رہے
تھے۔’’یہی وہ جگہ ہے جہاں (فراقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آنسو
بہائے جاتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے
سنا ہے : میری قبر اور منبر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک
باغ ہے۔
:: شعب الإيمان، 3 : 491، رقم : 4163
مجمع الزوائد، 4 : 8
مسندامام احمدبن حنبل، 3 : 389
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے
بیت المقدس فتح کیا تو سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت بلال
رضی اللہ عنہ کے خواب میں آئے اور فرمایا ۔’’اے بلال! یہ فرقت کیوں ہے؟ اے
بلال! کیا تو ہم سے ملاقات نہیں چاہتا؟‘‘
اس کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ اَشک بار ہو گئے۔ انہوں نے مدینے کی طرف
رختِ سفر باندھا، روضہ مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری دی
اور بے چین ہوکر غمِ فراق میں رونے اور تبرکاً اپنے چہرے کو روضۂ رسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ملنے لگے.
:: شفاء السقام في زيارت خيرالأنام : 39
جوهر المنظم : 27
حضرت داؤد بن صالح سے فرماتےہیں کہ ایک روز خلیفہ مروان بن الحکم آیا اور
اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور
پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہے تو مروان نے اسے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ تو یہ
کیا کررہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ وہ حضرت ابو ایوب
انصاری رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے جواب دیا۔ ہاں (میں جانتا ہوں کہ میں
کیا کر رہا ہوں)، میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں
حاضر ہوا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔(اس کو حاکم نے اسے شیخین (بخاری و
مسلم) کی شرائط پر صحیح قرار دیا ہے جبکہ ذہبی نے بھی اسے صحیح قرار دیا
ہے۔ )
:: مسندامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، 5 : 422
معجم الکبير، 4 : 158، رقم : 3999
مستدرک، 4 : 515، رقم : 8571
حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ فرماتےہیں۔حضرت عمر (بن خطاب) رضی اللہ عنہ کے
زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے۔ پھر ایک صحابی حضور نبی کریم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ اطہر پر آئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ (اللہ
تعالیٰ سے) اپنی امت کے لئے سیرابی مانگئے کیونکہ وہ ہلاک ہو رہی ہے۔ پھر
خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس آئے اور فرمایا کہ عمر کے
پاس جا کر اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ تم سیراب کیے جاؤ گے۔ اور عمر
سے کہہ دو : عقلمندی اختیار کرو، عقلمندی اختیار کرو۔ پھر وہ صحابی حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان کو خبر دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو
پڑے۔ فرمایا : اے اللہ! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ عاجز ہوجاؤں۔
:: شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 130
دلائل النبوة، 7 : 47
کنز العمال، 8 : 431، رقم : 23535
الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 3 : 1149 |