صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور
تابعینِ عظام و ائمہ کبار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد از
وصال بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار سے برکت حاصل کرتے رہے۔
انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہر شے کی اسی طرح بے حد
تعظیم کی جس طرح وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں
اِن کی تکریم کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جو تبرکاتِ نبی صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کا اس قدر اہتمام فرماتے اس سے ان کا مقصد انہیں
برائے نمائش محفوظ رکھنا نہیں تھا بلکہ وہ انہیں منبعِ فیوض و برکات اور
دافعِ آفات و بلیات سمجھتے تھے۔ ان کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں
دعا کرتے۔ ان رِوایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور
دیگر اکابرینِ اُمت نے ان آثار و تبرکات سے نہ صرف یہ کہ فیوض و برکات حاصل
کئے بلکہ مقاصدِ جلیلہ بھی پورے کئے۔
’’جھجاھا غفاری نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عصا مبارک
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے چھین لیا اور اسے اپنے گھٹنے پر رکھ کر
توڑنے کی (مذموم) کوشش۔ لوگوں نے شور مچا کر اسے روک دیا۔ پھر (اس کو اس بے
ادبی کی غیبی سزا اس طرح ملی کہ) اس کے گھٹنے پر پھوڑا نکلا جو ناسور بن
گیا جس کی وجہ سے اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی اور وہ ایک سال سے کم عرصہ میں مر
گیا۔
:: شفاء ، 2 : 621
اصابة في تمييز الصحابة، 1 : 519
تاريخ الصغير امام بخاری، 1 : 79، رقم : 311
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب و احترام واجباتِ ایمان میں
سے ہے۔ ادب و احترام کا یہی تقاضا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
سننِ مقدسہ، احادیثِ مبارکہ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر
مبارک کے باب میں بھی ملحوظ رہنا چاہئے۔ اس طرح اہلِ بیتِ اطہار، صحابہ
کرام رضی اللہ عنھم سب کی محبت و ادب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی مبارک نسبت سے ضروری ہے۔ ایسے امور کے ملحوظ رکھنے سے اﷲ تعالیٰ اہلِ
ایمان کو بہت سی ظاہری و باطنی برکات سے نوازتا ہے۔ اس کے برعکس ان کی بے
ادبی کرنے سے بہت سی آفات و بلیات نازل ہوتی ہیں جن کاعام لوگوں کو ادراک
نہیں ہوتا۔ |