مسلمانوں کے خلاف نفر ت و عناد کے بڑے طوفانوں پر عالمی
برادری کی خاموشی نے کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ دنیا بھر
میں مسلمانوں کے خلاف زیادتی کے ہونے والے واقعات پر جہاں مسلم اکثریتی
ممالک اور عالمی برداری نے چپ سادھ لی ہے تو پاکستان سمیت دنیا بھر مظاہرین
کے احتجاج کا سلسلہ بھی تھم گیا۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے کبھی کوئی مسئلہ ہی
نہیں تھا ۔اسے ہم بے حسی کہیں یا پھرعالمی برادری کی جانب سے خود فراموشی
جو کسی مخصوص مفادات کے تحت صورتحال کو سنگین بتا یا کرتی تھی ۔ بالخصوص
عالمی سیاسی منظر نامے میں تمام سیاسی، سماجی و مذہبی جماعتوں کا ر خ و
ترجیحات تبدیل ہوچکے ہیں۔ زیر السطور اجمالی طور پر اس وقت ان خاص معاملات
کا تذکرہ مقصود ہے جن کے لئے دنیا بھر بھرپور آواز اٹھائی گئی لیکن یکا یک
مسلم اکثریتی ممالک سمیت عالمی برداری نے چپ سادھ لی ۔
بھلاہم کیسے بھول سکتے ہیں کہ میانمارمیں روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ ظلم و
ستم روا رکھا گیا اور ان کے ساتھ شدت پسند بدھ پرستوں نے ظلم کی تاریخ رقم
کی۔روہنگیائی مسلمانوں کو میانمارکی انتہا پسند حکومت نے جہاں تاراج کیا
وہاں دنیا کی مظلوم ترین اقلیت کے خلاف ظلم کے ہر حربے استعمال کرتے ہوئے
انہیں لاکھوں کی تعداد میں ملک بدر کردیا ۔ اس وقت روہنگیائی مسلمان جس طرح
بنگلہ دیش میں اذیت ناک زندگی بسر کررہے ہیں وہ عالمی برادری کے لئے
شرمندگی کا مقام ہے۔ ضرورت اس بات کی بھی تھی کہ رمضان المبارک میں زکوۃ و
فطرہ کی رقم سے روہنگیائی مسلمانوں سے اظہار یک جہتی کے لئے عالمی سطح پر
بدحال روہنگیائی مسلمانوں کی مدد کی جاتی ، انہیں خوراک اور وبائی امراض سے
بچانے کے علاوہ سر ڈھانپنے کے لئے وسائل کی حتی المقدور فراہمی کی جاتی ،
لیکن مخیر مسلم ممالک کی خاموشی سے لگتا ہے کہ جیسے روہنگیائی مسلمانوں سے
ان کا کبھی واسطہ ہی نہیں ۔روہنگیائی مسلمانوں کے لئے احتجاج ، مظاہرے ،
قراردادیں سمیت میڈیا کے نام نہاد دورے اور بڑی بڑی باتیں سب ہوائی دعوے
ثابت ہورہی ہیں۔روہنگیائی مسلمان اس وقت بد ترین حالات سے گذر رہے ہیں ۔
بھوک مٹانے کے لئے جسم فروخت کرنے میں مجبور ہیں ۔ لالچ اور مفاد پرست کا
شکار گروہ نابالغ اور نوجوان لڑکیوں سمیت خواتین اور بے گار کے لئے بچوں کی
خرید و فروخت سمیت روہنگیائی مسلمان اذیت ناک زندگی بسر کرنے کے لئے شدید
تکالیف سے گزر رہے ہیں ۔اس قت بنگلہ دیش میں میانمار فوجی آپریشن کے نتیجے
میں تقریباََ سات لاکھ30ہزار روہنگیائی مسلمان مشکل ترین ہجرت کرکے اذیت
ناک کیمپوں میں بنگلہ دیشی شہرسے دور جانوروں سے بھی بدتر زندگی گذار رہے
ہیں۔ بنگلہ دیش اور میانمار حکومتوں کے درمیان روہنگیائی افراد کی واپسی کا
ایک معاہدہ طے پایا گیا تھا کہ ہر ہفتے 1500افراد کو واپس راکھائن بھیجا
جائے گا ۔ جنوری2017میں طے پانے والے اس معاہدے کو روہنگیائی مہاجرین بھی
سمجھنے سے قاصر ہیں کیونکہ معاہدے کی بعض شقیں ایسی ہیں جن پرعمل درآمد
ممکن نہیں ہے۔ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ میانمار حکومت اُن ہی مہاجرین
کوشہری سمجھے گی جو روہنگیائی کے بجائے خود کو بنگالی تسلیم کریں ۔ اس کے
ساتھ ان کے جلے ہوئے گھروں ، دیہاتوں کی ملکیت ثابت کرنے کے لئے انہیں
شواہد دینا ہونگے ۔نسل کشی کے بھیانک ترین بحران میں 25اگست 2017کے فوجی
کریک ڈاؤن کے بعد شروع ہونے والے آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں روہنگیائی
افراد کو دو برس میں واپس بھیجے جانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ لیکن
روہنگیائی مسلمانوں کو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ ان کی مذہبی شناخت اور
ان سے نسلی امتیاز نہیں رکھا جائے گا اور ان کی قانونی حیثیت تسلیم کرتے
ہوئے اور ان کی دوبارہ نسل کشی نہیں کی جائے گی۔ معاہدے کے مطابق روزانہ
1500سے 300اور ہر ہفتے15ہزار مہاجرین کی فہرست بھی تصدیق کے لئے میانمار کو
دی جائے گی جس کی تصدیق کے بعد 150افراد کو ہر کیمپ میں جگہ ملے گی۔
روہنگیائی مسلمانوں کو میانمار حکومت سے بڑے خدشات وابستہ ہیں کیونکہ ان کی
شہریت کے حوالے سے معاہدے میں کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔المیہ یہ بھی ہے کہ
روہنگیائی مسلمانوں کو بنگلہ دیش بھی تسلیم نہیں کرتا اور مہاجرین کیمپوں
میں پیدا ہونے والے بچوں کو پیدائش کے سر ٹیفکیٹ جاری نہیں کئے جاتے۔ایک
اور معاملہ بھی بڑا حساس ہے کہ میانمار سے ہجرت کے بعد روہنگیائی مسلمانوں
کی زمینوں پر شدت پسندوں اور فوج نے قبضہ کرلیا ہے اب انہیں واپس زمینیں
ملیں گی یا نہیں اس پر بھی کوئی یقین دہانی نہیں ہے بلکہ یہ شرط عائد کی
گئی ہے کہ ان کو ملکیتی ثبوت دینا ہونگے ۔ روہنگیائی مسلمانوں کا کہنا ہے
کہ ان کے آبا ء زندہ جلا کر مار دیئے گئے اور وہ کسی نہ کسی طرح بے سرو و
ساماں اپنی جانیں بچا کر آئے ہیں ۔ان حالات میں کس طرح میانمار حکومت کو
مطمئن کیا جا سکتا ہے کہ زمینوں کی ملکیت کس کے نام پر تھی۔میانمار حکومت
کا دعویٰ ہے کہ وہ نئے دیہات( کیمپ) قائم کررہی ہے اس طرح لگتا یہی ہے کہ
مہاجرین کو اپنی زمینیں واپس ملنے کے امکانات ناممکن ہیں۔ بات یہاں پر صرف
روہنگیائی مسلمانوں کے تحفظات تک محدود نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ کے اعلیٰ
اہلکار کی جانب سے8اپریل 2018 کو بیان سامنے آیا کہ میانمار میں ابھی تک
روہنگیائی مسلمانوں کے لئے حالات سازگار نہیں ہیں اس لئے ان مہاجرین کی
راکھائن واپسی فی الحال ممکن نہیں ہے ۔ میانمار حکومت کی جانب سے باربار
کہا جارہا ہے کہ وہ روہنگیائی مسلمانوں کو واپس لینے کے لئے راضی ہیں لیکن
اقوام متحدہ کے اعلیٰ اہلکارنائب سیکرٹری جنرل اُرزُولا میولر نے واضح کیا
ہے کہ ابھی میانمار میں روہنگیائی مسلمانوں نے سازگار نہیں کے لئے حالات
اتنے سازگار نہیں کہ مہاجرین رضاکارانہ طور پر واپس جانے کے لئے تیار ہوں
کہ انہیں عزت کے ساتھ اور دیرپا بنیادوں پر محفوظ زندگیاں مل سکیں ۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ روہنگیائی مسلمانوں کی زمینوں اور دیہاتوں کو مسمار
کرکے گھرو ں کو جلادیا تھا ۔ روہنگیا میں تقریباََ55گاؤں مسمار کئے گئے اور
دیہاتوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ۔عالمی ادارے کی نائب جنرل سیکرٹری کا
یہ فیصلہ میانمار کے چھ روزہ دورے کے بعد سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے
میانمار حکومت کے اقدامات پر اپنے سخت تحفظات کا اظہار کیا تھا
۔10مئی2018کو اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل نے بھی میانمار پر زور دیا
کہ مہاجر کیمپوں میں انتہائی ابتر زندگی بسر کرنے والے روہنگیائی مہاجرین
کی واپسی کے لئے اقدامات بروئے کار لائیں جائیں۔سلامتی کونسل کی ایک ٹیم نے
بھی حقائق معلوم کرنے کے لئے28مارچ سے یکم مئی تک ان ممالک کا دورہ کیا تھا
۔سلامتی کونسل نے بھی صرف میانمار حکومت کو مہاجرین کی محفوظ واپسی تک ہی
اپنے بیان کو محدود رکھا ہے ۔
مسلم نسل کشی کے دوسرے سب بڑے بحران میں شام کے مسلمانوں کی واپسی کا
باحفاظت عمل بھی حل طلب ہے جس کی جانب توجہ کم دی جارہی ہے۔ مملکت شام میں
سات برسوں کے دوران لاکھوں کی تعداد میں شامی مسلمانوں کو اپنا گھر بار
چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی ، ان کے گھروں کو کارپیٹ بمباری کرکے تباہ و برباد
کردیا ۔ فرقہ ورانہ خانہ جنگیوں میں نہتے عوام کو عالمی طاقتوں نے اپنی
بربریت کا نشانہ بنایا اورگھر تو گھر ہسپتال بھی نہیں چھوڑے اور مریضوں کو
بمباری کا نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا ۔ بلکہ متعدد بار کیمیائی ہتھیاورں کا
استعمال کیا گیا جس میں سینکڑوں افراد و بچے خواتین متاثر ہوئے ۔ شام میں
خانہ جنگی کے بعد معاملات بشار اسد کے قابو میں آچکے ہیں۔ داعش کی شکست کے
بعد روس اور امریکا سمیت ترکی کا اثر رسوخ شام میں قائم ہوچکا ہے اور
مزاحمت گروپوں کی پیش قدمی رک چکی ہے ۔ ان حالات میں اسد رجیم حکومت کی
جانب سے شامی مہاجرین کی واپسی کا فارمولہ بھی سامنے آیا کہ تباہ حال
علاقوں میں وہی مہاجرین واپس آسکیں گے جن کے پاس ملکیتی ثبوت ہوگا۔ان حالات
میں روہنگیائی مسلمانوں کی طرح شامی مسلمانوں کو اس تکلیف دہ صورتحال کا
سامنا ہے کہ وہ جنگ زدہ علاقوں سے گھروں کی تباہی اور جانوں کی قربانی کے
بعد بچے کچے کنبے کے ساتھ ہجرت کے موقع پر اپنی جانیں بچاتے یا پھر ملکیت
کے کاغذات؟۔
شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد امریکا ، برطانیہ نے اپنے
اتحادیوں کے ساتھ ملکر اُن خالی عمارتوں پر حملہ کیا تھا جو روس کے کہنے پر
اسد رجیم پہلے ہی خالی کراچکا تھا ۔ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں اب تک
سینکڑوں نہتے افراد جاں بحق ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک عالمی ادارے کی جانب سے
کسی بھی تحقیقات پر کسی بھی گروپ کو ذمے دار قرار نہیں دیا گیا ۔اس وقت شام
میں اسرائیلی طیارو ں کی جانب سے وقتاََ فوقتاََ حملے کرکے ایرانی فوجیوں
او ر ہتھیارو ں کو نقصان پہنچانے کے دعو یٰ کئے جاتے ہیں۔ تو دوسری جانب
ایران سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ پائدار امن کے لئے اپنے جنگجو ملشیاؤں
کئی واپسی کو ممکن بنائے جو اجرت پر بھرتی کرکے یا پھر رضا کارانہ طور پر
بشار الاسد کی مدد کے لئے ایران سے مسلح بھیجی گئی تھی۔ ان مطالبات میں
واضح طور پر عراق کا بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ عراق و شام میں اب جنگ کی
صورتحال تبدیل ہوچکی ہے اور ایران کے پاس کوئی جواز نہیں ہے کہ وہ حزب اﷲ ،
لشکر زنبیون اور فاطمید بریگیڈ کے علاوہ مختلف ناموں سے پاسداران انقلاب کے
زیر سایہ مسلح جنگجو ؤں کی حمایت ترک کرکے ا ن مسلح تنظیموں کا کردار عراق
و شام میں ختم کردے۔اس وقت پاسدارن انقلاب کے حمایت یافتہ مسلح جنگجوؤں کی
ہزاروں کی تعداد عراق و شام میں موجود ہے اور ایران اس حوالے سے واضح موقف
دیتا ہے کہ داعش کے خاتمے اور عراق و شام کی حفاظت کے لئے ان مملکتوں کی
درخواست پر ایران فوجی مشاورت کے لئے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا ۔ اسی طرح
جنگجو ملیشیا بھی اسرائیلی خطرات کی وجہ سے بشار رجیم کے لئے موجود رہیں
گی۔ان حالات میں شامی مسلمانوں کی ہجرت اور ان کے خلاف ہی عالمی قوتوں کی
بے دریغ طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے اور بد قسمتی سے دونوں جانب صرف
مسلمان ہی نشانہ بنتے ہیں ۔
مسلم امہ کی مسلسل خاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔واضح رہے کہ بدترین سیاسی
حالات میں عراق میں انتخابات ہوئے جس میں بیرونی مداخلت کاروں کے سب سے بڑے
مخالف مہدی آرمی نامی ملیشیا کے سابق سربراہ مقتدیٰ الصدر کے اتحاد نے ملک
کے پارلیمانی انتخابات میں54نشستیں حاصل کر کے کامیابی حاصل کی ۔ مقتدیٰ
الصدر عراق میں ایران کی مداخلت کے شدید مخالف ہیں ۔ انہوں نے از خود
انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا جس کی وجہ سے وہ وزیر اعظم تو نہیں بن سکتے
لیکن عراق میں حکومت سازی کے لئے اہم کردار ضرور ادا کرسکتے ہیں ۔ مقتدیٰ
الصدر عراق میں ایرانی مداخلت کے جہاں شدید مخالفین میں شمار ہوتے ہیں تو
ان کے مقابلے میں ایرانی حمایت یافتہ42امیدواروں نے بھی کامیابی حاصل کرلی
ہے۔ عراق میں داعش کی پسپائی کے بعد گزشتہ برس اعلان کے بعد پہلے پارلیمانی
انتخابات ہوئے۔لیکن مسئلہ اہم یہی ہے کہ کیا داعش اور عراق میں فرقہ وارنہ
خانہ جنگیوں کی وجہ سے عراقیوں کو سکون مل سکے گا اور لاکھوں تارکین وطن
عراق کس طرح اور کب تک اپنے اپنے علاقوں میں بحال ہوسکیں گے ۔ یہ بھی ایک
اہم حل طلب مسلم المیہ ہے۔
امت مسلمہ کو راکھائن ، عرا ق اور شام میں مشکل ترین حالات کا سامنا ہے تو
دوسری جانب مسلمانوں کا دیرینہ مسئلہ فلسطین بھی ہنوز حل طلب ہے۔ فلسطینی
مسلمانوں پر یہودی آباد کاروں اور سفاک اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے ظلم و
ستم کے پہاڑ تو ڑے جا رہے ہیں ۔ گزشتہ دنوں ایک بار پھر امریکی سفارت خانے
کی بیت المقدس منتقلی کے خلاف احتجاج پر 69 فلسطینی مسلمان کو شہیداور 2
ہزار سے زائد فلسطینیوں کوزخمی کردیا گیا ۔ اقوام متحدہ ہمیشہ کی طرح عضو
معطل رہی اور اسلامی تعاون تنظیم نے فلسطین کے مسئلے پر اجلاس طلب کیا ۔ جس
کی صدارت ترکی نے کی ۔ جذباتی تقاریر ایک مرتبہ پھر کی گئیں اور اس عزم کا
اعادہ کیا گیا کہ فلسطینی مسلمانوں کی حفاظت و حقوق کے لئے ہر ممکن حد تک
کاروائی کی جائے گی۔2016میں اسلامی سربراہان مملکت کے13ویں اجلاس میں
اسلامی ممالک دہشت گردی پھیلانے پر لبنانی شدت پسند تنظیم حزب اﷲ کی مذمت
کی تھی۔ مشترکہ اعلامیہ میں ایران کو دہشت گرد تنظیموں سے روابط اور معاونت
پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔اس اجلاس میں صدر ممنون حسین، سعودی
فرمانروا شاہ سلمان اور ایرانی صدر سمیت ستاون مختلف ممالک کے سربراہان اور
نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ اجلاس میں دہشت گردی کو مسلم امہ کا سب سے بڑا
مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف مشترکہ کارروائیوں پر اتفاق کیا
تھا۔دسمبر2017 میں استنبول میں ایک اور اجلاس منعقد ہوا اس اجلاس میں سابق
وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔ سربراہ اجلاس میں
امریکا کی جانب سے اپنے سفارتخانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل
کرنے کے فیصلے کا جائزہ لیا گیا تھا جب کہ اسلامی تعاون تنظیم کے رہنماؤں
نے صورتحال سے نمٹنے کے طریقوں پر غور کیا تھا ۔ لیکن ہر بار کی طرح یہ
اجلاس بھی بغیر کسی عملی حکمت عملی طے کئے بغیر رسمی اعلامیہ جاری کرکے
اختتام پذیر ہوگیا تھا ۔ بتایا گیا کہ غور فکر کے بعد بیت المقدس کے معاملے
پر مشترکہ مؤقف اپنایا جائے گا، امریکی انتظامیہ سے اپنے فیصلے پر نظرثانی
کے لئے کہا جائیگا لیکن سب بے سود رہا۔ حالیہ 19 مئی2018کو اسلامی کانفرنس
تنظیم (او آئی سی) کا دوبارہ ہنگامی اجلاس منعقد ہوا ۔ روایتی طور پر ایک
بار پھر او آئی سی نے اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں نہتے فلسطینیوں کے قتل
عام کی شدید مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ وہ اسرائیلی
مظالم کا نوٹس لے، القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا امریکی
اقدام فلسطینی عوام کے قانونی، تاریخی، فطری اور قومی حقوق پر حملہ اور امن
کے امکانات، بین الاقوامی امن اور سلامتی کیلئے جان بوجھ کر خطرات پیدا
کرنے کی ایک کوشش ہے، القدس شریف کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے یا
وہاں پر اپنے سفارتخانے منتقل کرنے والے ممالک کے خلاف مناسب سیاسی،
اقتصادی اور دیگر نوعیت کے اقدامات کئے جائیں گے۔ نام نہاد اسرائیلی ریاست
کی آڑ میں ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھر بار اور صدیوں سے ملکیتی
اراضی سے محروم کر دیا گیا۔ آج ان فلسطینیوں کی تعداد بڑھ کر 60 لاکھ تک جا
پہنچی ہے۔لقدس شہر کو دو بار صفحہ ہستی سے مٹایا گیا۔ 23 بار اس کا محاصرہ
کیا گیا،52 بار جنگوں کا میدان بنا، 44 بار اس پر قبضہ کیا اور آزاد کرایا
گیا۔گذشتہ برس 6 دسمبر کو جب امریکی صہیونیت نواز صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے القدس
کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پرتسلیم کیا تو فلسطینی قوم نے ایک نئی
تحریک انتفاضہ شروع کی۔ اب تک اس تحریک کے دوران 140 فلسطینی شہری شہید کیے
جا چکے ہیں۔ ہزاروں زخمی اور گرفتار کیے جا چکے ہیں۔
مسلم امہ پر ظلم و ستم کا ذکر ہو تو مقبوضہ کشمیر کو کس طرح بھلا جا سکتا
ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ اور اٹوٹ انگ ہے۔ لاکھوں بھارتی فوجوں کی جانب
سے روزانہ کی تعداد میں بربریت کی تاریخ رقم ی جا رہی ہے۔ کشمیری نوجوانوں
کو ریاستی تشدد کا سامنا ہے ۔ سیکڑوں کشمیری مسلمانوں کی آزادی جبراََ سلب
کرکے انسانیت سوز تاریخ رقم کی جا رہی ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو
جبراََ نقل مکانی پر مجبور کیا جارہا ہے اور ریاستی آپریشن میں نے گناہ
کشمیریوں کی گرفتاریاں اور عصمت دری کے واقعات معمول بنتے جارہے ہیں۔ بھارت
کی شدت پسند حکومت نے متنازع وادی میں طاقت کا مظلوم پر بے دریغ استعمال
کرنے کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے۔ ہزاروں کشمیری نوجوان آزادی کی تحریک
میں شہید ہو چکے ہیں ، لاکھوں زخمی ہوچکے ہیں ۔ قابض بھارتی فوجیوں کی جانب
سے مسلمانوں کو مذہبی رسومات کی آزادی نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال
روہنگیائی ، عراقی ، شامی اور فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم سے جدا
نہیں ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو مسلم اکثریتی ممالک کی جانب سے بے حسی
کا سامنا ہے۔ مسلم ممالک کی جانب سے فروعی مفادات کی وجہ سے مقبوضہ کشمیرکا
مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار ددوں کے مطابق بھی حل کرانے کے لئے کوئی سنجیدہ
کوشش نہیں کی جا رہی۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کا نہتے کشمیریوں پر ظلم
و ستم تھم نہیں رہا نوجوانوں کی شہادت کے بعد علاقہ بھر میں احتجاج جاری
رہتے ہیں، قابض فوج کے درندہ صفت اہلکار آپریشن کی آڑ میں گھروں کو بھی
نقصان پہنچاتے ہیں، گزشتہ دنوں شہادت پانے والوں میں کشمیر یونیورسٹی کے
پروفیسر ڈاکٹر رفیع بٹ بھی شامل ہیں،واقعے کے بعد علاقہ مکینوں نے شدید
احتجاج کیا جس کے دوران مظاہرین اور بھارتی فورسز کے درمیان جھڑپیں بھی
ہوئیں،،بھارتی اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے فائرنگ، پیلٹ گن
اورآنسو گیس کی شیلنگ کی جس کے نتیجے میں متعدد مظاہرین زخمی ہوئے، کٹھ
پتلی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے، جبکہ کشمیر یونیورسٹی میں ہونے
والے امتحانات بھی ملتوی کر دیئے گئے تھے۔2جون کو مقبوضہ وادی میں دوبارہ
ہڑتال کی جائے گی۔
مختصر جائزے میں تمام اسلامی ممالک میں ہونے والی خانہ جنگیوں اور مسلم امہ
کو درپیش مسائل کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن المیہ یہی ہے کہ عراق ،
شام ، لبنان ، لیبیا ، صومالیہ ، یمن ، افغانستان ،مقبوضہ کشمیر ، فلسطین
اور میانمار سمیت مسلم ممالک میں امت مسلمہ کو اپنوں سے بھی تکلیف کا سامنا
ہے اور اغیار سے بھی۔ امت مسلمہ کسی بھی بڑے سانحے پرنمائشی احتجاج و
مظاہرے سمجھ کر یہ سمجھتی ہے کہ اُس نے اپنا فرض ادا کرلیا اور اب انہیں
مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں تو اسی خام خیالی کا فائدہ ہنود ، یہود و
نصاریٰ اٹھا رہے ہیں۔ مسلم اکثریتی ممالک کے سربراہوں کو اپنا طرز عمل
تبدیل کونا ہوگا اور کروڑوں مسلمانوں کو الم ناک صورتحال سے باہر نکالنے کے
لئے عملی کردار ادا کرنا ہوگا ۔ کیونکہ ان کے فروعی اختلافات کا خمیازہ صرف
مسلمانوں کو ہی بھگتنا پڑ رہا ہے اور تمام تر نقصان صرف مسلمانوں کو ہو رہا
ہے۔ اسلامی ممالک فروعی اختلافات سے باہر نکلنا ہوگا ۔المیہ یہ ہے کہ امت
مسلمہ کے مسائل پر اسلامی تعاون تنظیم ( او آئی سی ) اور اقوام متحدہ نے
مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔ مسلم اکثریتی ممالک کی عوام اپنے
مسلمان بھائی ، بہنوں کی تکالیف پر رنجیدہ و بے بس ہیں لیکن مسلم اکثریتی
ممالک کے فروعی مفادات کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمان انتہائی تکلیف دہ اور
اذیت ناک زندگی بسر کررہا ہے ۔ مسلم ممالک کے سربراہوں کو اپنی پالیسیاں
تبدیل کرنا ہوگی کیونکہ یہی سب کے حق میں بہتر ہے۔
|