ساحر حسب معمول شام کو آفس سے گھر لوٹا اور دروازے پر
دستک دی تو صائمہ نے پہلے دیکھا پہر پوچھا کون ہے تو ساحر نے اکتائے ہوئے
انداز سےجواب دیتے ہوئے کہا کہ بھئی میں ہوں دروازہ کھولو تو صائمہ نے
دروازہ کھولا اور جیسے ہی ساحر اندر آیا اس نے فورأ دروازہ بند کردیا ار ے
بھئی کیا ہوا ہے اور یہ تم کیا کررہی ہو تم اتنی پریشان کیوں ہو آخر
ماجراکیا ہے ساحر غصے میں اتنے سارے سوالات ایک ساتھ کرتے ہوئے صوفے پر
بیٹھ گیا صائمہ جلدی سے ہاتھ میں پانی کا گلاس لائی اور ساحر کو دیتے ہوئے
کہا کہ بھئی یہ ارشاد صاحب ہیں نہ ارشاد صاحب کون اچھا وہ سامنے والے ساحر
نے یاد کرتے ہوئے کہا ہاں صائمہ نے کہا ارے وہ نشے کی حا لت میں بہر اپنے
دروازے کے آگے کھڑے نہ جانے کیا کیا اول فول بک رہے تھے مجھے تو ان سے بہت
ہی ڈر لگ رہا تھا اس لئیے میں تو دروازہ بند کرکے اندر بیٹھ گئی اور یہ ہی
دعا کررہی تھی کہ آپ جلدی سے آجائیں اچھا تو یہ بات تھی ساحرنے سر پکڑ کر
ٹھنڈی ہ بھرتے ہوئے کہا ارے پاگل وہ تو ان کا روز کا معمول ہے ویسےاچھے
بھلے ایک ادارے کے ایک اچھے عہدے پر فائز ہیں ہر طرح کی سہولیات بھی حاصل
ہیں لیکن بس اس ایک بری لت کی وجہ سے لوگ ان سے دور دور ہی رہنا اچھا
سمجھتے ہیں اور اس عادت کی وجہ سے ہی وہ پورے محلے میں بدنام ہیں ساحر نے
صائمہ کو سمجھا تے ہوئے کہا وہ یاد نہیں ابھی پچھلے دنوں اکبر صاحب کے بیٹے
سے نشے کی حالت میں الجھ پڑے تھے وہ تو بچہ بہت تمیز والا تھا اگر کوئی اور
ہوتا تو ارشاد صاحب کو دن میں تارے دکھادیتا اچھا بس اب چھوڑو یہ یہ قصہ
میں فریش ہوکر آتا ہوں اور تم جلدی سے کھانا لگاؤ بڑی بھوک لگی ہے ساحر
صائمہ کو کہتا ہوا واش روم کی طرف چلا گیا .
اگلی صبح فجرکے وقت ایک عجیب سا شور اور لوگوں کی آپس میں ہونے والی گفتگو
سے ساحر کی آنکھ کھل گئی وہ اٹھا اور بہر کی طرف جھانک کر دیکھا تو لوگوں
کا رش تھا اس سے رہا نہ گیا اور وہ بہر نکل گیا تب اسے معلوم ہوا کہ جناب
ارشاد صاحب کا فجر کی نماز کے دوران سجدے کی حالت میں انتقال ہوگیا اور ہر
وہ شخص جو زندگی میں ان سے دور رہتا تھا اور ان کے بارے میں میں اچھی رائے
نہیں رکھتا تھا وہ بھی اس وقت کھڑا اللہ کی مصلحت کے آگے بے بس دکھائی دے
رہا تھا ساحر ساحر کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ابھی کل ہی صائمہ اور میں جس
شخص کی بری عادتوں اور اس پر ہونے رونما ہونے والے واقعات کا تذکرہ کررہے
تھے آج وہ شخص اس دنیا سے گیا بھی تو اللہ کے پسندیدہ عمل یعنی نماز ادا
کرتے ہوئے اور وہ بھی فجر کی نماز کے سجدے کے دوران نہ جانے اللہ رب العزت
کو اس شخص کی کونسی ادا پسند آگئی ساحر افسوس کے ساتھ گھر میں داخل ہوتا ہے
اور جب یہ خبر صائمہ کو اٹھاکر سناتا ہے تو صائمہ کی آنکھیں بھی حیرت سے
کھلی کی کھلی رہ گئی جبھی تو اس رب کو نقطہ نواز بھی کہا جاتا ہے نہ جانے
اس رب العزت کو اس شخص کی کونسی ادا پسند آگئی جو اس نے نہ صرف سجدے کی
حالت میں لیکن فجر کی نماز میں اس کو اپنے پاس بلایا ویسے بہت نفیس ,
بااخلاق اوراچھے دل کے مالک تھے جب بھی ملتے تھے بڑی محبت اور اخلاص سے
ملتے ساحر نے جناب ارشاد صاحب کے بارے میں بتلاتے ہوئے صائمہ سے کہا اور
کہا کہ ہم انسان بھی کیا شہ ہیں کسی شخص کی کسی بری عادت کو اتنا برا سمجھ
لیتے ہیں کہ اس سے ملنا پسند نہیں کرتے اور دور دور رہتے ہیں ویسے بھی ہم
لوگ انسان ہیں اور ہر انسان میں کچھ اچھی باتیں اور کچھ بری باتیں ہوتی ہیں
اور انسان کی ان باتوں کی جزا وسزا کا مالک اللہ کی ذات ہے کسی کے اندر
کوئی بری بات یا بری عادت کو دیکھ کر ہمیں یہ فیصلہ نہیں کرلینا چہئیے کہ
یہ شخص برا انسان ہے اور کسی کو نیک نمازی دیکھکر اسے نیک انسان سمجھ لینا
بھی ہماری بھول ہے وہ اللہ کی ذات بڑی بے نیاز ہے نہ جانے کونسے برے عمل کی
وجہ سے ہم اس کی گرفت میں آجائیں اور کونسے اچھے عمل کی وجہ سے وہ ہمیں
جناب ارشاد صاحب کی طرح موت عطا کردے ساحر اپنی آنکھ سے بہتے ہوئے آنسو کو
صاف کرتے ہوئے صائمہ کی طرف دیکھتا ہے تو اس کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے بھیگی
ہوئی ہوتی ہیں .
اس لئیے ہمیں چہئیے کہ اگر کہیں چھوٹے سے چھوٹا نیکی کرنے کا موقع بھی ہاتھ
لگ جائے تو اسے ضائع
نہ کریں اور چھوٹے سے چھوٹا موقع برائی کرنے کا بھی ملے تو اس سے بچیں اور
چہے کوئی کیسی بھی عادت کا مالک ہو ہمیں اس سے اچھی طرح سے ملنا چہئیے کیوں
کہ وہ رب العزت قادر مطلق ہے اور نقطہ نواز بھی اور اس کی ہر بات میں کوئی
نہ کوئی مصلحت کارفرما ہوتی ہے جسے وہ ہی جانتا ہے . |