احمد یسٰین نے اب تک ایک سو جوان تیار کئے تھے جو اسلام کے لئے اپنی جان
قربان کرنے کے لئے تیار تھے۔ ان جوانوں کو بیس گروپوں میں تقسیم کر دیا گیا
تھا۔ اور ان کو اُن بیس ممالک کے حالات اور وہاں کے رہن سہن کی تربیت دی
گئی تھی جہاں پر ٹی ایف ڈبلیو کام کر رہی تھی۔ ٹی ایف ڈبلیو کی ضرورت کے
پیش نظر ان جوانوں کو تعینات کیا جاتا تھا۔ انہی جوانوں میں زمرد خاں بھی
تھا ۔ وہ بھی اﷲ کے رستے میں اپنی جان دینے کو تیار تھا ۔ یہ سو جوان بس
اسی کام کے انتظار میں نہیں رہتے تھے بلکہ ان سے دوران تربیت رفاہی کام لئے
جاتے جن کا انہیں باقاعدہ معاوضہ بھی دیا جاتا تھا ۔ اگرچہ وہ ایسا نہیں
کرنا چاہتے تھے کہ اس کام کا مشاہیرہ ہیں مگر ان کی ضروریا ت اور ان کے اہل
خانہ کی ضروریات بھی تھیں اس لئے انہیں معقول رقم دی جاتی تا کہ وہ اپنے
اہل خانہ کے لئے بار نہ بنیں ۔
**۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔**
رازی کے تمام ممبران کو حضرت صاحب نے بلایا تھا ۔ رئیس احمد ناصر ، ریاض
علوی، یامین مرزا، زکریا مختا، احمد یسٰین اور یاسرجمال سب حیران تھے کہ
انہیں اتنی عجلت میں کیوں طلب کیا گیا ہے ۔ سب رئیس کے چہرے کی طرف دیکھ
رہے تھے وہ بھی انہیں کی طرح لاعلم تھا۔ وہ اسی شش و پنج میں مبتلا تھے کہ
حضرت صاحب کی آمد ہوئی۔ سب ان کی تعظیم کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور جب وہ
بیٹھ گئے تو یہ سب حضرات بھی نیچے بیٹھ گئے۔ سب خاموش تھے اور اس انتظار
میں تھے کہ حضرت صاحب کچھ کہیں ۔
حضرت صاحب گویا ہوئے کہ اے صاحبو یہ دنیا فانی ہے۔ مگر انسان ہے کہ اسے
ابدی سمجھ بیٹھا ہے ۔ اور اسی وجہ سے وہ شیطان کا پیرو کار بن گیا ہے ۔ مگر
ہوتا وہی ہے جو اﷲ کی منشا ہو ، کیونکہ وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ انسان بہت
کچھ سوچتا ہے اور بہت کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ، مگر جس حال میں اسے
اﷲ نے رکھنا چاہے وہ اسی حال ہی میں رہتا ہے ۔ اس دنیا کی حوص اور طاقت
حاصل کرنے کی غرض سے انسان کو اندھا کر د یا ہے ۔ وہ نیکی بدی کا فرق مٹا
چکا ہے ۔ اس کے لئے دوسرے کو مات دینا ہی بڑائی بن گیا ہے ۔ ایسا انسان ابد
سے کر رہا ہے۔ مگر ایک گروہ ہمیشہ موجود رہا ہے جو ایسے لوگوں کے سامنے ڈٹ
جاتا ہے ۔ اور ایسا ہی ایک گروہ تم ہو۔ تم سب حیران ہو گے کہ میں نے
تمہیںیہاں کیوں بلایا ہے ؟ تو اس کا مقصد یہ ہے کہ دشمن ہمارے اردگرد اکٹھا
ہو رہا ہے ۔ اس کی خواہش ہے کہ ہمارا ادارہ ختم ہو جائے ۔ میں تمہیں یہ
نصیحت کرنے کے لئے آیا ہوں کہ اگر تم میں سے ایک بھی زندہ رہے تو اس کام کو
چھوڑنا نہیں ۔
اہم بات یہ ہے کہ تم سب نے اپنے آپ کو ہمیشہ صیغہ راز میں رکھنا ہے اس کے
لئے جتنی تدبیر یں ہو سکیں کر لو ۔ کبھی دشمن کے سامنے نہیں آنا کیونکہ اس
کے پاس اسباب بہت زیادہ ہیں اور یہ دنیا دارالاسباب بھی ہے۔
ہاں اگر کبھی یہ رازافشاں ہو بھی جائے تو ٹرسٹ کا ذکر اس میں نہ آئے ورنہ
بہت سے مسلمان حق دار مساکین و فقراء اپنی ضروریات سے محروم ہو جائیں گے
اور اس کے ذمہ دار ہم سب ہو ں گے ۔
اﷲ تمہارا حامی و ناصر ہو ۔
حضرت صاحب یہ نصیحتیں کر کے اٹھ کے چلے گئے ۔ اور وہ سب رئیس کی طرف متوجہ
ہوئے کہ وہ ہی حضرت صاحب کا نائب تھا اور رازی کا امیر ۔
رئیس نے ان سب کو آسان سی زبان میں یہ بات سمجھائی کہ حضرت صاحب کے فرمانے
کا مقصد یہ ہے کہ جیسے بھی ہو ہم اپنی سر گرمیاں ٹرسٹ سے باہر لے جائیں
کیونکہ اس سے ٹرسٹ کے نظروں میں آنے کا خطرہ ہے ۔
سب نے رئیس کی دانش کی داد دی ۔
اس نئی ہدایت کے مطابق انہوں نے اپنی منصوبہ بندی کرنے کا ارادہ کیا۔ اور
اپنا اپنا شعبہ ٹرسٹ سے باہر لے آنے کا قصد کیا۔ رئیس احمد ناصر اور ریاض
علوی نے نیوز ایجنسی بنانے کا کام لے لیا اور یاسر جمال اور یامین مرزا نے
ایک پرائیویٹ کالج بنا لیا۔
زکریا مختار اور احمد یسٰین نے جم کلب کھول لیا۔ اور ایک دوسرے سے کے
انٹرنیٹ سے منسلک ہو گئے ۔
راز میں تو وہ پہلے ہی تھی صرف رئیس کو ان کی رہائش گاہوں کا علم تھا مگر
اب اس سے بھی سخت حفاظتی اقدامات کر لئے ۔
احمد یسٰین کے جوان رفاہی کاموں میں لگے رہتے اور وہ انہیں مخصوص اوقات میں
اپنے کلب میں تربیت دیتا وہ ایسے کلب میں آتے جس میں عام لوگ آتے ہیں یعنی
ہر وقت کلب میں رہتے تھے۔
یاسر جمال اور یامین مرزا نے معاشیات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے
کالج بنا ڈالا جس میں وہ کاروبار کی غرض سے نہیں بلکہ ا پنے آب کو چھپانے
کی غرض سے بیٹھے تھے ۔
رئیس احمد ناصر اور ریاض علوی نے دفتر کے لئے فلیٹ خریدا اور نیوز ایجنسی
کا بورڈ لگا کر بیٹھ گئے ۔
جے جے اور ویلٹینا کو بھی ٹرسٹ سے نکال کر جم کلب میں لے آئے ۔ اس طرح رازی
اور ٹی ایف ڈبلیو کی سرگرمیاں بھی انہیں کے ساتھ ٹرسٹ سے باہر منتقل ہو
گئیں ۔
**۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔**
وار(WAR) نامی تنظیم کا وجود کسی کے علم میں نہیں تھا ۔ یہ حقیقت میں کیا
تھی اور کیا کر رہی تھی ۔ یہ نام بھی عجیب تھا ۔ اس نام کی حقیقت یہ تھی کہ
سپر مین اپنی تمام تر قوت استعمال کر کے اسلامی احیاء کی تحریکوں کو روکنا
چا ہا رہا تھا اور اس نے یہ نام اپنے اسی مشن کو دیا تھا ۔ وار میں اگر Aکے
بعد ’I‘کا اضافہ کر دیا جائے تو پھر اس کے معنی کھل کر سامنے آ جاتیں ہیں ۔
یہ بظاہر تو یہ منصوبہ ان تمام ممالک کے لئے تھا جہاں پر قائم حکومت کے
خلاف بغاوت ہو رہی تھی اور اسی مناسبت سے اس کانام انقلاب کے خلاف جنگ رکھا
گیا تھا ۔ یعنی War Against Revolutionلیکن اصل میں یہ اسلامی احیاء کے
خلاف جنگ WAr Against Islamic Revivalتھا۔ سپرمین کے پالیسی میکرز نے یہ
نیال جال تیار کیا تھا جس میں وہ بالخصوص عرب ممالک کو پھنسانے جا رہے تھے
۔ اس WARکے لئے وہ بالکل تیار تھے ۔ اور اس نے کئی ایک عرب ممالک کو مشورہ
بھی دے ڈالا تھا جو ان کی ’’وار‘‘ کے لئے تیار تھے ۔ کم وبیش تمام اسلامی
ممالک میں اس وقت اسلامی احیاء کی تحریکیں چل رہی تھیں ۔ کہیں ان کا اثر و
روسوخ زیادہ تھا اور کہیں کم تھا۔ اس اثرو رسوخ کو Exploitکرنے کے لئے اور
حکومتوں کو بلیک میل کر کے ان سے اپنے مطلب کا کام لینے ارادہ سپر مین نے
بہت پہلے ہی کر لیا تھا ۔ اس کے لئے اس نے ماہرین نفسیات کو ایک پینل تشکیل
دیا اور انہیں یہ کام سونپا کہ وہ مختلف ممالک میں جا کر ان تحریکوں کا
بغور مطالعہ کریں اور واپس آ کر بتائیں کہ ان حکومتوں سے کیسے کام لیا جا
سکتا اور کتنا کام لیا جا سکتا ہے ۔
اس منصوبے کا پہلا قدم یہ تھا کہ انٹرنیشنل سیٹلائٹ چینل کھولے جائین جن کے
ذریعے ان ممالک تک رسائی حاصل کی جائے اس کے بعد باقی کام بہت ہی آسان ہو
جائے گا ۔ ماہرین نفسیات کی سربراہی کارنیگی کر رہا تھا۔ سپر مین نے یہ
شعبہ بطور خاص قائم کیا تھا اور گاہ بگاہ اس کے کام کی نوعیت معلوم کرتا
رہتا تھا ۔ اس شعبے کی سفارش پر وار(WAR) منظم کی گئی اور اس مقصد کے لئے
سپر مین کا صوابدیدی فنڈحاضر تھا۔ اور جہاں چاہے جیسی چاہے امداد دستیاب
تھی۔
**۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔**
|