سسکیوں کی آواز اس کے کمرے میں گونج رہی تھی۔ رات کا وقت
تھا۔ پر رات کی تاریکی سے زیادہ اسے اپنا آپ تاریک لگ رہا تھا۔وہ موبائل پہ
ایک ہی نمبر بار بار ملا رہی تھی۔پر آگے سے آنے والی آواز اس کے اعصاب کو
اور کمزور کر رہی تھی ۔نمبر مسلسل بزی جا رہا تھا۔مت کرو ایسے پلیز مت کرو
اس کے اندر کوئی چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا ۔اس کے سامنے ایک ایک لمحہ کسی فلم
کی طرح چل رہا تھا۔ نہیں مجھے کچھ نہیں دیکھنا کچھ نہیں سسنا حریم چلائی
تھی ۔ پر یادیں اس کے چیخنے چلانے سے حتم نہیں ہونے والی تھیں بلکہ یہ روح
کا وہ قرض تھا جو شاید اب اسکی سانس کے ختم ہونے پہ ہی ادا ہونا تھا۔
اچانک موبائل کی سکرین روشن ہوئی تھی ۔ شہروز کی کال آرہی تھی۔ آنے والی
کال نے اچانک اس کی امیدوں کو پھر سے جگا دیا تھا ۔کہ شاید کوئی راہ نکل
آئے ۔اس نے فوراً کال ریسو کی تھی ۔حریم کے بولنے سے پہلے ہی دوسری طرف سے
آواز آئی تھی ۔کیا مسئلہ ہے کیا چاہتی ہو نمبر بلاک کر دیا ہے تمہارا میں
اب نہیں رہ سکتا تمہارے ساتھ اب ہمارے درمیان سب ختم ہو گیا ہے۔ بولتی کیوں
نہیں ہو اب پاگل ہوں میں جو بولتا جاؤں اور تم آگے سے خاموش رہو۔
حریم کی زبان اس کا ساتھ ہی نہیں دے پارہی تھی ۔الفاظ بن ہی نہیں پا رہے
تھے ۔بڑی مشکل حوصلہ کر کے اس نے بات شروع کی تھی۔ ہم ایسے الگ نہیں ہو
سکتے ہم پیار کرتے ہیں ہم نے شادی کرنی ہے ۔
شادی دوسری طرف سے آواز آئی تھی ۔اب شادی نہیں ہو سکتی ۔میں نہیں رہنا
چاہتا تمہارے ساتھ ۔ ہمارے ذہن نہیں مل پا رہے اب تم الگ سوچتی ہو میں الگ
سوچتا ہوں ۔ شادی کر کے میں تمہاری اور اپنی زندگی خراب نہیں کر سکتا۔
لیکن ہمیں دو سال ہو گئے ہیں ساتھ میں نہیں رہ سکتی آپ کے بغیر پلیز میری
سچوئشن کو سمجھیں شہروز۔
رہ لو گی حریم ۔اور بہت خوش رہو گی۔ اب جو بھی ہو ہم ساتھ نہیں رہ سکتے
اپنی لائف میں آگے بڑھ جاؤ۔
شہروز میرے پاس آگے بڑھنے کے لیے اب بچا ہی کیا ہے ۔میرے تو دونوں ہاتھ
خالی ہیں۔
کچھ خاموشی کے بعد پھر آواز آئی تھی بھر جائیں گے ہاتھ بھی جب مجھ سے کوئی
بہتر مل جائے گا۔
یہ الفاظ حریم کے دل کو چیر گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ |