یہ سرینگرہے، جنت ارضی کہلانے والے کشمیر کا گرمائی
دارالحکومت اور خطے کا سب سے بڑا مرکز جو اِن دنوں بھارت کے خونی پنجوں اور
جبڑوں میں جکڑا کسی جہنم زار کا منظر پیش کر رہا ہے ۔دریائے جہلم کے کنارے
پر واقع یہ شہر اپنے جھیلوں، آبشاروں اور باغات کے لیے مشہور ہے۔ اس کے
ساتھ ساتھ یہ اپنی روایتی دستکاریوں کے لیے بھی دنیا بھر میں مشہور ہے
جنہیں بھارت نے پوری پلاننگ سے بڑی حد تک ختم کر ڈالا ہے۔ سرینگر دو
سنسکرِت الفاظ سے بنا ہے، سری یعنی دولت اور نگریعنی شہر۔ سری کے بارے میں
کہا جاتا ہے کہ یہ شری سے بھی نکلا ہے اور شری آفتاب کو بھی کہا جاتا ہے،
اس لیے سرینگر کا مطلب’’ سورج کا شہر‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔سرینگر کی بے شمار
شناختوں میں سے ایک شہرہ آفاق ڈل جھیل بھی ہے جو دریائے جہلم کے پانی سے
رونق پاتی ہے۔مقبوضہ کشمیر کی سیر کے لئے آنے والاکوئی بھی سیاح اس وقت تک
اپنی سیاحت مکمل نہیں پاتا جب تک ڈل جھیل کی سیر نہ کر لے، اس میں تیرنے
والی دنیا کی منفرد کشتیوں کی جنہیں ’’شکارا‘‘ کہا جاتا ہے سواری نہ کر لے
اور جھیل کنارے کسی بوٹ ہاؤس میں رات نہ بسر کر لے۔یہ سرینگر خطے کے سارے
بادشاہوں کی آنکھوں کا تارا رہا۔مغل بادشاہوں نے یہاں باغات بھی تعمیر
کرائے تھے۔اسی ڈل جھیل کے کنارے ایک علاقے کا نام ڈل گیٹ ہے۔یہاں کے ایک
محلے کا نام فتح کدل ہے۔’’کدل‘‘ دراصل کشمیری زبان میں پل کو کہتے ہیں اور
دریائے جہلم پر جا بجا بنے انہی پلوں کی نسبت سے مختلف آبادیوں اور محلوں
کے نام بھی رکھے گئے ہیں۔ فتح کدل محلہ ان دنوں شدید غم میں ڈوبا ہوا ہے
کیونکہ اس کا ایک باسی جس کا نام قیصر بٹ تھا، ہمیشہ کے لئے اس جہاں کو
چھوڑ کر جا چکا ہے۔قیصر بٹ وہی نوجوان ہے جسے بھارتی فورسز نے یکم جون کو
نماز جمعہ کے بعد آزادی کے نعرے لگانے والے کی پاداش میں جیپ تلے روند ڈالا
تھا۔قیصر بٹ کے والدین تو بہت پہلے فوت ہو چکے،وہ اپنی دو چھوٹی بہنوں کے
ساتھ اپنی پھوپھو کے گھر رہائش پذیر تھا کہ اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی
چارہ کار ہی جو نہ تھا۔والدین کی وفات کے بعد اس کا چچا اور پھوپھی ان کا
سہارا بنے تھے۔مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں نوجوانوں کی طر ح قیصر بٹ بھی آزادی
کا متوالا تھا۔آج جمعہ کے روز اس نے غسل کیا ، صاف ستھراسفید لباس زیب تن
کیا اورپھرسرینگر کی تاریخی مرکزی جامع مسجد میں جو سرینگر کے نو ہٹہ علاقے
میں واقع ہے، نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے پہنچ گیا۔یہ وہی مسجد ہے جو
کشمیریوں کی ہر تحریک کا اول دن سے مرکز رہی ہے تو آج اس کی دنیا بھر میں
شہرت یہاں نماز کی ادائیگی پر پابندیوں کی وجہ سے ہے۔مقبوضہ کشمیر کے کسی
حصے میں آزادی کا نعرہ بلند ہو،قابض بھارتی فوج یہاں سب سے پہلے نماز کی
ادائیگی پر قدغن لگا دیتی ہے کہ یہاں سے اگر آواز اٹھی تو وہ بہت دور تک
جائے گی۔
قیصر بٹ 1جون کو شہادت سے ہمکنار ہو ا لیکن ایک ہفتہ قبل بھی وہی یہیں نماز
ادا کر کے گیا تھا۔اس روز بھی بھارتی فورسز نے یہاں خوب کشت و خون کا بازار
گرم کیا تھا۔رمضان کے دوسرے جمعۃ المبارک کو اس جامع مسجد میں قابض پولیس
اور فورسز اہلکاروں نے نہ صرف مسجد کے باہر آزادی کے نعرے لگانے والوں کو
خاک و خون میں تڑپایا تھا بلکہ مسجد کے اندر بھی نہ صرف آنسوآورگیس کی بے
تحاشہ شیلنگ کی تھی بلکہ عینی شاہدین کے مطابق پیلٹ اور گولیوں کا کی اندھا
دھند بارش کی تھی۔باہر تو جو لوگ زخمی و چھلنی ہوئے سو ہوئے، مسجد کے اندر
بھی اتنی بڑی تعداد میں نمازی خون میں لت پت ہوئے کہ مسجد کے اندر افراتفری
مچ گئی۔مسجد کے اندر جہاں رب کے حضور ماتھے ٹیک دیئے جاتے ہیں، وہاں اُن کا
خون بکھیر دیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ مسجد کے جس حصے میں خواتین نماز ادا
کرتی ہیں، وہاں بھی گیس شیلنگ اور فائرنگ کی گئی۔ پہلے تو مسجد کو بھارتی
فورسز بند کرتی تھیں لیکن اس بار مسجد کو خود انتظامیہ نے کئی روز تک اس
لئے بند کیا کہ زخمیوں کے خون کے داغ دھبوں کو صاف کیاجاسکے اور دوبارہ سے
مسجد کی اصلی حالت کو بحال کر کے نماز کا سلسلہ شروع کیا جا سکے۔ اس صفائی
کے کام میں قیصر بٹ بھی کئی دن تک بنفس نفیس شریک رہا۔ اسے کیا پتہ تھا کہ
وہ آج دوسروں کا خون صاف کرکے مسجد کو دوبارہ نماز کے لئے کھولنے کی کوششوں
میں مصروف ہے ،اس سے اگلے ہی جمعے کو یہیں اس کا اپنا خون بھی بہا دیا جائے
گا اوراس کے جسم کے ٹکڑوں اور لوتھڑوں سے جامع مسجد کے آس پاس کی سڑکیں
رنگیں ہو جائیں گی۔
جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد جب نوجوانوں نے باہر نکل کر آزادی کے نعرے
لگائے تو حسب روایت انہیں پہلے زہریلی گیسوں کے شیلز اور پھر پیلٹ گن اور
سیدھی فائرنگ کا سامنا ہوا۔ان نوجوانوں نے ہاتھوں میں پاکستان کے پرچم اٹھا
رکھے تھے۔جیسے ہی قیصر اور اس کے دوستوں کا گروپ پاکستانی پرچم کے ساتھ
سامنے آیا، کشمیریوں کی سب سے قاتل سنٹرل ریزرو پولیس فورس نے اپنی ایک
گاڑی پوری رفتار سے ان نوجوانوں کے اوپر چڑھا دی۔4نوجوان اس گاڑی کے نیچے
بری طرح کچلے گئے۔قیصر بٹ کو گاڑی کی سیدھی ٹکر لگی،وہ گرا، گاڑی اوپر سے
گزری اور ساتھ ہی پچھلے ٹائرنے سر کچل ڈالا۔زخمیوں کو دوسرے نوجوانوں نے
سنبھالا اور انہیں فوری طور پر ہسپتال توپہنچایا لیکن قیصر بٹ جس کی حالت
انتہائی نازک تھی اور وہ بے ہوشی کے عالم میں ہی اگلے روز اپنے رب سے جا
ملا۔اس کی شہادت کی خبر پھیلتے ہی ایک بار پھر سرینگر اور آس پاس کے علاقوں
میں مظاہرے شروع ہو گئے۔بھارتی فورسز نے فتح کد ل کی طر ف آنے والے سب
راستے بند کئے کہ جنازے میں کم سے کم لوگ شریک ہوں لیکن کشمیری کئی کئی
کلومیٹر پیدل چل اور رکاوٹیں توڑ کر جنازے میں پہنچ گئے۔ان سب شرکا ئے جناز
ہ نے جب قیصر بٹ کا جسد خاکی اٹھا کر اسی کی راہ اپناتے بھارت کے خلاف اور
آزادی کے حق میں نعرے لگائے تو ان پر بھی زہریلی گیسوں کی شیلنگ اور پیلٹ
فائرنگ شروع کر دی گئی لیکن یہ لوگ اس قدر پختہ کار نکلے کہ کسی نے جنازے
کو چھوڑنا یا اپنی جگہ سے ہلنا گوارا نہ کیا۔ جنازہ دو بار ادا ہوا کہ
اژدحام بہت تھا اور پھر ساری مقبوضہ وادی میں مسلسل ہڑتال شروع ہو گئی۔
قیصر بٹ آج اپنے عرفان کے پاس اﷲ کی جنتوں میں پہنچ چکا تھا جسے برہان وانی
کی شہادت کے بعد شروع ہونے والے تحریک میں بھارتی فورسز نے فائرنگ کر کے
شہید کر ڈالا تھا۔دوست کی اس شہادت نے قیصرکو اس قدر بدل دیاکہ وہ سخت
گیرآزادی پسندبن گیا۔عرفان کی المناک شہادت نے قیصرکی زندگی پراس قدرگہرے
نقوش چھوڑے کہ جہاں کہیں بھی کوئی کشمیری نوجوان بھارتی فورسز کے ہاتھوں
شہید ہوجاتا،قیصراس شہید کی نمازجنازہ میں شرکت کے لئے لازمی پہنچ جاتا۔
قیصر کے ایک دوسرے دوست نے بتایا کہ ،قیصر کی زبان پر یہ جملہ اس کا تکیہ
کلا م بن چکاتھاکہ ’’ذلت کی زندگی سے عزت کی موت کہیں زیادہ بہترہے‘‘۔
قیصر جو 2008ء میں والدہ کی وفات کے بعد شفقت مادری سے محروم ہوا تھا،3ماہ
بعد والد شفقت پدری سے تب محروم ہوا تھا جب اس کے والد دل کے دورے سے دہلی
میں وفات پا گئے۔قیصر اپنی دو بہنوں کے ساتھ یتیم ہوا تو اس کے چچاغلام
محمدکی اکلوتی بیٹی اس دنیاسے رُخصت ہو گئی۔ غلام محمداوراسکی اہلیہ شہزادہ
نے ان تین معصوم بھائی بہنوں کواپنے گھرلایا اور ان کی پرورش شروع کی۔ غلام
محمدنجار جو کہ راجباغ میں واقع ایک نجی انگلش میڈیم اسکول میں کام کرتے
ہیں، ان بچوں کوکبھی یتیم ہونے کااحساس تک نہ دیا تو ساتھ بچوں کی پرورش کا
بوجھ ڈلگیٹ میں رہائش پذیر انکی پھوپھی نے اٹھا لیا۔قیصر نے 12 جماعت تک
تعلیم حاصل کی، اور پھر تعلیم کو خیر آباد کر کے بہنوں کی فکر اور پھوپی کا
ہاتھ بٹانا شروع کردیا۔ دوستوں رشتہ داروں کی کاوش سے دبئی میں مقیم اس کے
مامو زاد بھائی انجینئر زاہدنے اس کی نوکری کیلئے تگ دو شروع کردی۔ سخت
محنت کے بعد قیصر کو دبئی کی ایک کمپنی میں نوکری ملی لیکن وہ دبئی روانگی
سے پہلے اپنی معصوم بہنوں، دوستوں رشتہ داروں اور ساری وادی کشمیر کو روتا
چھوڑ کر آزادی کی راہ میں جنت کے سفر پر روانہ ہو گیا۔ |