گھر آیا۔ ایک گرما گرم سیاسی بحث جنگ عظیم دوم کی طرح
چھڑی ہوئی تھی۔ پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ گرمی اور روزے کی حالت میں مجھے
یہ بحث کچھ زیادہ ہی گرم محسوس ہو رہی تھی۔ ہر طرف سے سیاسی رہنماؤں پر تیر
برسائے جارہے تھے۔ یہ سب سوشل میڈیا پر دس ٹاپ پاکستانی سیاسی رہنماؤں کی
ویڈیو دیکھنے کے بعد سے شروع ہوئی تھی جس میں اُن کے لائف اسٹائل اور محلات
کے بارے میں دکھایا گیا تھا۔ ہم گرمی کی حالت میں سودا سلف لے کر گھر پہنچے
تھے اور اسی دوران دو ایسے واقعات دیکھنے کو ملے تھے کہ سوچوں کے دریچوں سے
نکل نہیں پا رہے تھے۔ اوپر سے یہ سیاسی بحث جلتی پر تیل کا کام کے مصداق
تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس بحث میں ہماری دل چسپی بن نہیں پا رہی تھی۔ البتہ
ہمارے ذہن کو مزیدماؤف کر دیا تھا۔گھر میں بار بار یہ اصرار جاری تھا کہ
ذرا یہ ویڈیو دیکھو ، کتنا عالی شان محل ہے ، یہ فلاں سیاسی رہنما کا ہے۔
ذرا اس گھر کو دیکھو ، اس کے در و دیوار کے لئے قیمتی پتھر یورپ سے منگوائے
گئے ہیں اور اس گھر میں سہولت کا ہر سامان موجود ہے ، اور تو اور ، سال کے
چار موسموں کے لئے علیٰحدہ علیٰحدہ پورشن بنائے گئے ہیں، یعنی گرمی اور
سردی کے ستانے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔لیکن میرے ذہن سے پہلا
واقعہ اُس معصوم بچے کا نہیں نکل پا رہا تھا جو سبزی منڈی میں ریڑھی بانوں
اور دُکان داروں کی پھینکی گئی گلی سڑی سبزیاں اُٹھا کر اپنے تھیلے میں ڈال
رہا تھا اور اپنے روزے دار گھر والوں کے لئے افطاری کا دستر خوان سیٹ کر
رہا تھا ۔مجھے ماہ رمضان کی نعمتوں سے متعلق اکثر لوگوں سے سننے والی یہ
بات بھی تنگ کرنے لگی تھی کہ اس ماہ میں ہر گھر میں افطار کے وقت دستر خوان
پر طرح طرح کے پکوان موجود ہوتے ہیں۔ کیا غریبوں کے گھروں میں بھی ایسے
دسترخوان لگتے ہوں گے اور اگر لگتے بھی ہوں تو اُن کے لئے کتنے پاپڑبیلنے
پڑتے ہوں گے۔ ابھی تک سوشل میڈیا پر ویڈیو دیکھی جارہی تھی اور تند و تیز
تبصرے جاری تھے۔ ذرا یہ دیکھو ، اس محل میں چیئر لفٹ بھی موجود ہے، اس پون
کی پالکی میں بیٹھ کر کتنا سکون ملتا ہوگا اور اوپر سے ارد گرد کے نظارے
کتنے دل کو بھاتے ہوں گے۔ یہ فلاں سیاسی رہنما کا باورچی خانہ دیکھو ، جس
کی وسعت اندازہ اس بات لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں مہمانوں کے لئے ایک طرف
بیٹھنے کی جگہ بھی بنائی گئی ہے اور ایکسپرٹ باورچی دن رات عمدہ اور لذیذ
کھانے پکانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ذرا اس کو بھی تو دیکھو ، یہاں سوئمنگ پول
سے لے کر ٹینس کورٹ تک موجود ہیں اور جسمانی صحت کے لئے جِم بھی موجود
ہے۔لیکن میرے ذہن سے وہ دوسرا کمزور اور لاغر معصوم بچہ بھی نہیں نکل پا
رہا تھا جو جنرل سٹور سے صرف دس روپے کا بیسن ( چنے کی دال کاآٹا ) خرید
رہا تھا۔محض دس روپے میں کتنا آٹا ملتا ہو گا ، ذرا خودتصور کریں اور اس
میں کتنے پکوڑے پکتے ہوں گے۔بالفرض گھر میں دو روزے دار ہوں توکیا دس روپے
کا یہ آٹا اُن کے لئے کافی ہو گا۔ یہ غریبوں کی لگژری زندگی ہے جن سے سیاست
دان صرف ووٹ لیتے ہیں اور پھر شاہی کرسیوں پر بیٹھ کر اپنے محلات اور
زندگیوں کے لئے نہ صرف آسائشوں کا سامان پیدا کرتے ہیں بلکہ اپنی آنے والی
سات پشتوں کا بھی بیڑہ اُٹھاتے ہیں۔
یہ حالات پاکستان میں بسنے والے اُن تمام لوگوں کے ہیں جو غربت کی لکیر سے
نیچے زندگیاں بسر کررہے ہیں۔ پاکستان اقتصادی رپورٹ 2017-18 کے مطابق اس
وقت پاکستان میں 24.3 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگیاں گزار رہے ہیں
جو کل آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی بنتے ہیں اور ان میں شہری اور دیہی
تناسب 12.5فیصد اور 30.7 فیصد بالترتیب ہے۔جب کہ ان پر حکمرانی کرنے والے
محض دس فیصد سے بھی کم لوگ ہیں جو صرف انتخابات کے دنوں میں نظر آتے ہیں
اور ہمیں ووٹ کو عزت دو ، ووٹ آپ کے ضمیر کی آواز جیسے نعروں سے اُکساتے
ہیں۔ پھر انتخابات کے بعد معاشرے کی سکرین سے غائب ہوجاتے ہیں۔یہ سلسلہ
اُنیس سو ستر کے انتخابات سے جاری ہے اور جس سے غریب ، غریب تر اور امیر ،
امیر تر ہوتا جارہا ہے۔ |