دین اسلام میں کرنے نہ کرنے کا حکم یوں ہی ہوا میں نہیں
دیا گیا ہے۔بلکہ ہر اوامر و نواہی حکمتوں کو سموئے ہوئے ہیں ۔یہ اور بات کہ
ہم اسے سمجھ نہ پائیں۔ اپنی کم علمی کی بنیاد پر۔لیکن وہ حکمت آمیز ہوتے
ضرور ہیں ۔
رمضان المبارک سےمتعلق خوب فلسفے بیان کئے جاتے ہیں۔جن میں پارسائی و خدا
ترسی ایک ہے۔البتہ دیگر فوائد بھی ہیں مگر پر ہیزگاری کو الگ ہی مقام حاصل
ہے۔قرآن کریم میں ’’لعلکم تتقون‘‘سے اسی جانب اشارہ ہے۔
ماہ رمضان حکمتوں سے بھری ہوئی عبادت کا نام ہے۔اگر ہم اس کے فلسفہ پر غور
کریں تو کتنے ہی نکات میسر ہوں گے۔ذیل میں چند نکات پیش خدمت ہیں ۔
نماز صبح سے اذان مغرب تلک روزہ رکھنا ہمیں نظم و ضبط کا درس دیتا ہے کہ
پابندی وقت کامیابی کی ضامن ہوتی ہے ۔
اس دورانیہ میں تمام اقسام کی غیر اخلاقی حرکات و سکنات سے پرہیز کرنےکا
حکم دیا گیا ہے۔مطلب یہ کہ مسلمان ہو تو انسان بنو تاکہ لوگ تم سے درس
انسانیت لیں۔
افطاری کرانے کا ثواب بیان کرنا،اشارہ ہےکہ مفلس و نادار کی مدد کرنا سیکھو۔
اگر چہ نصف کھجور یا ایک گھونٹ پانی کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو(خطبہ شعبانیہ)
تلاوت کلام پاک کرنے کو کہا گیا ہے۔تعلیم دی جارہی ہے کہ پڑھو (اقرا)تاکہ
’’اھل الذکر‘‘میں شمار ہوجاو۔
استغفار کی دعوت دی جارہی ہے ۔یعنی سکھایا جا رہا ہے کہ اپنے گناہوں سے ہر
گز بھی غافل مت ہونا۔
اللہ کی عبادت میں مشغول رہو۔مبادا غرورو تکبر کا شکا ر ہوجاو۔
قرآن مجید کی ایک آیت کی تلاوت کے عوض پورے قرآن کا ثواب دیا جا رہا ہے
۔مقصد یہ ہے کہ کتاب اللہ کو طاقوں کی زینت نہیں زندگی کی زینت بناو۔
جان بوجھ کر سحری و افطاری ترک مت کرو۔ہدف یہ ہےکہ احکام الٰہی میں من مانی
مت کرو۔
سحری وافطار کی دعائیں وارد ہوئی ہیں ۔ تاکہ یاد الٰہی میں مشغول رہو۔
اگر مریض ہو ، مسافر ہویا حالت حیض و ۔۔۔میں ہوتو روزہ رکھنا منع ہے۔اس لئے
کہ احکام دین آسان ہیں۔انہیں سخت نہ بناو۔
اگر ہم شریعت کے احکام پر غائرانہ نظر ڈالیں تو دین میں آسانیاں نمایاں
طور پر دکھائی دیں گی۔صرف روزہ نہیں بلکہ تمام احکام الٰہی حکمت و فسلفہ کا
سر چشمہ ہیں ۔بس چشم بینا کہ ضرورت ہے۔
|