قریب پندرہ بیس منٹ امی سے بات ہوتی رہی ۔ عادت ہے کہ جب
بھی گھر سے باہر ہوں تو صبح آنکھ کھلتے ہی امی کو فون کرتا ہوں اور رات
سونے سے پہلے بھی۔ماں کے پاس اولا د کے لئے دعا سے زیادہ قیمتی اور کیا
ہوتا ہے؟ اسی لئے میں دن کا آغاز ماں کی دعاؤں سے کرتا اور رات بستر پر
جانے سے پہلے کچھ اور دعائیں سمیٹ لیتا ہوں۔میں ملتان میں تھااور رات کے دس
بج رہے تھے ۔ فون بند کئے ایک منٹ بھی نہ ہوا تھا کہ امی کی کال آگئی ۔
جی امی جی !
’’ کلیم پتر بھین اﷲ دے حضور پیش ہوگئی اُوو‘‘(کلیم بیٹا تمہاری بہن اﷲ کے
حضور پیش ہوگئی ہے ) ۔ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا ۔ میں بس
اتنا ہی کہہ سکا ’’میں آیا امی جی‘‘۔
رمضان المبارک کی گیارہ اور بارہ تاریخ کی درمیانی رات تھی جب غم کا یہ
پہاڑ میرے ناتواں کندھوں پر آن پڑا۔کانپتے بدن کے ساتھ اٹھا اور فیصل آباد
کی طرف روانہ ہوگیا۔ اس سے پہلے جب بھی سفر کے لئے گھر سے نکلتا یا بیرون
شہر سے گھر جانے لگتا تو امی ہمیشہ کہتیں ،گاڑی چل پڑے تو فون کرنا ۔ حسب
حکم امی کو فون کرتا تو کہتیں ’’پتر آیۃالکرسی پڑھ کے اپنے تے ساری گڈی تے
پھوک لئیں ‘‘(بیٹا آیۃالکرسی پڑھ کر اپنے آپ پر اور پوری گاڑی پر دم کر
لینا)۔
دستور زمانہ ہے کہ اولا د اپنے ماں باپ کے جنازے رخصت کرتی ہے لیکن امی پر
یہ سانحہ دوسری بار گزرا کہ اپنی اولاد کا جنازہ رخصت کرنا پڑا۔ بڑے بھائی
کا انتقال ہوا تو میں امی کے ساتھ ہی لاہور کے شیخ زید ہسپتال میں موجود
تھا ۔ آپی کے انتقال کی خبر سنتے ہی میں سفر کا آغاز کر چکا تھا لیکن آج
امی کو اس سانحے نے اس قدر متاثر کیا کہ وہ مجھے یہ کہنا ہی بھول گئیں کہ
گاڑی چلے تو فون کردینا۔ راستے میں دو تین بار فون آیا تو یہ بھی کہنا بھول
گئیں کہ آیتہ الکرسی پڑھ کر پھونک لینا۔ سفر جاری تھا اور میں اپنے اندر کے
غم کو آنکھوں کے راستے باہر آنے سے روک رہا تھا ۔ دوتین بار امی کافون آیا
بیٹا کہاں تک پہنچے ہو،مکے سے جو کفن میں آب زم زم سے دھو کر اپنے لئے لائی
تھی وہ لیتے آنا،تمہاری پڑ دادی حج پر گئیں تو غلاف کعبہ کا ٹکڑا لائی تھیں
وہ بھی لیتے آنا۔ لاکھ ضبط کے باوجود میں اپنے آنسو روک نہ سکا۔ پھر فون
آیا ’’ پتر میری دھی واسطے ڈھیر سارے پھُلاں دے ہار لے کے آویں ،اج ایہنوں
پھُلاں دا زیور پاؤ‘‘(بیٹا میری بیٹی کے لئے ڈھیر سارے پھول لانا،میری بیٹی
کو پھولوں کا زیور پہنا کر رخصت کرنا)۔
آپی سے میرا جذباتی تعلق اس سے کہیں زیادہ تھا جو ایک بھائی کا بہن سے ہوتا
ہے ۔ وہ میری ماں جائی تو تھیں ہیں لیکن میری پرورش کی ذمہ داری کے سبب ماں
سے کم نہ تھیں۔میری پیدائش کے بعد امی کچھ بیمار سی رہنے لگی تھیں اس لئے
آپی نے ہی مجھے پال پوس کر بڑا کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ اکثر آپی ہی مجھے
نہلاتیں، بالوں میں تیل اور آنکھوں میں سرمہ ڈالتیں اور جہاں کہیں جاتیں
بڑے شوق سے مجھے ساتھ لے جاتیں ۔ آپی نے مجھے بتایا تھا کہ ایک بار مجھے
بانہوں میں اٹھائے ٹھوکر لگنے سے وہ گریں تو انہوں نے مجھے ایک خراش نہیں
آنے دی لیکن مجھے بچاتے بچاتے کھردرے فرش کی رگڑسے ان کی بانہیں خون سے رنگ
گئیں ۔
مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے جب فیصل آباد کے محلے غلام محمد آباد کے شاہی چوک
میں قائم آپی کے سکول میں مینا بازار تھا ، آپی مجھے اپنے ساتھ سکول لے
گئیں اوران کی سہیلی نائلہ میری بلائیں لیتی رہی۔ سکول کے وسیع باغ کے ساتھ
ساتھ چلتے چلتے دور سے ایک لڑکی نے آواز لگائی، یہ کون ہے ؟۔نائلہ جھٹ سے
بولی ’’ تینوں کی ؟میرا سہیلا وا‘‘ ( تجھے کیامطلب؟یہ میرا دوست ہے )۔
میں ابھی چھوٹا ہی تھا جب آپی کی شادی سرگودھا کے گاؤں بھابڑہ میں ہوگئی ۔
آپی کے بچے ہوئے تو ان کے شوہر کی مصروفیت بڑھ چکی تھی اور میرا لڑکپن بھی
شروع ہوچکا تھا۔آپی جب گاؤں سے ہمیں ملنے آتیں تو واپسی پراکثر میں ہی
انہیں گاؤں چھوڑنے جاتا۔ فیصل آباد سے سرگودھا اور پھر کوٹ مومن پہنچنے میں
پانچ گھنٹے لگ جاتے ۔ کوٹ مومن سے جوپرانی فورڈ بس ہمارے گاؤں تک جاتی تھی
وہ سولہ کلومیٹر کا فاصلہ ایک گھنٹے سے زائد وقت میں طے کرتی تھی ۔ بس کا
کوئی مخصوص وقت نہ ہوتا ،ڈرائیور کا جب جی چاہتا تب ہی وہ سفر کا آغاز کرتا
۔ تب تک بس کی چھت بھی مسافروں سے بھر چکی ہوتی ۔ بس کے اندر خواتین ،بچوں
اور بوڑھے مردوں کو جگہ دی جاتی اور باقی مرد بس کی چھت پر سفر کرتے ۔ میں
نے یہ تکلیف دہ سفر کئی بار کیا لیکن آپی کے ساتھ نے سفر کی کوفت کو کبھی
محسوس ہی نہ ہونے دیا۔ بس کی چھت سے ہرے بھرے کھیتوں اور نہروں کے نظارے
،کھیتوں کے درمیان لگے ٹیوب ویل یا آٹا پیسنے کی چکی کو چلانے والے انجن سے
نکلنے والی کُو کُو کی آوازیں ماحول پر ایک عجیب رومانوی سحر طاری کر
دیتیں۔
گاؤں پہنچتے ہی میری سیوا شروع ہوجاتی ۔ ناشتے میں آپی میرے لئے دیسی گھی
یا مکھن کے پراٹھے بناتیں اور ساتھ دیسی انڈے کا آملیٹ۔سردیوں میں باجرے کی
میٹھی روٹی یا مکئی کی روٹی کے ساتھ گھر کے بنے ہوئے مکھن کا دیسی ساگ
۔سردیوں میں سورج کچھ بلند ہوتا توآپی میرے لئے صحن میں چارپائی بچھاتیں
اور ساتھ ہی سرگودھا کے میٹھے کنوں مالٹوں یا مسمی کا ٹوکرا رکھ دیا جاتا
اور کبھی دیسی گنے ۔تب دیہات میں برقی مدھانی کا رواج نہیں ہوا تھا۔ آپی
پنجاب کی جٹی کی طرح لکڑی سے بنی مدھانی کے ساتھ میرے لئے لسی بھی بناتیں
اورکبھی مکھن نکالے بغیر ہی ’’ادھ رِڑکا ‘‘مجھے پلایا جاتا۔ دوپہر میں دیسی
گندم کے آٹے پربیسن لگی روٹیاں اور دیسی مرغی یا بکرے کے گوشت کا سالن
،کھانے کے بعد لسی پیتے ہی میرے دماغ پر نشہ چھا جاتا اور میں نیم کے درخت
کے نیچے چارپائی ڈال کر سوجاتا۔ رات کے کھانے کے ساتھ آپی میرے لئے کسٹرڈ
یا خالص دودھ کی کھیر بناتیں ۔سردیوں میں بھائی جان گاؤں کے واحد بازار سے
گرما گرم جلیبی لاتے جو اپلوں پر سرخ کئے گئے دودھ میں دم دے کر کھائی جاتی
۔ سردیاں آتیں تو آپی گندم کے دانے بھگو کر نمی والے کپڑے میں رکھ دیتیں ،
جب دانوں سے دودھیا کونپلیں پھوٹ پڑتیں تو دھوپ میں انہیں خشک کرتیں اور
پھر ہاون دستے سے کوٹ کر خالص دودھ میں پکا کر سوہن حلوہ بناتیں ۔سارے گھر
کے لئے جو سوہن حلوہ بھجواتیں میرا حصہ اس سے الگ ہوتا، خاص طور پر آپی
کہلوا بھیجتیں کہ یہ حلوہ میرے نوشی (بچپن میں آپی مجھے پیار سے نوشی کہا
کرتی تھیں)کا ہے ۔
میں شائد میٹر ک میں تھا جب آپی اپنے سسرال سے الگ ہوئیں تو نانا جان کی
خالی پڑی حویلی میں ان کا گھر بنوانے کی ذمہ داری بھی مجھے ہی سونپی گئی ،
امی میرے ساتھ گاؤں گئیں ، وہ مجھے سمجھاتیں اور میں ان کی رہنمائی میں
مستری مزدوروں کی نگرانی کرتا ۔تب محنت کرنا کچھ عار نہ تھا سو میں مزدوروں
کی طرح اپنے ہاتھوں سے مٹی اٹھا کر صحن میں ڈالتا اور پھر ایک دن وہ گھر
بھی بن گیا۔مجھے یاد ہے آپی اس دن بہت خوش تھیں ۔
آج کل تو بچے بچے کے ہاتھ میں موبائل فون ہے لیکن تب سرکاری ٹیلی فون بھی
نصیب والوں کو ملتا تھا۔ پورے گاؤں میں ایک ہی ٹیلی فون تھا،بس اڈے کے ساتھ
بنے رورل ہیلتھ سنٹر کے سامنے میڈیکل سٹور پر۔یہ میڈیکل سٹور بھی ہمارے دور
پار کے ایک رشتہ دار کا تھا۔اور کسی سے بات ہو نہ ہو ہفتے میں ایک دن میں
انہیں فون ضرور کرتا ۔ پہلے میں فون کر کے پیغام بھجواتا کہ فلاں وقت فون
کروں گا اور پھر مقررہ وقت پر آپی اپنے شوہر کے ساتھ فون سننے آتیں ۔ پھر
میڈیکل سٹور والوں کے گھر میں بھی فون لگ گیا ۔ میں کہیں بھی ہوتا فون
پرآپی سے بات ضرور کرتا ۔
آپی کے بچے بڑے ہوئے تو وہ فیصل آباد ہی آبسیں لیکن میں اب روزی روٹی کے
چکر میں مختلف شہروں کی خاک چھان رہا تھا۔ جب کبھی فیصل آباد جاتا تو آپی
کے گھر ضرور جاتا ۔جب اٹھنے لگتا تو آپی مجھے ایک چٹکی کاٹتیں اور گھور کر
کہتیں ’’ کی ٹینشن اے تینوں ، بہہ جا چپ کر کے ‘‘(کیا بے چینی ہے تمہیں ،
بیٹھے رہو آرام سے )۔
لیکن اب میں آپی کے گھر گیا تو انہوں نے اٹھ کر مجھے گلے نہیں لگایا ۔ ایک
بے جان جسم چارپائی پر دھر اتھا اور خاندان کی خواتین اس کے گرد افسردہ
بیٹھی تھیں ۔ امی رو رو کر تھک کے چپ ہو چکی تھیں لیکن مجھے گلے لگایا تو
بے اختیار دھاڑیں مار کر رونے لگیں ۔
آج میں ترس رہا تھا کہ میری ماں جائی مجھے گلے لگائے ،پانی پلائے، کھانے کا
پوچھے ، چائے لاکر دے لیکن میری ماں جائی مجبورتھی ۔ میں موتیے اور گلاب کے
پھولوں کے حصار میں ان کے بے جان چہرے کو تکے جارہا تھا۔ امی نے غلاف کعبہ
کا ٹکڑا میرے ہاتھ میں دیا اور میں نے اس کے کچھ دھاگے نکال کر آپی کی بند
آنکھوں کے اوپر سجا دئیے ۔ عجیب بے بسی تھی کہ آج مجھے اپنی ہی ماں جائی کو
اپنے ہاتھوں لحد میں اتارنا تھا۔سینے میں غم کا طوفان لئے اشکبار آنکھوں
اور کانپتی ہوئی آواز میں ابو جی نے کہا بیٹا! قبر کی امانت کو قبر کے سپر
د کر آؤ ، میں نے اس ہستی کو اپنے کندھوں پر اٹھایا جس نے مجھے اپنی بانہوں
میں جھولے جھلائے اور گود میں لوریا ں سنائیں ۔کانپتے ہاتھوں سے مٹی کی
امانت مٹی کے سپرد کر چکاتو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور میں قبر پر کھڑا
روتا رہا ، اس وقت تک جب ایک ہاتھ نرمی سے میرے کندھے پر آیا اور مجھے لے
کر شہر خموشاں سے باہر کی طرف چل پڑا۔
آپی کی وفات پربے شمار دوست ، قارئین اور اساتذہ ٹیلی فون، موبائل پیغامات
اور آخری رسومات میں شرکت کر کے میرے دکھ میں شریک ہوئے ۔ میرے لئے ان کا
فردا فردا شکریہ ادا کرنا ممکن نہیں ،اس تحریر کے ذریعے میں ان کا بے حد
شکر گزار ہوں اور ملتمس ہوں کہ وہ آپی کی مغفرت کے لئے دعا کریں ۔ |