ممتاز دانش ور اور مصور محمد حنیف رامے کے اپنے قلم سے
لکھی ہوئی ایک اچھوتی تحریر
محمد حنیف رامے کا شمار نہ صرف پاکستان سے محبت کرنے والے قابل ذکر
سیاستدانوں میں ہوتا ہے بلکہ وہ اعلیٰ پائے کے دانشور اور مصور بھی قرار
پاتے ہیں۔ ادب و صحافت میں بھی ان کو بڑی قدر اور احترام سے دیکھا جاتا ہے۔
یہ مضمون انہوں نے میری درخواست پر لکھا ‘ جو میری شہرہ آفاق کتاب "ماں"
میں شامل ہے ۔ یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب میں محمد حنیف رامے صاحب سے
ملاقات کے لیے ان کے آفس واقع ملتان روڈ پہنچا تو حسب دستور وہ خوبصورت
پیٹنگ بنانے میں مصروف تھے ۔ جب میں نے انہیں اپنی والدہ کے بارے میں
انٹرویو دینے کی درخواست کی تو انہوں نے فرمایا میں انٹرویو نہیں دوں گا
بلکہ اپنی مرحومہ والدہ کے حوالے سے خود اپنے قلم سے لکھ کر آپ کو پیش کروں
گا ‘ جو آپ اپنی کتاب میں شامل کرلیجیئے گا ۔مجھے اس وقت حیرانی ہوئی جب
ماں کا نام لیتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے وہ بچوں کی طرح بلک
بلک کر رونے لگے اور ان یادوں کو تازہ کرنے لگے انہوں نے میری حوصلہ افزائی
کرتے ہوئے فرمایاجناب میں تو رامے کہلواتا ہی اپنی ماں کی وجہ سے ہوں۔ میرے
تمام بھائی اپنے نام کے ساتھ چودھری کہلواتے ہیں کیونکہ ہمارا باپ چودھری
تھا ۔ پھر مجھے ایک ہفتے بعد آنے کے لیے کہا ۔ جب میں دوبارہ قدم بوسی کے
لیے حاضر ہوا تو انہوں نے یہ مضمون میرے سپرد کیا جو من و عن آپ کی نذر
کیاجارہا ہے -:
...................
بچپن کی پہلی پہلی یاد ہے کہ میں گھر سے باہر گاؤں کے بچوں کے ساتھ کھیل
رہا ہوں۔ ایک ملازم مجھے لینے آتا ہے اور میں دور ہی سے پکار اٹھتا ہوں۔
’’مجھے معلوم ہے‘ ماں بلا رہی ہوں گی کہ آکر دودھ پی لوں‘ جاؤ جا کر کہہ
دو‘ مجھے نہیں پینا دودھ‘ وُودھ!‘‘ ملازم اصرار کرکے مجھے گھر لے جاتا ہے۔
اب ماں نے ایک ہاتھ سے دودھ کا پیالہ میرے منہ کے ساتھ لگا رکھا ہے اور
دوسرے ہاتھ سے انتہائی پیار کے ساتھ میرے سر کے بال پکڑ رکھے ہیں اور کہہ
رہی ہیں‘ ’’جیسے جیسے میرا بیٹا دودھ پی رہا ہے اس کے بال لمبے ہوتے جارہے
ہیں۔‘‘ بال لمبے کرنے کے چاؤ میں‘ چاہتے نہ چاہتے ہوئے میں دودھ سے بھرا
پیالہ پی جاتا ہوں۔
لوگ آج بھی میرے بالوں کی بابت حیران ہوتے ہیں کہ وہ شریفانہ حد سے چند انچ
زیادہ لمبے کیوں ہیں۔ اب میں کس کس کو بتاؤں کہ مجھے تو آج بھی ہر سانس میں
اپنی ماں کے دودھ کی خوشبو آتی ہے‘ میرے بال کیونکر چھوٹے رہ سکتے ہیں۔
میرے والد چودھری غلام حسین اکیس سال کے تھے کہ ان کی پہلی بیگم اﷲ کو
پیاری ہو گئیں۔ یہی دن تھے کہ داد اجان چودھری خدابخش سفید پوش نے (جنہیں
پیارے میاں نتھو کہا جاتا تھا) کسی سرکاری سکیم کے تحت ضلع شیخوپورہ میں سو
ایکڑ (چار مربعے) زمین خریدی۔ علاقے میں اپرچناب نہر نکالی جا چکی تھی‘
لیکن اس سے سیراب ہونے والی زمین خودرو درختوں اور طرح طرح کے جھاڑ جھنکاڑ
سے اٹی پڑی تھی۔ مغلیہ عہد میں یہاں چاہی کاشت ہوتی تھی لیکن اب برسوں سے
یہ علاقہ جنگل بن چکا تھا۔ البتہ اس جنگل میں بھی کہیں کہیں پنجاب کے کچھ
قدیم قبیلے آباد تھے جنہیں عرف عام میں ’’جانگلی‘‘ کہا جاتا تھا۔
قرعۂ فال والد صاحب کے نام نکلا کہ یہ زمین وہ آباد کریں گے‘ چنانچہ لاہور
میں اپنے بھائی بندوں سے رخصت ہو کر وہ اکیلے تحصیل ننکانہ صاحب کے تھانہ
بڑاگھر کے قریب چک نمبر 5/61 پہنچے۔ زمین کی حدبندی کروائی اور پھر اسے
قابل کاشت بنانے کی جاں گسل مہم میں جت گئے۔ حالت یہ تھی کہ زمین پر صدیوں
پرانے وَن کے درخت کھڑے تھے اور ایک ایک درخت پر سو سو سانپ چڑھے تھے۔ جیسے
جیسے کچھ زمین درختوں اور سانپوں سے خالی ہو رہی تھی اس پر فصلیں کاشت کی
جارہی تھیں اور جوں جوں زمین آباد ہو رہی تھی جالندھر اور ہوشیارپور سے
کاشتکاروں کی کھیپ پر کھیپ اس علاقے میں مزارعت کیلئے چلی آرہی تھی۔
جالندھر سے آکر باجواہ خاندان کے ایک نہایت مہذب اور محنتی کنبے نے والد
صاحب کے پاس مزارعت شروع کی اور پھر یہ لوگ ان سے گھل مل گئے۔ اس کنبے کے
سربراہ نے دیکھا کہ گاؤں کے بڑے زمیندار کا اپنا کوئی کنبہ نہیں تو اس نے
تجویز پیش کی کہ وہ جالندھر میں ایک شریف لیکن غریب خاندان کو جانتا ہے جس
میں ایک نوجوان لڑکی اس لائق ہے کہ والد صاحب کا گھر آباد کر سکتی ہے۔ لڑکی
کا چھوٹی عمر میں نکاح ہوا تھا لیکن رخصتی سے پہلے ہی وہ بیوہ ہو گئی تھی۔
اس وقت شیخوپورہ میں کپاس کی کاشت ہوا کرتی تھی۔ صدیوں کی خالی پڑی ہوئی
زمین میں ہل چلانا مشکل تو تھا لیکن وہ اتنی زرخیز تھی کہ جب اس میں کپاس
بوئی جاتی تو پودا آدمی کے قد سے بھی اوپر اٹھ جاتا تھا۔ کپاس چننے کا موسم
آتا تو جالندھر اور ہوشیارپور سے سینکڑوں عورتیں اور مرد اس علاقے میں آتے
اور
(2)
یہاں مزدوری کرتے۔ باجواہ صاحب نے یہ ترکیب نکالی کہ جالندھر کے ضلع سے جو
لوگ منگوائے ان میں خصوصاً میری ماں اور اس کے گاؤں کے لوگوں کو بھی شامل
کروا دیا اور یوں والد صاحب کو موقع ملا کہ وہ میری ماں کو دیکھ سکیں۔ والد
صاحب لاہور کے قدیم ارائیں خاندان سے تھے جس کے افراد میاں‘ ملک‘ مہریا
چودھری کہلاتے تھے اور میری ماں بھی ارائیوں ہی کی ایک ذیلی ذات sub caste
سے تھیں جو ’’رامے‘‘ کہلاتی تھی۔ مجھے تو خیر اپنی ماں ہمیشہ ہی خوبصورت
لگیں لیکن کہتے ہیں کہ جوانی میں بہت خوبصورت تھیں۔ والد صاحب اس رشتے پر
راضی ہو گئے۔ وہ لاہور کے کھاتے پیتے گھرانے سے تھے جو شہر کے اندر جائیداد
اور شہر سے باہر زرعی زمینوں کا مالک تھا اور چودھری کہلاتا تھا۔ ادھر میری
ماں غریب خاندان سے تھیں۔ بہرحال امیر اور غریب میں رشتہ طے پاگیا اور والد
صاحب اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ جا کر میری ماں کو بیاہ لائے۔
میری ماں کا اصل نام زینب تھا۔ میرے والد صاحب سے شادی طے پائی تو یہ مشکل
پیش آئی کہ میری ایک پھوپھی کا نام بھی زینب ہے چنانچہ میری ماں کا نام بدل
کر امیرالنساء رکھ دیا گیا۔
شادی کے ایک سال بعد میری سب سے بڑی بہن خورشید پیدا ہو گئیں۔ پھر سب سے
بڑے بھائی نذیر احمد کی ولادت ہوئی۔ والد صاحب میری ماں کو ’’خورشید دی
ماں‘‘ کہہ کر بلاتے تھے اور میری ماں والد صاحب کو ’’نذیر دے میاں‘‘ کہہ کر
پکارتیں۔ لیکن اس زمانے کے پنجاب کا عجیب واہیات دستور تھا کہ بچے اپنے باپ
کو باپ کے بجائے چچا یا بھائی کہتے اور ماں کو چاچی‘ ماسی یا بھابی کہہ کر
پکارتے۔ اس وقت شادیاں چھوٹی عمر میں ہو جاتی تھیں اور نوجوان لڑکے لڑکیوں
کو باپ اور ماں کہلاتے ہوئے شرم محسوس ہوتی تھی۔ میرے بھائی بہن بھی ماں کو
ماں کہنے کے بجائے‘ شاید چچاؤں اور پھوپھیوں کی دیکھا دیکھی‘ بھابی کہتے
تھے۔ دو شادی شدہ بہنیں‘ ان کے میاں صاحبان‘ ایک شادی شدہ بھائی اور ان کی
بیگم‘ دو غیرشادی شدہ بڑے بھائی اور میرے ایک چھوٹے بھائی اور ایک چھوٹی
بہن۔۔۔۔ یہ سب میری ماں کو بھابی ہی کہتے تھے۔ میں کوئی تیرہ چودہ سال کا
ہوں گا‘ مجھے یہ بات بے حد غیرفطری اور غلط محسوس ہوتی تھی۔ میں نے چھوٹے
بھائی اور چھوٹی بہن کو اپنا ہم خیال بنایا اور ماں کو ’’ماں جی‘‘ کہہ کر
بلانا شروع کر دیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس پر والد صاحب اور بڑے بھائی بہنوں نے
ہمارا بہت مذاق اڑایا لیکن ہم تینوں چھوٹے بھائی بہن ڈٹے رہے اور بالآخر
سارے کنبے نے ماں کو ’’ماں جی‘‘ ہی کہنا شروع کر دیا۔
جب داداجان کا آخری وقت آیا تو میرے بعض چچاؤں اور پھوپھیوں نے اصرار کیا
کہ ایک مرتبہ وہ خود اس گاؤں میں جائیں جسے والد صاحب نے آباد کیا تھا اور
گاؤں والوں کو بتائیں کہ زمین کے اصل مالک وہ ہیں نہ کہ میرے والد چودھری
غلام حسین۔ یہ سن کر والد صاحب کو شدید رنج ہوا۔ انہوں نے اپنی اولاد کو
پیچھے رکھ کر اپنی بہنوں کی شادیاں کی تھیں‘ اپنے بھائیوں کو تعلیم دلائی
تھی بلکہ جب میری دادی فوت ہو گئیں تو سب سے چھوٹے چچا چودھری برکت علی کو
اپنے بچوں کی طرح پالا تھا‘ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے تک تعلیم دلائی
تھی اور پنجاب بک ڈپو کے نام سے کاروبار شروع کروایا تھا بلکہ جب انہوں نے
ضد کی کہ میں اکیلے یہ کام نہیں کر سکتا تو والد صاحب نے اپنے سب سے بڑے
بیٹے‘ میرے بڑے بھائی نذیر احمد‘ کو ان کے حوالے کر دیا تھا جو انہیں اپنے
رفیق کار کے طور پر لاہور لے آئے تھے۔ والد صاحب کو غصہ اس بات کا تھا کہ
جب میں نے اپنے اہل خاندان کی اتنی دیکھ بھال کی ہے تو انہیں یہ شبہہ
کیونکر ہوا کہ میں باپ کی وراثت میں انہیں حصہ نہ دوں گا۔ غصے کے اسی عالم
میں انہوں نے ایک نظر ڈھورڈنگر کے لاؤ لشکر پر ڈالی‘ احاطے کے اندر لگے
کپاس کے انباروں پر ڈالی‘ سو ایکڑ پر پھیلی ہوئی فصلوں پر ڈالی‘ اپنے
ہاتھوں سے لگائے ہوئے ثمرباغ پر ڈالی اور اہل و عیال کو حکم دیا کہ جو جس
حال میں ہے بیل گاڑی میں بیٹھ جائے۔ کسی کے پاؤں میں جوتا ہے یا نہیں‘ کسی
کے سر پر چادر ہے یا نہیں‘ کسی نے کھانا کھایا ہے یا نہیں‘ گھر سے ہرگز
ہرگز کوئی چیز نہ اٹھائی جائے۔ یوں 1935ء میں یہ بے سروسامان کنبہ لاہور
پہنچا۔ اس تمام عرصے میں ماں نے والد صاحب سے ایک مرتبہ بھی نہ کہا کہ وہ
اپنے غصے پر اولاد کے مستقبل کو کیوں قربان کر رہے ہیں۔ شاید کہیں دل کی
گہرائیوں میں انہیں معلوم تھا کہ یہ سفر ان کی اولاد کیلئے بہتر مستقبل لے
کر آئے گا۔ میاں بیوی دونوں چپ تھے۔ وہ کبھی کبھی نظریں ملاتے اور ایک
دوسرے کو پرعزم دیکھ کر پہلے سے بھی لمبی چُپ سادھ لیتے۔ خاندان کے عدم
اعتماد پر دونوں آزردہ تھے۔ ہم بچے بھی ماں اور والد صاحب کا منہ تکتے تھے
اور ان کی آزردگی کو دیکھ کر حرف شکایت منہ پر لانے کی جرأت نہ کرتے تھے۔
میں اس وقت بمشکل چار پانچ سال کا تھا۔ میں دونوں کی آنکھ بچا کر چپکے چپکے
رو لیتا تھا لیکن منہ سے کچھ نہ بولتا تھا۔
لاہور میں ہمارا آبائی گھر بھاٹی دروازے کے اندر محلہ شیش محل میں تھا۔ اس
گھر کی دیوار بردیوار پاکستانی کرکٹ کے عظیم کردار حفیظ کاردار کے والد
سائیں جلال دین صاحب کا گھر تھا۔ یہ دونوں ارائیں خاندان دو تین پشتیں
پیچھے ایک ہو جاتے تھے۔ والد صاحب نے اسی محلے میں پانچ روپے مہینے پر ایک
گھر کرائے پر لیا۔ میرے دو بڑے بھائی بشیر احمد پندرہ روپے مہینہ اور رشید
احمد دس روپے مہینہ پر چھوٹے چچا چودھری برکت علی کے ادارے پنجاب بک ڈپو
میں ملازم
(3)
ہو گئے اور یوں یہ گھر چلنے لگا۔ لیکن دراصل یہ گھر روپے پیسے سے نہیں میری
ماں کے صبر اور سلیقے سے چل رہا تھا۔ تھوڑے وسائل میں سب کی ضرورتیں پوری
کرنے کا فن انہی دنوں میں نے غیر محسوس طور پر اپنی ماں سے سیکھا جو اس وقت
بہت کام آیا جب میں 1972ء سے 1975ء کے دوران پنجاب کے وزیرخزانہ کے طور پر
خدمات انجام دے رہا تھا۔ شکوہ نہ شکایت‘ احسان جتائے بغیر‘ اپنی ذات پر
سارا بوجھ لے کر سب کو ساتھ لے کر جس طرح ماں چلتی میں نے سیاست کے طویل
تجربے میں کسی بڑے سے بڑے سیاسی راہنما کو بھی یوں چلتے نہیں دیکھا۔
آج مجھے اپنے والد کی خودداری پر فخر محسوس ہوتا ہے لیکن بچپن میں وہ مجھے
سخت گیر نظر آتے تھے۔ وہ چھبیس سال تک گاؤں کے بڑے زمیندار اور چودھری رہے
تھے‘ گاؤں ہی کے ہندوؤں‘ سکھوں اور مسلمانوں کے نہیں‘ آس پاس کے جانگلی
دیہات کے جھگڑے بھی وہی نبٹاتے تھے۔ بیسیوں نوکر چاکر اور مزارعے ان کے ایک
اشارے پر ہر طرح کے کام کیلئے موجود ہوتے تھے۔ جسمانی طاقت کی کیفیت یہ تھی
کہ ایک مرتبہ کسی کو غصے میں تھپڑ مار بیٹھے تو وہ شخص وہیں فوت ہو گیا
تھا۔ اب یہی چودھری صاحب ادھیڑ عمر میں خالی ہاتھ لاہور آچکے تھے اور یہاں
انہیں کوئی کام ایسا نظر نہ آتا تھا جو وہ کریں اور انہیں اس میں اپنی ہتک
نظر نہ آئے۔ سب سے بڑے بیٹے نذیر احمد پہلے ہی سے لاہور میں تھے۔ ان کی
شادی ہو چکی تھی اور وہ اپنے چھوٹے سے کنبے کے ساتھ الگ رہ رہے تھے۔ گھر
میں بشیر احمد اور رشید احمد کماؤ پوت تھے۔ ان کی مقدور بھر آؤ آدر ہوتی
تھی۔ والد صاحب نہ صرف ان سے خوش تھے بلکہ احسان مند بھی تھے۔ مجھ سے چھوٹے
محمد حفیظ ابھی بہت کم عمر تھے لہٰذا والد صاحب کا اختیار کسی پر چلتا اور
ان کے غصے کا ہدف کوئی بنتا تو وہ میری ماں تھیں یا میں تھا۔ میں بمشکل
بارہ سال کا ہوں گا کہ ایک روز والد صاحب نے میری ماں پر ہاتھ اٹھایا۔ یہ
کوئی نئی بات نہ تھی۔ وہ ماں اور میرے ساتھ ایسا کرتے رہتے تھے۔ لیکن اس
روز نہ جانے کیا ہوا کہ میں نے کمرے کے کونے میں پڑی ہوئی انھی کی لاٹھی
اٹھائی‘ ماں اور ان کے درمیان ڈٹ کر کھڑا ہو گیا اور چیخ کر بولا۔ ’’میری
ماں پر ہاتھ اٹھا کر دیکھیں!‘‘ والد صاحب ہکابکا رہ گئے۔ انہوں نے میرے بڑے
بھائیوں کو آواز دی اور کہا‘ ’’اس الو کے پٹھے کو ہٹاؤ یہاں سے‘ میں نے ایک
تھپڑ رسید کیا تو یہ دو دفعہ مر جائے گا۔‘‘ میں دوبارہ چلایا‘ ’’آپ مجھے
جان سے مار سکتے ہیں لیکن خبردار‘ اگر آپ نے میری ماں کو مارا۔‘‘ عجیب بات
ہے‘ میری اس للکار کا ایسا اثر ہوا کہ والد صاحب کا غصہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ وہ
دن اور والد صاحب کا آخری دن‘ اس کے بعد انہوں نے کبھی ماں پر ہاتھ نہیں
اٹھایا۔
اس ایک بات نے میرے اندر بھی ایک انقلاب برپا کر دیا۔ شعوری طور پر تو یہ
بات بعد میں سمجھ میں آئی لیکن اس کچی عمر میں بھی میرے وجود میں یہ اس طرح
بیٹھ گئی جیسے پانی میں پارا بیٹھتا ہے کہ اگر زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی
جائے تو اس کا اثر ہوتا ہے۔ میں غور کرتا ہوں تو میری سیاست کا آغاز اسی دن
ہو گیا تھا جب میں اپنی کمزور ماں کی حمایت میں اپنے طاقتور والد صاحب کے
سامنے کھڑا ہو گیا تھا۔ یہ اسی دن کی بات ہے کہ میرے اندر اس سوال نے جنم
لے لیا کہ میں کس کے ساتھ ہوں‘ طاقتور کے ساتھ یا کمزور کے ساتھ؟ اور پھر
کچھ ہی عرصے بعد اس سوال نے اس اعلان کی شکل اختیار کر لی کہ میں چودھری
نہیں‘ میں رامے ہوں۔ ماں کے نام سے پہچانے جانا عام تو نہیں لیکن کمیاب بھی
نہیں۔ ابن مریم ؑ سے لے کر ابن تیمیہؒ تک بے شمار لوگ اپنی ماؤں کے حوالے
سے جانے پہچانے گئے۔ میرے سارے بھائی بند آج بھی چودھری کہلاتے ہیں لیکن
میں نے کہا‘ نہیں‘ میں چودھری نہیں‘ میں اپنی ماں کی طرف ہوں‘ میں رامے
ہوں۔
جب ہم لوگ گاؤں چھوڑ کر لاہور آگئے تو کچھ ہی عرصے بعد میرے دادا جان فوت
ہو گئے‘ ان کی جائیداد اور زمین تقسیم ہو گئی اور یوں ہم کرائے کے مکان سے
اپنے جدی مکان میں منتقل ہو گئے۔ یہ مکان چار منزلہ تھا۔ میری ماں تیسری
منزل پر کھانا پکاتی تھیں جو آدھی زیرآسمان اور آدھی ڈھکی ہوئی تھی۔ کھلے
میں چولہا چوکا کیا جاتا تھا اور اس کے قریب ہی لکڑی کی ایک مضبوط سیڑھی
تھی (جسے پڑسانگ کہتے تھے) اور جو چوتھی چھت پہ جاتی تھی۔ یہ آخری چھت مٹی
کی تھی اور گرمیوں میں سارا کنبہ یہاں تاروں کی لو میں سوتا تھا۔ تیسری
منزل پر نلکا تو موجود تھا لیکن پانی اس میں شاذو نادر ہی آتا تھا۔ میری
ماں کے فرائض میں کھانا پکانا‘ کپڑے دھونا‘ برتن مانجھنا‘ گھر کی صفائی
کرنا‘ نچلی منزل سے تیسری منزل تک پانی بھرنا‘ شام کو مٹی کی چھت پر
چِھڑکاؤ کرنا اور تیسری منزل کے چھتے ہوئے حصے سے چارپائیاں اور بستر اٹھا
کر چوتھی منزل پر پہنچانا جیسے نہ جانے کتنے کام شامل تھے۔ میں بھی کوئی کم
مصروف نہ تھا۔ صبح سویرے اٹھ کر گوجروں سے تازہ دودھ لانا‘ سکول جانا‘ سکول
کی فٹ بال ٹیم میں شامل ہونے کے ناتے ہر روز منٹوپارک میں کھیلنے جانا‘ بڑے
بھائیوں کے اشاعتی اداروں پر ان کا کھانا پہنچانا‘ گودام سے کتابوں کے بنڈل
بنا کر دکانوں پر لے جانا‘ لاری اڈے اور ریلوے سٹیشن پر مال بک کرانا اور
کبھی کبھی بھائیوں کی عدم موجودگی میں ان کے دفتروں اور دکانوں میں ڈیوٹی
دینا میرے مشاغل میں شامل تھا۔ اور پھر میں پتنگ بازی کا رسیا تھا۔ میرا دل
اور آنکھیں آسمان میں اٹکے رہتے تھے کہ کب موقع ملے اور میں چوتھی منزل پر
پہنچوں اور پتنگ اڑاؤں۔ ان ساری مصروفیات اور ماں جی کے شدید احتجاج کے
باوجود میں ان کیلئے پانی بھی بھرتا تھا اور موقع ملتا تو کپڑے دھونے میں
بھی مدد دیتا تھا یہاں تک کہ
(4)
کبھی کبھار جھاڑو بھی دے ڈالتا تھا اور آٹا بھی گوندھ دیتا تھا۔ پھر جب وہ
بیمار ہو جاتیں یا بہت زیادہ تھک جاتیں تو انہیں دبا بھی دیتا تھا۔ میرے
دبانے سے خوش ہو کر کہا کرتی تھیں کہ تمہاری بیوی تم سے بہت خوش رہے گی۔
ایک دن میں نے ہنستے ہوئے کہا‘ ’’ماں جی‘ کیا آپ کا خیال ہے کہ میں اپنی
بیوی کو بھی اسی طرح دبایا کروں گا۔‘‘ کہنے لگیں۔ ’’اس میں حرج تو کوئی
نہیں لیکن میں دبانے کے حوالے سے بات نہیں کر رہی تھی‘ میں دوسروں کی تکلیف
کو محسوس کرنے کے حوالے سے کہہ رہی تھی۔ ویسے تم سے بہت سے لوگ خوش رہیں
گے۔ تم نہ کسی کی شکایت کرتے ہو‘ نہ کسی سے کدورت رکھتے ہو‘ تم نے تو کبھی
یہ بھی نہیں کہا کہ سالن میں نمک کم یا مرچ زیادہ ہے حالانکہ تمہیں سب سے
زیادہ پتا ہوتا ہے کہ کیا کمی بیشی ہے۔‘‘ رمضان کے مہینے میں سالن خصوصاً
مجھے چکھاتی تھیں اور مجھے اس کیلئے چوتھی چھت سے پتنگ بازی چھوڑ کر نیچے
آنا پڑتا تھا۔
میں نے اپنی آنکھوں سے وہ بہن نہیں دیکھی جو مجھ سے پہلے پیدا ہوئی تھی۔ اس
کا نام حبیب تھا اور وہ میرے پیدا ہونے سے پہلے ہی فوت ہو گئی تھی۔ اس کی
پیدائش پر میری پھوپھیاں میری ماں پر بُری طرح برسی تھیں۔ اگرچہ مجھ سے بڑے
تین بھائی بھی میری ماں ہی کے بطن سے تھے لیکن میری پھوپھیوں کو گلہ تھا کہ
ان کے علاوہ دو بیٹیاں خورشید اور محبوب کیوں پیدا ہوئی ہیں۔ چنانچہ جب
تیسری بیٹی حبیب پیدا ہوئی تو وہ بہت برہم ہوئیں۔ حبیب تو اﷲ کو پیاری ہو
گئی اور اب کہ میں اپنی ماں کے پیٹ میں تھا تو انہوں نے دھمکی دی کہ اگر اس
مرتبہ پھر لڑکی ہوئی تو وہ والد صاحب کو مجبور کریں گی کہ وہ میری ماں کو
طلاق دے دیں۔ گاؤں کی چودھرائن‘ جس کے اپنے غریب بھائی بند کہیں دور
جالندھر کے کسی گاؤں میں بیٹھے تھے‘ اپنے دکھ کو اپنے دل میں دبائے‘ شوہر
کو بتائے بغیر اس راستے پر چل پڑی کہ کسی طرح حمل گر جائے تاکہ نہ رہے بانس
نہ بجے بانسری‘ لڑکی پیدا ہو گئی تو قیامت گزر جائے گی۔ گاؤں کی ان پڑھ
عورتوں نے‘ جن میں شاید کوئی غیرتربیت یافتہ دایہ بھی شامل ہو گی‘ اس سلسلے
میں جو بھی اوٹ پٹانگ مشورہ دیا میری ماں وہ کر گزری۔ جڑی بوٹیوں کے سیر
سیر بھر کے پُڑے کاڑھ کاڑھ کر حلق سے اتار لئے لیکن میں بھی ایسا ٹھیٹ تھا
کہ ٹلنے کا نام نہ لیا‘ پیدا ہو کر ہی رہا۔ ماں جی اور بڑی بہن خورشید
بتاتی تھیں کہ میں پیدا ہوا تو یوں لگتا تھا جیسے کسی بہت بڑے غبارے میں سے
ہوا نکل جائے‘ یا کوئی شخص دیر تک پانی میں بیٹھا رہے اور اس کی کھال پر
جھریاں نمودار ہو جائیں۔ دس بارہ پاؤنڈ کا بچہ چار پانچ پاؤنڈ کا رہ گیا
تھا لیکن صرف اس لئے قبول کر لیا گیا تھا کہ وہ لڑکا تھا۔ شاید ان جڑی
بوٹیوں ہی کا اثر تھا کہ تین سال کی عمر تک میں نے بول کر بھی نہ دیا تھا۔
البتہ پھر جیسے مردہ کفن پھاڑ کر بولتا ہے‘ ایک روز میں اچانک اس فقرے کے
ساتھ بول پڑا تھا‘ ’’اِدھر دھوپ اُدھر چھاؤں۔‘‘ برس ہا برس تک گھر میں یہ
کہہ کر مجھے چھیڑا جاتا تھا‘ ’’آؤ بھئی، ’’اِدھر دھوپ اُدھر چھاؤں۔‘‘ لیکن
ماں نے مجھے ہمیشہ ’’حنیف‘‘ ہی کہہ کر بلایا البتہ لاڈ میں ’’محمد حنیف‘‘
بھی کہہ لیتی تھیں۔
گاؤں میں تو والد صاحب کو اپنی مصروفیات میں میرے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی
فرق ہی نہ پڑتا تھا مگر جب ہم شہر میں اٹھ آئے تو پھر میں واضح طور پر ان
کیلئے بیکارِ محض ہو کر رہ گیا۔ لیکن ان کی بے رخی نے مجھے لحظہ بہ لحظہ
ماں سے قریب تر کر دیا۔ یوں گھر میں ایک چھوٹی سی ٹیم بن گئی جس میں صرف
ماں اور میں شامل تھے۔ ماں تو خیر سب کی ماں تھیں لیکن میرے لئے میری ماں
ہی سب کچھ تھیں۔ ماں جی کے ساتھ اپنے تعلق پر غور کرتا ہوں تو سمجھ میں آتا
ہے کہ ان کے ساتھ میرا جینے مرنے کا رشتہ تھا۔ والد صاحب 1953ء میں وفات پا
گئے اور ماں جی ان کے بعد تیرہ سال زندہ رہیں۔ اب میں ان کا بیٹا بھی تھا‘
بھائی بھی اور دوست بھی۔ والد صاحب کی وفات کے بعد گھریلو اور سماجی زندگی
کے ہر مسئلے پر میں نے ان سے اور انہوں نے مجھ سے مشورہ کیا۔ میرے بڑے
بھائی بھی کسی معاملے میں ان سے رائے لینا چاہتے تو وہ صاف کہہ دیتی تھیں
کہ میں حنیف سے مشورہ کر کے بتاؤں گی۔
میری ابتدائی زندگی کے لمحے لمحے پر تو ماں کی مہر ثبت ہی ہے لیکن میرے
بیٹے ابراہیم کیلئے بھی وہ فرشتۂ رحمت ثابت ہوئی تھیں۔ ابراہیم پیدا ہوا تو
میری بیوی شاہین نے چاہا کہ اسے اپنا دودھ پلائے۔ دودھ کوئی خاص اترا نہیں۔
میری ضد پر اپنے دودھ کے ساتھ ساتھ وہ بوتل کے استعمال پر راضی تو ہو گئی
لیکن یہ سوچ کر کہ بچہ بمشکل ایک چوتھائی بوتل دودھ پیتا ہے وہ مطمئن ہو
جاتی کہ وہ یقینا اس کا اپنا دودھ پی کر سیر ہو جاتا ہے۔ ادھر ابراہیم
ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتا جارہا تھا۔ جو کوئی دیکھتا‘ حیران ہو کر کہتا کہ بچہ
سوکھتا کیوں جارہا ہے۔ ہمیں یہ بات بہت بُری لگتی تھی۔ ہم ماں باپ چونکہ
اسے روز دیکھتے تھے ہمیں اس میں کوئی خاص فرق نظر نہ آتا تھا۔ خدا نے
مہربانی کی‘ ماں جی کچھ عرصے سے رشیدہ بہن کے یہاں گئی ہوئی تھیں‘ واپس
آئیں اور ابراہیم کو دیکھا تو سخت پریشان ہوئیں۔ پہلی بات یہی کی کہ بچہ تو
بھوک سے مر رہا ہے۔ ہمیں ان کا یہ محاکمہ بھی اچھا نہ لگا۔ لیکن انہوں نے
معاملہ فوراً اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ بوتل کے نپل کا معائنہ کیا۔ پتا چلا کہ
اس کے سوراخ سے دودھ نکل ہی نہیں پاتا تھا۔ لوہے کی سوئی کو آگ میں تپا کر
نپل کے سوراخ کو بڑا کیا۔ بوتل میں دودھ بھرا اور بوتل ابراہیم کے منہ سے
لگا دی۔ وہ پانچ منٹ میں پوری بوتل پی گیا۔ چند ہی دنوں میں ہڈیوں کے پنجر
میں جان سی پھر گئی۔ اس وقت ابراہیم خود چار بچوں کا باپ ہے۔ میں اس کی طرف
دیکھتا ہوں تو ماں یاد آجاتی ہیں۔ پھر
(5)
میں اور ماں کی روح دونوں مل کر اسے دیکھتے اور زندگی کی دعا دیتے ہیں۔
میں نے اپنی ماں سے چار چیزیں سیکھیں درمندی‘ ایثار‘ خدمت ‘ سادگی۔ ان کی
درمندی کے مظاہر تو میں نے تاعمر دیکھے لیکن ان کی اس صفت سے میرا پہلا
پہلا تعارف شروع بچپن میں ہوا جب میں اکثر و بیشتر پیٹ کے درد میں مبتلا ہو
جایا کرتا تھا۔ گھر میں ہر شخص میرے پیٹ درد سے تنگ تھا یہاں تک کہ میری
پہلی چھیڑ ’’ادھر دھوپ‘ادھر چھاؤں‘‘ کہیں پیچھے رہ گئی اور اس کے بجائے
مجھے ’’ڈِھڈ پِیڑ‘‘ کہہ کر چھیڑا جانے لگا۔ کچھ اس طرح کا تاثر تھا جیسے
میں توجہ حاصل کرنے کیلئے پیٹ درد کا بہانہ بناتا ہوں۔ لیکن ماں میری شکایت
کو کبھی نظرانداز نہ کرتی تھیں۔ کبھی سونف الائچی ابال کر دے رہی ہیں‘ کبھی
مالش کر رہی ہیں اور جب مجھے کسی کل چین نہ پڑتا تو مجھے اپنے ساتھ لٹا
لیتیں اور اپنے پیٹ سے کُرتا ہٹا کر میرے ننگے پیٹ کے ساتھ لگا دیتیں اور
پھر نہ جانے کیا ہوتا کہ میرے پیٹ میں پڑتے ہوئے بل سیدھے ہونے شروع ہو
جاتے۔
ماں کے اس عمل سے لمس (Touch)کی طاقت کا راز اس کچی عمر ہی میں مجھ پر کھل
گیا تھا۔ بہت سالوں بعد جب میں نے اپنی اسیری کے دوران شیلا اوسٹرینڈر اور
لِن شروڈر کی لکھی ہوئی ستر کی دہائی کی مشہور کتاب "The Psychic
Discoveries behing the Iron Curtain" پڑھی اور حرارتی (کِرلی ان) فوٹو
گرافی سے واقفیت ہوئی تو اندازہ ہوا کہ ایک دوسرے کو دردمندی اور محبت کے
ساتھ چھونے میں کتنی طاقت ہے۔ ماں کی دردمندی اور محبت البتہ چھونے تک
محدود نہ تھی۔ ان کی کوشش ہوتی کہ گھر میں جو کوئی جس وقت آئے اسے نہ صرف
کھانا ملے بلکہ تازہ روٹی بھی بنا کر دی جائے۔ کنبے کے افراد کے علاوہ بھی
آئے دن کوئی نہ کوئی آیا ہی رہتا تھا۔ میں نے کبھی ماں کے ماتھے پر بل نہیں
دیکھا کہ انہیں اپنوں کے علاوہ غیروں کی بھی دیکھ بھال کرنی پڑتی تھی۔
سب کو کِھلا کر ماں سب سے آخر میں کھانا کھاتی تھیں۔ ایسے میں کوئی باہر سے
آگیا تو اکثر ان کے حصے کا کھانا مہمان کو مل جاتا تھا۔ بڑی بہنوں کی
شادیاں ہو چکی تھیں۔ وہ اپنے گھروں میں آباد تھیں۔ مجھ سے بڑے بھائی اپنے
اپنے کام پر چلے جاتے تھے۔ چھوٹا بھائی اور بہن ابھی بہت چھوٹے تھے۔ مجھے
یوں بھی ماں کے وجود کا زیادہ شعور تھا۔ میں ان کی اس بات سے خاصا پریشان
رہتا تھا۔ اکثر کہتا‘ آپ وقت پر اپنے حصے کا کھانا کیوں نہیں کھاتیں۔ وہ
کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتیں۔ سب سے سیدھا بہانہ یہ تھا کہ دیگچی کے ساتھ
اتنا سالن لگا ہوتا ہے کہ میں آسانی سے پیٹ بھر کھانا کھا لیتی ہوں۔ میں نے
بارہا دیکھا کہ وہ کھانا کھانے بیٹھیں اور انہیں اچانک یاد آیا کہ مسجد میں
تو کھانا بھیجا نہیں۔ وہیں ہاتھ روک لیتیں‘ اپنے حصے کا سالن کسی صاف ستھرے
برتن میں ڈالتیں‘ گرم گرم دو چپاتیاں ڈالتیں اور مجھے حکم ہوتا کہ مسجد میں
کھانا دے آؤں‘ نہ جانے کوئی مسافر یا درویش بھوکا بیٹھا ہو۔ میں ضد کرتا کہ
آپ نے خود تو کھایا نہیں؟ وہی بندھا ٹکا جواب مل جاتا کہ میں دیگچی سے لگے
ہوئے سالن سے کھالوں گی۔ گھر میں دوسرے تیسرے دن کوئی پھل یا مٹھائی آتی جو
سب میں بانٹی جاتی اور ماں اپنے حصہ کھانے کے بجائے کہیں چھپا دیتیں۔ میں
پوچھتا کہ آپ نے بھی مٹھائی کھائی؟ تو کہتیں‘ میں بعد میں کام سے فارغ ہو
کر کھاؤں گی۔ چھوٹے بھائی حفیظ صاحب میٹھی چیزوں کے شیدائی تھے۔ اکثر و
بیشتر اپنے حصے کے علاوہ ماں کا حصہ بھی انہی کو مل جاتا تھا۔
میں نے زندگی میں‘ خصوصاً سیاست کے میدان میں‘ دیکھا ہے کہ لوگ ہمارے لئے
تنکا بھی توڑتے ہیں تو اتنے زور سے احسان جتاتے ہیں جیسے انہوں نے ہمارے
لئے زمین آسمان ایک کر دیا ہو۔ ماں صبح سے رات گئے تک گھر کے ہر فرد کیلئے
کچھ نہ کچھ نہیں‘ تقریباً سب کچھ کرتی تھیں لیکن مجال ہے کہ انہوں نے کبھی
کسی کو بھی جتایا ہو کہ وہ اس کیلئے کیا کرتی ہیں۔ آخری عمر میں انہیں
بلڈپریشر کی شکایت ہو گئی۔ میری شادی ہو چکی تھی۔ والد صاحب کی وفات کے بعد
ماں یا تو میرے یہاں رہنا پسند کرتیں یا پھر میری سب سے چھوٹی ہمشیرہ رشیدہ
کے پاس۔ ان دنوں وہ ہمارے یہاں اس گھر میں رہ رہی تھیں جو سندرداس روڈ پر
وائٹ ہاؤس لین میں جسٹس سردار محمد اقبال کی ملکیت تھا اور ہم اس کی اوپر
والی منزل میں کرائے پر رہتے تھے۔ میری اہلیہ شاہین اور میں پوری کوشش کرتے
کہ ماں کو ہمارے یہاں پورا پورا آرام ملے۔ لیکن ہم اکثر دیکھتے کہ وہ لیٹے
لیٹے آنکھ بچا کر اٹھتیں اور گھر کا کوئی نہ کوئی کام کر کے چپکے سے پھر
لیٹ جاتیں۔ میں نے کئی مرتبہ پوچھا کہ میری جرابیں کس نے دھوئی ہیں کیونکہ
میں اکثر اپنی جرابیں خود دھویا کرتا تھا۔ مجھے پتا بھی ہوتا تھا کہ ماں ہی
نے جرابیں دھوئی ہیں لیکن وہ یوں لیٹی رہتیں جیسے انہوں نے سنا ہی نہیں۔ آج
یہ بات اتنی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ کسی داد یا شکریے اور ستائش کی امید کے
بغیر دوسروں کے کام کوئی یوں خاموشی سے کر دے۔ ماں کی وفات کے اگلے ہی سال
میں جاپان گیا تو وہاں ایک روحانی مکتبہ ٔفکر سے واقف ہوا جو ہر طرح کے
دکھاوے اور کسی تعریف و تحسین کی توقع سے بے نیاز خدمت ہی کو سب سے بڑی
عبادت قرار دیتا تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا‘ میری ماں اس مکتبہ ٔفکر کی
عظیم ترین گرو تھیں۔
میں نے نہیں دیکھا کہ ماں نے شہر کی تنگ دستی میں گاؤں کی ریل پیل کو کبھی
حسرت سے یاد کیا ہو۔ لے دے کے گاؤں کی ایک ہی ’’شخصیت‘‘ انہیں یاد آتی
(6)
تھی اور وہ تھی ان کی پسندیدہ کتیا‘ مہنگی (قیمتی)۔ بتایا کرتی تھیں کہ
مہنگی ان کا اشارہ سمجھتی تھی بلکہ اشارے سے بھی پہلے جان لیتی تھی کہ ماں
کیا چاہتی ہیں۔ لیکن پھر ایک حادثہ ہو گیا اور حادثے کی وجہ بھی میں تھا۔
جیسے ہی بادل آتے اور مینہہ برستا میں ضد کرتا کہ ’’پُوڑے‘‘ تلے جائیں۔
مینہہ برسا اور پوڑے تلے گئے۔ مہنگی کو نہ جانے کیا سوجھی‘ آگے نہ پیچھے‘
اس نے چنگیر میں رکھے پُوڑوں میں منہ مار دیا۔ ماں نے ایک ذرا درشتی سے کہہ
دیا‘ مہنگی‘ تجھے شرم نہیں آئی۔ اتنا سننا تھا کہ مہنگی وہیں کی وہیں ڈھیر
ہو گئی۔ میرے سامنے جب بھی مہنگی کا ذکر آتا تو ماں میرے سر پر ہاتھ رکھ کر
کہتیں‘ ’’بیٹا‘ محبت کرنے والوں سے چھوٹی موٹی غلطی ہو جائے تو انہیں
ڈانٹنا نہیں چاہئے۔‘‘ میرے طویل سیاسی سفر میں مجھ سے میرے کتنے ہی
مہربانوں نے شکایتاً کہا ہو گا کہ میں دوست تو الگ رہے‘ رقیبوں اور دشمنوں
کو بھی اتنی آسانی سے کیوں معاف کر دیتا ہوں۔ میں انہیں کیا بتاتا‘ میں نے
تو دودھ ہی اس ماں کا پیا تھا جسے عمر بھر یہ ملال رہا کہ اس نے مہنگی کتیا
کو معاف کیوں نہ کر دیا۔
ماں نے ایک غریب کسان گھرانے میں آنکھ کھولی تھی اور پھر وہ میرے والد
چودھری غلام حسین کی زوجہ کے طور پر گاؤں کی چودھرائن بن گئیں۔ درجنوں خدمت
گار ان کے اردگرد پھرتے تھے اور گھر میں کپاس اور دیگر اجناس کے ڈھیر لگے
ہوتے تھے۔ گائے بھینسوں‘ بھیڑ بکریوں‘ گھوڑے گھوڑیوں اور مرغے مرغیوں سے
احاطہ بھرا ہوتا تھا۔ پھر اچانک والد صاحب کی عزتِ نفس کے صدقے یہ سب کچھ
پیچھے رہ گیا اور لاہور میں ہمارے کنبے نے قریب قریب صفر سے ایک نئی زندگی
کا آغاز کیا۔ میں نے اپنی ماں کو اس غریبانہ دور میں ایک مرتبہ بھی اپنی
موجودہ حالت پر کڑھتے ہوئے نہ پایا۔ ہاں‘ کبھی کبھی انہیں میاں محمد بخش کا
یہ مصرع گنگناتے ہوئے ضرور سنا
سدا نہ باگیں بلبل بولے‘ سدا نہ باغ بہاراں
یہ ماں ہی کی قناعت پسندی تھی جو اُن کی محبت میں ازخود میرے مزاج کے اندر
رچ بس گئی تھی کہ جب پنجاب کے اس سابق وزیراعلیٰ کو لاہور کے شاہی قلعے کی
عقوبت گاہ اور پھر اٹک اور کوٹ لکھپت کی جیلوں کی سیر کرائی گئی تو اس نے
ایک دن بھی اپنے ساتھ ہونے والے ’’حسنِ سلوک‘‘ کی شکایت نہ کی حالانکہ انہی
چار دیواریوں میں بڑے بڑے سیاسی لیڈر چھوٹی چھوٹی سہولتوں کیلئے جیلروں سے
دست و گریبان ہوتے رہتے تھے۔
جیسے ہی کرائے کے مکان سے اپنے جدی مکان میں منتقل ہوئے ہمارے گھر میں چوری
ہو گئی۔ گھر میں ابھی ایک میں ہی تھا جو سکول جاتا تھا۔ ماں نے گھر کا ایک
چھوٹا سا کمرہ مجھے دے دیا تاکہ میں الگ بیٹھ کر پڑھ سکوں۔ مجھے ٹین کا ایک
بہت معمولی سا سوٹ کیس بھی مل گیا جس میں میرے چند ایک کپڑے رکھے تھے۔
گرمیوں کے دن تھے۔ میں رات کو صرف ایک ٹیکر میں چوتھی منزل پر سویا تھا۔
صبح اٹھا تو پتا چلا کہ چور کو میرا چھوٹا سوٹ کیس بہت پسند آیا تھا اور وہ
دوسری اشیاء کے علاوہ وہ سوٹ کیس بھی لے گیا تھا۔ اس روز میرا حساب کا
امتحان تھا۔ خوش قسمتی سے پرچہ کوئی گیارہ بجے دن کے وقت تھا لیکن میرے پاس
پہننے کیلئے کوئی قیمض نہیں رہی تھی۔ ماں نے چور کو کوسنے اور برا بھلا
کہنے کے بجائے برقع اوڑھا اور بھاگم بھاگ بھائی گیٹ سے گمٹی بازار جا کر
تھوڑا کپڑا خریدا اور گھر واپس آکر محلے سے کسی کی سلائی مشین مانگی اور
جلدی جلدی میرے لئے ایک قمیض سی ڈالی۔ وقت کم اور مقابلہ سخت تھا۔ قمیض پر
نہ تو بٹن لگ سکے اور نہ ہی کالر۔ بٹنوں کی جگہ تو ماں نے ایک سیفٹی پن لگا
دی جو باہر سے نظر نہ آتی تھی۔ لیکن کالر کے بغیر قمیض میرے لئے ناقابل
قبول تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ سکول کے سارے لڑکے میری طرف دیکھ رہے ہوں گے کہ
میں نے کالر کے بغیر قمیض پہنی ہوئی ہے۔ میں نے قمیض پہننے سے صاف انکار کر
دیا اور رونے لگا۔ ادھر امتحان کا وقت نکلا جارہا تھا۔ ماں نے مجھے سینے سے
لگایا اور کہا‘ ’’میرا ذمہ‘ اگر کسی ایک لڑکے نے بھی تمہیں کالر نہ ہونے پر
چھیڑا‘ آج ہر کوئی صرف تمہارا چہرہ دیکھے گا اور کوئی بھی تمہاری قمیض نہیں
دیکھ پائے گا۔‘‘ اور ایسا ہی ہوا۔ اس دن سے ظاہرداری کا خوف گویا ہوا ہو
گیا۔ پھر زندگی بھر مجھے پروانہ رہی کہ میں کیسا لگ رہا ہوں‘ صرف یہی فکر
رہی کہ میں کیسا ہوں۔
میرے بڑے بھائیوں نذیر احمد چودھری‘ بشیر احمد چودھری اور رشید احمد چودھری
نے انتہائی سلیقے اور عرق ریزمحنت سے نہ صرف لاہور بلکہ پورے برصغیر کی سطح
پر اعلیٰ اشاعتی ادارے قائم کئے اور گھر میں دوبارہ اﷲ کا فضل ہو گیا۔ ماں
نے نومبر 1966ء میں وفات پائی تو میں اس وقت مرکزی اردو بورڈ لاہور میں
ڈائریکٹر کی جگہ کام کر رہا تھا۔ سب بھائی وقتاً فوقتاً ماں کیلئے کوئی نہ
کوئی تحفہ لاتے تھے۔ خاص طور پر کوشش کی جاتی کہ انہیں موسم کے مطابق کپڑے
اور جوتے لا کر دیئے جائیں لیکن میں نے دیکھا کہ ماں نے اپنے لئے دو جوڑے
کپڑوں سے زیادہ کبھی کچھ نہ رکھا۔ قریب قریب یہی صورت تھی کہ ایک جوڑا پہن
لیا اور دوسرا دھو کر رکھ لیا۔ اس سے زیادہ جو کچھ بھی ان کے پاس ہوتا وہ
دوسروں کو پیش کر دیا جاتا تھا۔ یسئلونک ماذا ینفقون قل العفو۔ (اے نبیؐ‘
لوگ آپؐ سے پوچھتے ہیں‘ اﷲ کے راستے میں کیا خرچ کریں تو آپؐ کہہ دیجئے کہ
اپنی ضرورت کا رکھ کر باقی سب راہِ خدا میں خرچ کر دو)۔۔۔۔ قرآن کی اس
تعلیم کی اپنی ماں سے بہتر عملی مثال میں نے اپنی زندگی میں اور نہیں دیکھی
اور میں نے انہیں عمر بھر یہی کچھ کرتے دیکھا۔
(7)
ان کے اس شعار پر پہلی مرتبہ میں اس وقت متعجب ہوا جب میری شادی ہوئی اور
اپنی خوش دامن عقیلہ بیگم صاحبہ سے میرا تعارف ہوا جو خود فرمایا کرتی
تھیں‘ ’’دنیا کی ساری نعمتیں بھی میرے آگے ڈھیر کر دی جائیں تو کم ہیں‘
کیونکہ وہ مجھے خوش نہیں کر سکتیں۔‘‘ وہ اپنے لئے قیمتی سے قیمتی خوشبو
خریدتیں‘ اچھے سے اچھا لباس سلواتیں اور ہمیشہ شکایت کرتیں کہ یہ سب کچھ ان
کے لائق نہ تھا۔ حکم چلانا ان پر ختم تھا۔ شاہین اور میں انہیں ’’حکومت
آپا‘‘ کہا کرتے تھے۔ ان میں اپنی بہت خوبیاں تھیں مثلاً شاہ خرچ ہی نہیں
فیاض بھی تھیں۔ جب ماں پہلی بار ان سے ملیں تو انہوں نے ہماری حکومت آپا کو
بھی اپنی بیٹیوں کی طرح شفقت اور دعاؤں سے نوازا حالانکہ دونوں کی عمر میں
کوئی خاص فرق نہ تھا۔
دردمندی‘ ایثار‘ خدمت‘ سادگی۔۔۔۔ یہ چاروں روئیےّ جتنے بھی اہم ہوں اور میں
ان کیلئے اپنی ماں کا جتنا بھی شکریہ ادا کروں‘ وہ ایک بات جو میری زندگی
میں سب سے اہم ہے وہ ایک مہربان و مشفق خدا کے زندہ وجود کا احساس ہے اور
یہ احساس بھی مجھے میری ماں ہی نے عطا کیا۔ گھر میں مہمان آجاتے اور ان کی
خاطر مدارات کیلئے سوڈا واٹر منگوانا ہوتا یا تنور سے روٹیاں لگوانی ہوتیں
تو ماں مجھے بازار بھیجنے پر مجبور ہو جاتیں۔ گھر سے بازار کوئی سو ڈیڑھ سو
گز دور تھا۔ درمیان میں ایک گھاٹی تھی جس پر گائے بھینسیں اور بیل گاڑیاں
آتی جاتی تھیں۔ پانچ چھ سال کے بچے کو یہاں سے گزرتے ہوئے کچھ بھی ہو سکتا
تھا۔ ماں کہتیں‘ ’’دیکھو‘ میں اوپر کھڑکی سے تمہیں دیکھتی رہوں گی‘ تم بے
فکر ہو کر چلتے جانا‘ تمہیں کچھ نہ ہو گا۔‘‘ ان کی اس بات سے مجھے حوصلہ ہو
جاتا اور میں بازار میں اتر جاتا۔ آدھے راستے تک تو تیسری چھت کی کھڑکی میں
کھڑی ماں نظر آتی رہتیں اور پھر ایک موڑ ایسا آتا کہ کھڑکی نظر آنی بند ہو
جاتی۔ اتنے میں بازار نظر آنے لگتا اور میرا دھیان کام میں لگ جاتا۔ آج
پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ اگر کبھی مجھے کوئی گائے بھینس
سینگوں پر اٹھا لیتی یا میں کسی بیل گاڑی کے نیچے آجاتا تو سو گز دور تیسری
منزل کی کھڑکی میں کھڑکی میری ماں میری مدد کو کیونکر آتی؟ لیکن یہ خیال
بہت عارضی اور یہ سوال بہت دیر تک موجود رہتا ہے کہ آخر میری زندگی میں خدا
کا وجود میری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب کیونکر رہا۔ حقیقت ہے کہ وہی حوصلہ
جو میری ماں اتنی دور کھڑی رہ کر مجھے دیتی تھیں وہ انجانے طور پر خدائے
حاضر و موجود پر ایمان میں بدل گیا۔ زندگی بھر مجھے اپنی ماں کی مثال سے
حوصلہ ملتا رہا کہ اگر وہ تیسری منزل کی کھڑکی سے میری نگہداشت کر سکتی
تھیں تو میرا شاہد ناظر خدا میری حفاظت کیونکر نہ کرے گا۔
میں ماں کو دنیا کا سب سے اچھا انسان سمجھتا تھا لیکن وہ دنیا کے ہر انسان
کو اپنے سے بہتر سمجھتی تھیں۔
میں نے زندگی کے مختلف میدانوں کی خاک چھانی ہے۔ وہ لوگ جو مجھے صرف
سیاستدان سمجھتے ہیں ان کے خیال میں مجھ میں وہ ساتوں ’’شرعی عیب‘‘ ضرور
پائے جاتے ہوں گے جو ہمارے سیاستدانوں کا طرہ امتیاز ہیں۔ البتہ کچھ لوگ
ایسے بھی ہیں جو مجھ میں دردمندی‘ ایثار‘ خدمت اور سادگی کے جراثیم دیکھتے
ہیں۔ انہیں علم ہے کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے لاکھوں دیہاتیوں اور شہریوں کو
زمین دی لیکن اپنے لئے یا اپنے کنبے کیلئے سرکار سے ایک انچ زمین الاٹ نہ
کروائی۔ان میں سے کچھ یہ بھی جانتے ہیں کہ اﷲ کی زمین پر میں ایک بائیسکل
کا بھی مالک نہیں۔ 15 مارچ 1974ء کو جب وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کا حلف
اٹھا رہا تھا تو میں نے اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
چند تصویرِ بتاں‘ چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا
تصویر بتاں سے مراد میرے اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی پینٹنگز تھیں اور حسینوں
کے خطوط سے مراد وہ ہزاروں کتابیں تھیں جو وقت کے ساتھ ساتھ جمع ہو گئیں۔
آج بھی میرا یہی اثاثہ ہے لیکن میری زندگی میں دردمندی‘ ایثار‘ خدمت اور
سادگی کے جتنے بھی رنگ ہیں ان سب کا منبع میری ماں کا وجود ہے۔
ہاں‘ یہ ایک چھوٹی سی میز ہے جو میرے وجود کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ جب چھوٹے
بھائی محمد حفیظ چودھری کی شادی ہو گئی تو ماں نے چاہا کہ وہ اپنا الگ گھر
بسالیں اور مشترکہ گھر میں جو بُرا بھلا سامان سال ہا سال سے جمع ہو گیا
تھا ہم دونوں بھائیوں میں تقسیم ہو جائے۔ میں نے عرض کی‘ مناسب یہی ہے کہ
یہ سب چیزیں حفیظ صاحب کو دے دی جائیں۔ ماں نے ایک لحظہ سوچا اور کہا‘ اچھا
تم ان میں سے ایک چیز ضرور لے لو۔ بزرگانِ دین سے سنا تھا کہ صبر کرنے سے
شکر کرنا بہتر ہوتا ہے چنانچہ میں نے شکریے کے ساتھ ایک چھوٹی میز اپنے پاس
رکھ لی جو آج بھی میرے سٹوڈیو میں موجود ہے اور اس وقت بھی اس پر السی اور
تارپین تیل کی بوتلیں اور روغنی رنگوں کی سینکڑوں ٹیوبیں (Tubes) پڑی ہیں۔
پچھلے چالیس سال میں اگر میں نے کسی ایک چیز کو سنبھال کر رکھا ہے تو وہ
2'x3'کی ڈیڑھ فٹ اونچی یہ میز ہے اور اس دوران بننے والی میری ہر پینٹنگ کا
ہر رنگ اسی میز سے اٹھایا گیا ہے‘ اس پر رکھے ایک ایک رنگ کے ایک ایک انگ
(Shade) میں مجھے اپنی ماں کے مہربان وجود کی آب و تاب گھلی ملی محسوس ہوتی
ہے۔
********** |