(پروفیسرمظہر)
وطنِ عزیز ایک دفعہ پھر عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے لیکن عام انتخابات
بَروقت ہوتے ہیں یا نہیں، اِس پر ابھی تک سوالیہ نشان ہے۔ سپریم کورٹ کے
حکم کے مطابق کاغذاتِ نامزدگی وصول اور جمع کروانے کا عمل شروع ہوگیا لیکن
لگ بھگ اٹھائیس اضلاع کی نئی حلقہ بندیوں کا عمل ابھی باقی ہے جس کے لیے
بہت سا وقت درکار ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بھی میڈیا
بریفنگ میں کہہ دیا کہ 2018ء ملک میں تبدیلی کا سال ہے اور بروقت انتخابات
سب کی خواہش۔ اُنہوں نے کہا کہ مختلف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے مقابلے
میں ہیں، تاہم فوج کو سیاست میں نہیں گھسیٹنا چاہیے۔ بجا ارشاد لیکن ’’دودھ
کا جَلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘ کے مصداق قوم مشوّش کہ پے در
پے مارشلاؤں نے اُس کا ایمان متزلزل کر رکھا ہے۔ اُدھر یہ تصور بھی عام کہ
مقتدر ادارے صرف ایک سیاسی جماعت کو ٹارگٹ کیے ہوئے ہیں۔ قومی اور بین
الاقوامی سرویز کے مطابق وہی جماعت تاحال پاکستان کی مقبول ترین جماعت ہے۔
لیکن عام خیال یہ کہ مقتدر قوتیں اُسے کسی صورت حقِ حکمرانی دینے کو تیار
نہیں۔اب اُس جماعت کو منصّۂ شہود سے غائب کرنے کے لیے انتخابات کے التوا
سمیت کیا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، کچھ پتہ نہیں۔
سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے حکم پر سرِتسلیم خم کیوں کیا جائے؟۔ عدلیہ کے
متنازع فیصلوں کی تحسین فرضِ منصبی کیوں؟۔ اداروں کو اپنے حدودوقیود میں
رہنے کی تلقین لائقِ تعزیر کیوں؟۔ کیا حکمت ودانائی اِنہی کی میراث ہے؟۔
کیا یہ متاعِ گراں مایہ نایاب ہو چکی؟۔ کیا زندہ جاوید عادلوں کے افکار
مردہ ہو چکے؟۔ اور کیا ’’نظریۂ ضرورت‘‘ ایک دفعہ پھر مسلط ہونے کو ہے؟۔
حکمت کی عظیم الشان کتاب میں درج کر دیا گیا ’’کسی گروہ کی دشمنی تمہیں
اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ(المائدہ) لیکن یہاں تو ایک ہی
سیاسی جماعت نشانہ ہے کوئی اور نہیں۔۔۔۔ صرف مقتدر ادارے ہی نہیں،پرنٹ اور
الیکٹرانک میڈیا بھی اُسی کو ٹارگٹ کیے ہوئے ہیں۔ میڈیا کے انقلابی اینکر
تو پہلے ہی پریشان کہ لنگڑی لولی جمہوریت کا دوسرا پانچ سالہ دور بھی تمام
ہوا حالانکہ وہ تو کچھ اور ہی اُمید لگائے بیٹھے تھے۔ وہ تو 2014ء کے
دھرنوں میں ہی سیاسی بساط اُلٹنے کی پیشین گوئیاں کر رہے تھے۔ دھرنوں کے
دوران وہ نیوزچینل پر بیٹھ کر چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھاتے اور اگلے دن
حکومت کے خاتمے کی نوید سناتے۔ رَبّ ِ علیم وخبیر کا تو حکم ہے ’’آپس میں
ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد
کرو(الحجرات)‘‘۔ آقا کا فرمان ہے ’’ایسا اشارہ بھی حرام ہے جس سے رنج ہو،
چہ جائیکہ کلام‘‘۔ لیکن ارسطوانِ دَہر بنے اینکر محض ذاتی اغراض کی خاطر
اظہار کے سارے اصول ،ضابطے، قرینے اور سلیقے بھلا بیٹھے۔ مزاحیہ پروگراموں
میں سوائے پگڑیاں اچھالنے ، جگت بازی ، پھکڑپن اور ذومعنی جملوں کے اور کچھ
نہیں ہوتا۔ چینلز مالکان ریٹنگ بڑھانے اور پیسہ کمانے کے شوق میں ناظرین کو
ذہنی مریض بنا رہے ہیں۔یہ فکری افلاس اور قحط الرجال نہیں تو اور کیا ہے؟۔
ایسے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ
وہاں فلک پہ ستاروں نے کیا اُبھرنا ہے
ہر اِک آنکھ جہاں آنسوؤں کا جھرنا ہے
صرف ادارے ہی نہیں ،یہاں تو ’’آوے کا آوا‘‘ ہی بگڑا ہوا ہے۔ مسندِاقتدار کے
حریص بھی کسی سے کم نہیں۔’’ اسٹیٹس کو‘‘ اور نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ
کرنے والے عمران خاں نے اپنے گرد جاگیردار، سرمایہ داراور صنعتکار اکٹھے کر
لیے۔ اتنے ’’ضمیرفروش‘‘ تو تاریخِ پاکستان میں کسی نے اکٹھے نہیں کیے جتنے
اُنہوں نے کر لیے۔ ہمیں اکتوبر 2011ء کا وہ دِن یاد ہے جب پاکستان کے
درودیوار عمران خاں کی مقبولیت کے نعروں سے گونج رہے تھے۔ وجہ صرف یہ کہ
اُنہوں نے ’’شفافیت‘‘ کا نعرہ بلند کر کے نئے پاکستان کی نوید سنائی۔ اُن
کا پہلا اعلان ہی یہ تھا کہ اُن کی جماعت میں سبھی ’’پاکدامن‘‘ ہوں گے لیکن
ہوا یہ کہ اُنہوں نے ہر کسی کے لیے اپنا دامن وا کر دیا۔ جب تنقید کا طوفاں
اُٹھا کہ ’’آزمودہ را آزمودن جہل است‘‘ تو اُنہوں نے پہلا یوٹرن لیتے ہوئے
کہہ دیا کہ سبھی نہیں لیکن غالب اکثریت پاکدامن لوگوں کی ہوگی۔ د راصل خاں
صاحب ’’جیتنے والے گھوڑوں‘‘ پر داؤ لگانا چاہتے تھے تاکہ مسندِاقتدار تک
پہنچ سکیں اِس لیے بالآخردوسرا یوٹرن لیتے ہوئے اُنہیں کہناپڑا ’’آسمان کے
فرشتے کہاں سے لاؤں‘‘۔ اُنہی دنوں کپتان کا نعرہ تھا کہ اگر سربراہ کا دامن
پاک ہو تو حواری خودبخود ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
2013ء کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف بہت پیچھے رہ گئی۔ یہ بھی غنیمت
تھا کہ وہ سیاسی اُفق پر تیسرے نمبر کی جماعت بن کے اُبھری لیکن کپتان تو
اپنے بیٹوں کو بھی کہہ آئے تھے کہ اب اُن سے اگلی ملاقات وزیرِاعظم ہاؤس
میں ہوگی اِس لیے اُنہیں دھاندلی کے خواب آنے شرو ع ہوئے۔ اُدھر آصف زرداری
نے کہہ دیا کہ یہ تو ’’آراوز‘‘ کا الیکشن تھا۔ زرداری صاحب تو یہ بیان دے
کر چُپ ہورہے لیکن کپتان کے ہاتھ بہانہ آگیا۔ پھر الزامات کا ایسا طوفان
اُٹھا کہ خُدا کی پناہ۔ یہ خان صاحب کا ایسا یوٹرن تھا جو ملک وقوم کے لیے
سمِ قاتل ثابت ہوا اور آشاؤں ،اُمیدوں کے دیپ بجھنے شروع ہو گئے۔ الزام
تراشیوں کا ایسالامتناہی سلسلہ شروع ہوا جو رُکنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔
پنجاب کے نگران وزیرِاعلیٰ نجم سیٹھی پر ’’پینتیس پنکچروں ‘‘کا الزام لگایا
لیکن پھر یوٹرن لیتے ہوئے کہہ دیا ’’وہ تو سیاسی بیان تھا‘‘۔ کپتان کا دعویٰ
تو یہ تھا کہ اُنہوں نے عدلیہ بحالی تحریک میں چھ روزہ جیل کاٹی۔ اُنہی کی
ضد پر عدلیہ کی نگرانی میں انتخابات ہوئے لیکن جب وہ مطلوبہ نتائج حاصل
کرنے میں ناکام رہے تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو کہہ
دیا ’’کتنے میں بِکے؟۔2013ء کے انتخابات میں عدلیہ کے کردار کو ’’شرمناک‘‘
کہاجس پر سپریم کورٹ نے توہینِ عدالت میں اُنہیں طلب کیا ،تب کپتان نے
عدلیہ سے معافی مانگتے ہوئے بڑے معصومانہ انداز سے کہہ دیا ،اُنہیں تو پتہ
ہی نہیں تھا کہ لفظ ’’شرمناک‘‘ گالی ہوتا ہے۔
کپتان نے ایک بریگیڈئر پر بھی دھاندلی کا الزام لگایالیکن آج تک کسی کو
نہیں بتایا کہ وہ بریگیڈئر کون تھا۔ دھرنوں کے دوران وہ بار بار امپائر کی
انگلی کھڑی ہونے کا اعلان کرتے رہے لیکن بعد میں کہہ دیا کہ امپائر تو اﷲ
ہے حالانکہ تحریکِ انصاف کے اُس وقت کے صدر جاوید ہاشمی متعدد بار کہہ چکے
کہ عمران خاں کندھوں کی طرف اشارہ کرکے یہ کہتے تھے ’’وہ ہمارے ساتھ ہیں‘‘۔
کپتان نے بھارتی میڈیا پر بیٹھ کر کہا کہ پاکستان میں فوج کی مرضی کے بغیر
کوئی حکمران نہیں بن سکتا۔ آجکل بھی وہ یہی ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ میاں
نواز شریف کواسٹیبلشمنٹ نے وزیرِاعظم بنوایا۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر
سوال یہ ہے کہ کیا آجکل اسٹیبلشمنٹ اُن کی پُشت پر ہے ؟ کیونکہ جس یقین کے
ساتھ وہ اپنے آپ کو اگلا منتخب وزیرِاعظم قرار دے رہے ہیں اُس سے تو یہی
ظاہر ہوتا ہے۔
پرویز مشرف کے دستِ راس شیخ رشید کہا کرتے تھے کہ عمران خاں کے پاس تو
تانگے کی سواریاں بھی نہیں ہیں اور کپتان شیخ صاحب کو اپنا چپڑاسی رکھنے کو
بھی تیار نہیں تھے لیکن آجکل وہی شیخ رشید کپتان کے د ستِ راس ہیں۔ گھاٹ
گھاٹ کا پانی پینے والے فوادچودھری جس کی سیاسی پیدائش پرویز مشرف کے دَور
میں ہوئی وہ آجکل تحریکِ انصاف کے ترجمان ہیں اور میڈیا پر بیٹھ کر کپتان
کے خلاف زہر اُگلنے والے بابر اعوان سینئر نائب صدر۔ سلگتا ہوا سوال یہ کہ
اگر واقعی کپتان مسندَ اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تو ملک وقوم کا
کیا حشر ہوگا؟۔ |