اقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال کے5 جون کو عالمی
سطح پر یوما حولیات کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ اس سال کے عالمی یوم ماحولیات
کی بہت ہی خاص بات یہ ہے کہ اس سال ہمارے ملک انڈیا کو اس عالمی یوم
ماحولیات کی میزبانی کا شرف حاصل ہے۔اس لئے یہ ضروری ہے کہ میزبان ملک کی
حکومت اور عوام کا ماحولیات کے ضمن میں کیا رویۂ اور کوششیں ہیں ،ان پر ایک
نظر ڈالی جائے۔
ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ انسانی زندگی کا انحصار خوراک،پانی اور
ہواپر ہے۔اس کے بعد ہی روٹی ،کپڑا اور مکان کا نمبر آتا ہے۔اس لئے ہم سمجھ
سکتے ہیں کہ ہماری زندگی میں خوراک، پانی اور ہوا کی کس قدر اہمیت ہے ۔ ان
میں سے کسی ایک کی بھی کمی واقع ہوتی ہے تو ہماری زندگی یقینی طور پر متاثر
ہوگی۔ ہماری ہی طرح چرند و پرند کی زندگی بھی ان ہی تینوں قدرت کے انمول
خزانے پر منحصر ہے ۔ اس لئے ان کا تحفظ ہر ایک انسان کا فرض ہے ۔اس فرض کا
یوں تو ہر شخص کو احساس ہونا ہی چاہئے ، لیکن جو لوگ اپنی ان بنیادی
ضروریات کی اہمیت اور افادیت پر توجہ نہیں دیتے ہیں ، انھیں اس فرض کا
احساس کرانے کے لئے حکومت اور سماجی اداروں کا رول بھی بہت اہم اور ضروری
تصور کیا گیاہے ۔ ماحولیات کے توازن برقرار رکھنے میں یقینی طور پر کسی بھی
ملک کی حکومت کا بہت ہی اہم رول ہوتا ہے ۔
قدرت نے خوراک،پانی اور خوراک کا اتنا بڑا خزانہ عطا کیا ہے کہ لاکھوں برس
سے انسان ان کا بھرپور استعمال کر رہا ہے ،لیکن ختم ہونے کا نام نہیں ۔لیکن
ادھر گزشتہ چند دہائیوں میں فطرت اور قدرت سے انسانی چھیڑ چھاڑ ان کے تحفظ
سے لاپرواہی برتی جا رہی ہے۔صارفیت ہمارے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے
چکا ہے ۔جس کے باعث اپنی تمام تر قدروں کو روندتے ہوئے لوگ پیسے کے پیچھے
بھاگ رہے ہیں ۔اس بھاگ دوڑ میں انسانیت ،انسانی روایت، نسانی قدریں کتنی
پامال ہو رہی ہے ، اس کا احساس ہی ختم ہو گیا ہے ۔ کھیت ،کھلیہان،
جنگل،ندیاں، تالاب سب کے سب بہت شدت سے بازار واد کے شکار ہیں ۔ان کی بڑی
بڑی بولی لگا کر بلڈرس کسانوں سے ان کی زمین لے کر بڑی بڑی عمارت بنا رہے
ہیں ۔ جن کھیت کھلیہان میں انسانی غذا اگائی جاتی ہیں۔ان انسانی خوراک کو
جلدی اور زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لئے ان میں ڈھیر سارے کیمیکلز ملائے
جاتے ہیں ،تاکہ ان کی پیداوار بہت زیادہ ہو ،جن سے زیادہ سے زیادہ دولت
کمائی جائے ۔ غور کیجئے کہ دولت کی ہوس میں ایسے کیمیکلس سے پیدا ہونے والے
اجناس اور دیگر پھل و سبزیاں کس قدر انسانی زندگی کے لئے مہلک ہو تی ہیں ،
ان پر کوئی سنجیدگی سے سوچنے کو تیا ر نہیں ۔گاؤں اور شہروں کے قصبوں
ومحلّوں کے پرانے زمانے سے موجود تالاب ، پوکھر پر ناجائز قبضہ کر ان پر
عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں ۔ ندیوں کے کناروں کو کوڑا کرکٹ ،طرح طرح کی
غلاظتوں ، خاص طور پر بہت بھاری تعداد میں پلاسٹک (پولتھین)سے بھر کر اور
ان کے غلط استعمال سے ندیاں روز بروز سکڑتی جا رہی ہیں ، یا ان کا وجود ختم
ہوتا جا رہا ہے۔ sewrage تالابوں اور ندیوں میں ڈالا جا رہا ہے ۔ کیمیائی و
صنعتی اخراج اور بعض جگہوں پر کارخانے کا کچّا تیل بھی ان ہی ندیوں میں بلا
خوف و خطر ڈال دیا جاتاہے ۔ کوڑا کرکٹ، فضلہ ، غلازتوں اور نالوں و صنعتی
اخراج کی بہتات سے برسات میں پانی کے تیز بہاؤ میں یہ سب مل کر ندی کا صاف
پانی آلودہ اور زہریلے ہو جاتے ہیں ۔ جس کے سبب ان ندیوں کے پانی میں
آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے اور Reoxygenation نہیں ہو نے سے Deoxygenation
ہونا لازمی ہو جا تا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان waste products سے امونیم
سائنائڈ،کرومیٹ اور نیپتھین جیسے زہریلے مادّے کے مضر اثرات انسان، حیوان
اور بہت سارے آبی نباتات مثلاََ Fungi وغیرہ پر منفی اثرات پڑتے ہیں ۔ ایسے
آلودہ پانی میں پیدا ہونے والے نباتات کلورین کی کمی کے باعث ختم ہونے لگتے
ہیں ، جس سے انسان کے ساتھ ساتھ مچھلیوں اور کئی دوسرے پانی میں بسنے والے
نفوس کی غذا ضائع ہو جاتی ہیں اور مچھلیاں ایسے پانی کی وجہ کر زہر آلود ہو
جاتی ہیں ، ان مچھلیوں کو انسان غذا کے طور پر استعمال کرتا ہے جس میں
قدرتی طور پرموجود اومیگا تھری نامی پروٹین سے جو فائدہ پہنچتا، وہ نقصان
میں بدل جاتا ہے۔ پانی کی آلودگی کے سبب، طرح طرح کے زہریلے کیڑے مکوڑے اور
جراثیم پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں بہت طرح کے زہریلے مادّے اور orsenic
گھل کر پانی کو خطرناک حد تک زہریلا بنا دینے کی وجہ کر انسان اور حیوان کے،
ایسے آلودہ پانی کے داخلی اور خارجی استعمال سے جزام،کینسرنیز یرقان اور
حیضہ وغیرہ جیسے متعدد مہلک امراض سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک
اندازے کے مطابق ایسے زہریلے اور آلودہ پانی کے استعمال سے اوسطََ ہر سال
22 لاکھ انسانوں کی موت واقع ہوتی ہے ۔اس طرح کے پانی سے کھیتوں کی آبپاشی
سے کھیت سے پیدا ہونے والے غلّہ اور دیگر پھل و سبزیوں میں بھی خطرناک
جراثیم شامل ہوجاتے ہیں ، جو انسان اور حیوان دونوں کو بہت زیادہ نقصان
پہنچاتے ہیں ۔ جنگل بہت تیزی سے کٹ رہے ہیں ۔اس کے متعلق اقوام متحدہ کا
کہنا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں تقریباََ تیرہ ملین ہیکٹر رقبے پر پھیلے
جنگلات ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ 2050
ء تک جو اب بہت دور نہیں ہے ،تقریباََ 1.8 ارب انسانوں کو پانی کی قلت کا
سامنا کرنا ہوگا۔ جس کا کریہہ منظر ہمارے ملک میں آئے دن خاس طور پر موسم
گرما کے شروع ہوتے ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ گاؤں دیہات کے بڑی تعداد میں
لوگ کئی کئی میل دوری طئے کر اپنی ضروریات زندگی کے لئے پانی کسی طرح مہیّا
کرتے ہیں ۔ بعض گاؤں ہمارے ملک میں ایسے ہیں ،جہاں کے لڑکے ، لڑکیوں کی
شادی اس وجہ کر نہیں ہوتی کہ ان گاؤں میں پانی میسر نہیں ہے ۔
یہی وہ اسباب اور مسائل ہیں ،جن کے تدارک کے لئے اقوام متحدہ کی جنرل
کاونسل کی میٹنگ میں 1972 ء میں 5 جون سے لے کر 16 جون تک مسلسل فکر مندی
کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے عالمی سطح پر تدارک کے لئے میٹنگیں ہوتی
رہیں اور لاحۂ عمل تیار کیا جاتا رہا ۔ اسی میٹنگ کے دوران ہی UNEP m )
United Nation Environment Progra)کی تشکیل عمل میں آئی ۔ جس میں یہ فیصلہ
لیا گیا کہ ہر سال 5جون کو عالمی یوم ماحولیات کا انعقاد کیا جائے گا اور
عوام کو خوراک،پانی اور ہوا میں بڑھتی آلودگی کے باعث ہونے والے مضر اثرات
کے بارے میں بتایا جائے گا اور کس طرح ماحولیات کا تحفظ کیا جائے کہ انسان
اور حیوان کی زندگی محفوظ رہے ،اس کے ذہن سازی کی جائے گی۔ اس طرح اقوام
متحدہ نے اپنے اس اہم فیصلہ پر عمل درآمد کے لئے 5جون1974 ء سے ہی ہر سال
عالمی یوم ماحولیات کا انعقاد ،ہر سال ایک نئے تھیم کے ساتھ اس کا سلسلہ
شروع کر دیا ۔ 1976 ء میں ایک اجلاس میں وزیر اعظم وقت اندرا گاندھی نے بھی
شرکت کی تھی اور ماحولیات کے عدم توازن سے دنیا کے مختلف ممالک میں پڑنے
والے مضر اثرات پر انھون نے ایک شاندار تقریر بھی کی تھی ۔اندرا گاندھی کی
شرکت سے عاملی سطح پر ماحولیات کے تحفظ کے سلسلے میں انڈیا کا پہلا اور اہم
قدم مانا جاتا ہے ۔بھارت کے لئے یقینی طور پر یہ دن خاص اہمیت کا حامل ہے ۔
اس دن کی اہمیت کا اظہار ہمارے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ سال
کے 5 جون کو عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر اپنے ٹویٹر پر پیغام دیتے ہوئے
کہا تھا کہ فطرت کا تحفظ آج سے نہیں ازل سے ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کا
اہم حصہ رہا ہے ۔ماحولیات کے تحفظ کے تیئں ہندوستان پابند عہد ہے ۔موجودہ
نسل کو آنے والی نسل سے ایک ساف اور صحت مند زمین پر رہنے کا حق چھیننے کا
کوئی حق نہیں حاصل ہے ۔
اس تناظر میں انڈیا میں منعقد ہونے والے اس سال کے عالمی یوم ماحولیات کی
اہمیت کافی بڑھ جاتی ہے ۔اس سال کا جو تھیم رکھا گیا ہے ، وہ ہے ’پلاسٹک
آلودگی کو مات دو‘۔ یعنی اس سال حکومت، صنعت ،دیگر سماجی اور انفرادی طور
پر یہ زور دینا ہے کہ وہ انسانی صحت اور ماحولیات کے مد نظر انتہائی نقصان
دہ پلاسٹک کے بجائے پائیدار متبادل ذرائع کو تلاش کریں اور استعمال کریں ۔یہ
بھی بتادیں کہ 1976سے1984 تک ہمارا پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے تھیم پر کام
ہوتا رہا ۔ اب اس سال انڈیا کی میزبانی اور پلاسٹک آلودگی کو مات دینے کا
تھیم ، یہ دونون ہی ہمارے ملک کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں ۔ اس معاملے میں
ذرا ایک نظر لی جائے کہ کیا صورت حال ہے ۔ دنیا میں ایک اندازے کے مطابق
500 پلاسٹک کے تھیلے استعمال میں لائے جاتے ہین ، جو سب سے زیادہ آلودگی کی
وجہ بنتے ہیں ۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق دنیا کے سندروں میں ہر سال 8.8
ملین پلاسٹک پر مشتمل کچڑا ڈالا جاتا ہے ۔جس میں ساٹھ فی صد اس آلودگی کا
ذمہ دار انڈیا کو مانا گیا ہے ۔ انڈیا کی سب سے اہم اور مقدس ندی میں ہی ہر
سال 1.2 ارب ٹن پلاسٹک اور دیگر گندگی ڈالی جاتی ہے ۔ یہ بھی عجیب اتفاق
اور افسوسناک سروے سامنے آیا ہے کہ انڈیا ان چارممالک میں ہے جہاں سب سے
زیادہ پلاسٹک آلودگی ہے ۔ انڈیا کے قومی آلودگی کنٹرول بورڈ کی 2015 کی ایک
رپورٹ کے مطابق ملک کے ساٹھ بڑے شہروں میں روزانہ 26 ہزار ٹن پلاسٹک پر
مشتمل غلاظت پیدا ہوتا ہے ۔ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ یہ بھی ہے کہ اگر
پلاسٹک کی آلودگی کا یہی حال رہا تو 2025 ء تک سمندروں میں مچھلیوں کے
مقابلے پلاسٹک کی مقدار زیادہ ہوگی ۔
اب ایسے حالات مین انڈیا میں منعقد ہونے والے عالمی یوم ماحولیات کے موقع
پر پلاسٹک آلودگی کو مات دینے کے لئے ہمارا ملک کون سا ایسا نقصہ کیمیأ
سامنے لاتا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے سائنس دانوں اور
مندوبین کے سامنے اپنے ملک میں بڑھتی پلاسٹک آلودگی کی بابت کس طرح روشنی
ڈالتا ہے ،یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا ۔ اس لئے کہ اقوام متحدہ کے
انڈر سکریٹری جنرل ایرک سولہیم کے سامنے ہمارے وزیر صحت اور ماحولیات ہرش
وردھن نے بڑے پُر زور طریقے سے اپنے ملک کی صدیوں پرانی روایت اور قدروں کے
فلسفہ حیات کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بتا یا ہے کہ ہریالی اور صاف صفائی ہماری
جڑوں مین پیوست ہے ، اس لئے انڈیا اس میدان میں ایک مثال قائم کرے گا ۔
وزیر کی اس بات سے متاثر ہوتے ہوئے ہی ایرک سولہیم اپنے ایک بیان میں کہا
ہے کہ انڈیا عالمی یوم ماحولیات 2018 میں ہزاروں ممالک کے درمیان ایک
شاندار میزبان ثابت ہوگا ۔
اب ایسے حالات میں ہمارے ملک کی بیرون ممالک اور اقوام متحدہ کے سامنے کیا
اور کیسا امیج بنے گا ، یہ بہت ہی سنجیدہ سوال ہو سکتا ہے ۔ اس لئے کہ ہم
دیکھتے ہیں ہمارے وزیر اعلیٰ اور ہمارے وزیر اعظم کے عوامی پروگرام کے لئے
ہزاروں ایکڑ زمیں پر اگی فصل کو برباد کر دیا جاتا ہے ۔ ابھی ابھی ہمارے
وزیر اعظم کے ذریعہ نو کیلو میٹر ایک سڑک کی تعمیرکے بعد عوام کو سپرد کرنے
کے لئے جو روڈ شو ہوا اور اس کے بعد جس طرح روڈ کے کنارے بڑے پیمانے پر
پلاسٹک کے گلاس وغیرہ نظر آئے تھے ، وہ ہماری حکومت کی سنجیدگی کا احساس تو
کرا ہی دیتے ہیں ۔ آئے دن سوکھتی ندی اور تالابوں پر ناجائز قبضہ کا سلسلہ
بھی حکومت کے ناک کے نیچے جاری ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ بھگوان نمأ شری شری نے
اپنے مفاد میں گزشتہ برس حکومت وقت کی سرپرستی میں اپنے ایک مجمع کے لئے
دہلی کے جمنا ندی تک کو نہیں بخشا اور اس پر اس طرح سے رولر چلوا کر اتنا
سخت کرا دیا کہ اب اس میں کبھی پانی کی ایک بوند بھی نہیں آ پائیگی۔ پانی
اور ماحولیات کے ادارے اس کے خلاف چیختے رہے، جرمانے لگاتے رہے ، لیکن اس
بھگوان نمأ انسان نے اس بہت اہم انسانی مسئلہ پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ اس
طرح اب چند برسوں بعد اس جگہ بڑی بڑی عمارتوں اور مال کی تعمیر کا راستہ
ہموار ہو گیا ۔
ان حالات میں مجھے خوف ہے کہ ایسے سارے سوالات اگر اٹھے تو پھر ہماری
میزبان حکومت غیر ملکی مندوبین کے سامنے کیا جواب دے گی ۔
٭٭٭٭٭٭٭
|