میں ایک پھلدار درخت ہوں، چلو بچو، جوانوں اور بوڑھے
لوگوں میں آپ کواپناپیغام دیتا چلوں۔ شاید آپ سب میری بات سمجھ جائیں اور
میرے جیسے مزید درخت لگا کر درختوں کی تعداد میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہو
جائیں۔ اس سے نہ صرف ہوائی آلودگی کم ہوگی بلکہ ماحول صاف ستھرا اور سندر
ہو جائے گا۔ سانس لینا انتہائی آسان ، علاقے کی خوبصورتی میں اضافہ بھی ہو
گا۔
مجھے اﷲ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سے آ پ لوگوں کی خدمت کے لیے پیدا کیا ہے۔
میں اس پر اپنے رب کریم کے سامنے سجدہ ریز ہو کر شکر ادا کرتا رہتاہوں کہ
مجھے پیدا کرکے اشرف المخلوقات کے علاوہ جانداروں کی خدمت کرنے کا موقع
دیا۔میں کھیت کے ایک کھال پر پیدا ہوا ، اس لیے کسی کو میری خدمت کرنے کی
زیادہ ضرورت محسوس نہ ہوئی، کھال میں جب بھی پانی آتا میں خوب سیراب ہو کر
پی لیتا ، کھیت میں کھاد وغیرہ استعمال ہوتی وہ مجھے بھی مل جاتی اس طرح
توانا اور بڑھاہونے میں مفید ثابت ہوتی ۔ میں بھی آپ کی طرح جاندار ہوں بس
فرق یہ ہے کہ میں آ پ کی طرح چل پھر نہیں سکتا ، جھوٹ نہیں بول سکتا اور نہ
ہی کرپشن کر سکتا ہوں۔ میں کھال کے کنارے جب پیدا ہوا تو تنہائی محسوس کرنے
لگا ۔ زمیندار ایک دن کھیتوں میں ہل چلا رہا تھا کہ اس کا ایک چھوٹا بیٹا
عمر میرے قریب آیا اور مجھ سے پیا ر کرنے لگا ، چند باتیں کرنے کے بعد کہنے
لگا پودے میاں تم اتنے کھلے میدان میں اکیلے ہی ہو۔ چلو میں کل ایک اور
پودا آپ کے قریب لگا دیتا ہوں تاکہ تم دونوں خوشی خوشی رہنا۔ میں سمجھ گیا
کہ عمر کو ہماری اہمیت کا پتہ ہے۔ اگلے دن دوسرا پیدا میرے قریب لگا دیا
گیا میں بہت خو ش ہوا۔
میرے خوش ہونے کی وجہ صرف تنہائی ہی نہیں تھی بلکہ اب ہم دو ہو گئے تھے اس
طرح دیکھنے میں بھی بھلے لگنے لگے۔ سبز رنگ کی وجہ سے کھلے کھیتوں میں
نمایاں نظر آنے لگے۔ پھر دو ہونے کی وجہ سے آکسیجن کی مقدار بھی دو گنا ہو
گئی۔ ہم جیسے جیسے تناور ہو تے گئے ہماری جڑوں سے مزید پودے بننا شروع ہو
گئے۔ عمر نے ان پودوں کو بھی ذرا فاصلے پر لگانا شرو ع کر دیا اس طرح پورے
کھال پر پودے ہی پودے ہونے لگے اور ساتھ ساتھ ہم بڑھتے بھی گئے۔ اب کھال کا
نظارہ بہت خوبصورت ہو گیا۔ جس پھل سے اﷲ کریم نے ہمیں نوازا وہ بہت ہی
مزیدار اور سب کی پسند تھی۔ جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے لوگ ہمارے سائے میں
آکر بیٹھنا شروع ہو گئے۔ ان کی باتیں سن کر اور بھی دل خوش ہوتا۔ کہ کتنی
گھنی چھاؤں ہیں ، گاؤں میں بجلی نہ بھی ہو تو یہ درخت بجلی سے زیادہ ٹھنڈک
اورتازہ ہوا دیتے ہیں۔ اور پھر کھانے کو پھل بھی ۔ ہم سب درخت آپس میں ایک
دوسرے کی طرف دیکھ کر بہت خوش ہوتے ، کہتے چلو دھوپ کی خیر ہے، دھوپ ہم
برداشت کر لیتے ہیں لیکن ہم سے جو انسانوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے یہ تو کمال
ہے۔ بڑا پودا کہنے لگا پتہ آپ کو کسان کا بیٹا عمر کسی سے باتیں کر رہا
تھاکہ ایک بڑا درخت کم از کم 50ننھے منھے بچوں کے لیے آکسیجن پیدا کرتا ہے
اگر ان بچوں کو آکسیجن مصنوعی طریقہ سے دینی پڑے تو بہت زیادہ خرچ آتا ہے۔
پھر عمر نے کہا کہ ایک بڑا درخت کم از کم اپنے ارد گرد یا نیچے کا درجہ
حرارت 8ڈگری کم کرتا ہے جس سے جاندار کو ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے اسی لیے
توانسان یا جانور درخت کے سائے میں بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ
ہوا کہ اگر کسان سارے کھلے میدا ن میں مناسب ترتیب لگا کر اور پودے لگا دے
تو کتنا فائدہ ہوگا۔ اسی طرح گاؤں اور شہر میں رہنے والے لوگ اگر شجرکاری
مہم شروع کرکے درختوں کی تعداد میں اضافہ کریں تو گاؤ ں اور شہر کا ماحول
انتہائی پر کشش، آرام دہ اور پر سکون ہو جائے گا، گرمی کی شدت کم ہو جائے
گی۔ ہوائیں چلنا شروع ہو جائیں گی۔ انسان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو سانس لینے
میں بھی بہت سی آسانی ہو جائے گی۔
ایک دن کسان کا بیٹا میرے پاس آیا اور سوچنے لگا کہ یونیورسٹی کی فیس دینی
ہے گنے کی پیداوار سے کچھ حاصل نہیں ہو ا ساری رقم مل مالکان قبضہ میں لیے
بیٹھے ہیں ، ایسا نہ ہو کہ میرا سمیسٹر ہی ضائع ہو جائے۔ مجھے یہ سن کر بہت
افسوس ہوا ، میں نے خود اور دوسرے پودوں سے بھی کہا اپنا اپنا تیار شدہ پھل
نیچے گرا دو کیونکہ آج عمر کو پیسوں کی ضرورت ہے۔لہذا ہم سب نے عمر کے
سامنے جلدی سے سارا پھل گرا دیا وہ سمجھ گیا ، اس طرح سارا بازار میں فروخت
کرکے اپنی یونیورسٹی کی فیس اد ا کردی۔
پھر جب میں بڑا ہو جاتا ہوں میری شاخیں بڑی بڑی ہو جاتی ہیں تو سردیوں میں
کسان انہیں کاٹ لیتا ہے، ایندھن کے طور پر استعمال کرتا ہے، موٹی شاخوں یا
تنوں سے گھر کی چھت ، یا پھر فرنیچر بھی تیار کروا لیتا ہے۔ جب گرمیوں کا
چھٹیا ں ہوتی ہیں تو سکول کے بچے اپنا ہوم ورک بغل میں لیے ہمارے نیچے آکر
بیٹھ جاتے ہیں، ٹھنڈے ٹھنڈے ماحول میں ہوم ورک کرتے ہیں اور کچھ دیر کے لیے
سو بھی جاتے ہیں۔ بعض دفعہ مجھے کافی تکلیف بھی ہوتی ہے جب لوگ بلاوجہ میری
چھوٹی چھوٹی شاخوں کو یا پتوں کو توڑتے ہیں یا پھر مسل دیتے ہیں۔ اس طرح
میری پرورش میں رکاوٹ ڈالتے ہیں جو میرے لیے تو دکھ کی بات بھی ہے لیکن
انسان خود بھی اپنے لیے نقصان دہ عمل کرتا رہتا ہے۔ بعض اوقات کسان اپنی
بھیڑ بکریوں کے ساتھ کھیتوں میں آجاتا ہے ، وہ ہمارا خیال نہیں رکھتا ،
بھیڑ بکریاں ہمیں کھا جاتی ہیں حتیٰ کہ ہماری پھلدار ڈوڈیا بھی۔ جس سے ہمیں
کافی تکلیف ہوتی ہے ، اس طرح ہمارا پھل کم ہو جاتا ہے اور عمر جیسے اور کئی
بیٹوں کو یا ننھی جیسی بیٹی کے لیے پیسوں کی ضرورت کو پورا کرنا ناکافی ہو
جاتا ہے۔
ایک دن مجھے بہت دُکھ اس دن ہوا جب چند لوگ مختلف خطرنا ک قسم کے اوزار لے
کر کھال کے اوپر ہمارے پاس آ گئے، ہم سب واپس باتیں کرنے لگے کہ اب خیر
نہیں ، اب ہمارے ساتھ ظلم ہونے والا ہے۔ ننھے منھے بچے آکسیجن کے لیے ترس
جائیں، لوگ ہماری ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھتے ہیں ، گرمیوں کی چھٹیوں میں سکول
کے بچے ہوم ورک کرتے ہیں۔ لوگ جب ہمار ے پہنچے تو کہنے لگے کہ درخت تو
بھاری اور تناور ہیں کافی مہنگے فروخت ہو سکتے ہیں۔ فروخت کا لفظ سن کر ہم
سب درخت پریشان ہو گئے۔ ایک کہنے لگا ابھی کافی گرمی ہے ٹھہر کر ان درختوں
کو کاٹتے ہیں اتنی دیر تک ان کے سائے میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم سب درخت رونے
لگے کہ یہ کیسے انسان ہیں کاٹنے بھی آئے ہیں اور ہمارے سائے کے نیچے ٹھنڈی
چھاؤں میں بیٹھنا پسند بھی کرتے ہیں۔
’’ بس اے اشرف المخلوقات جب ہم تناور ہو جائیں تم لوگ کاٹنے سے ایک دو سال
پہلے ہماری جگہ چھوٹے پودوں کو کاشت کردیں تاکہ ہم پھر سے بڑے ہو کر اپنے
فرائض خوش اسلوبی سے سر انجام دینا شروع کر دیں‘‘۔
میں آپ سب سے التجا کرتا ہوں کہ میرا خیال رکھیں ، میرے خاندان یا کسی
دوسرے خاندان کے پودے زیادہ سے زیادہ کاشت کریں تاکہ ہم سب مل کر انسانی
ماحول کو صاف ستھرا بنا سکیں، فضائی آلوگی کم کریں۔ راہگیروں کو اچھا اور
ٹھنڈا سایہ مہیا کر سکیں۔ لگانے والے کو صاف ماحول کے علاوہ مالی فائدہ بھی
پہنچا سکیں۔ اگر بازار سے پھل دار پودے مہنگے ملتے ہیں تو کو ئی سایہ دار
درخت ہی لگانا شروع کریں۔ پھل کے علاوہ باقی فوائد تو حاصل کریں۔ مزے بات
یہ ہے کہ پودے لگانا صدقہ جاریہ بھی ہے۔ پودوں کی حفاظت کر یں اور بچوں کو
پودے لگانے کی مہم میں شامل کریں تاکہ ان کو بھی میری اہمیت کا پتہ چلے اور
وہ بھی اپنے حصے کا پودا لگائے، بلکہ آپ سب مل کر اپنے اپنے نام کا ایک ایک
پودا لگائیں اور بڑا ہو نے تک اپنے اپنے پودے کی حفاظت بھی کریں تاکہ کتنی
جلدی ہم آپ کو سایہ ، پھل اور صاف ماحول فراہم کریں گے۔ امید ہے کہ آپ کو
میری یہ کہانی ضرور پسند آئی ہو گی، اسے دوسروں سے بھی شیئر کریں تاکہ میری
اہمیت کا علم ہو اور وہ بھی بڑھ چڑھ کر پودے لگانے میں حصہ لیں۔ اﷲ کریم سے
سجدہ ریز ہو کر دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ آپ سب کو زیادہ سے زیادہ پودے
لگانے اور ان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ ذرا سوچیں اگر زیادہ
تعداد میں پودے لگائے جائیں ہم سب کو کتنا فائدہ ہوگا؟ آکسیجن پیدا ہو گی،
زمین کٹاؤسے محفوظ رہے گی اور پانی بھی صاف ستھر ا ملے گا۔
|