اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کا مختلف امرجہ کی
مٹی اور پانی سے پتلا تخلیق فرمایا اور اسے جنت کے دروازے پر رکھ دیا۔
مخلوق فلکی نے اس طرح کی مخلوق پہلے کبھی دیکھی نہ تھی اس لیے اس کا حیران
ہونا فطری سی بات تھی۔ جب یہ ہر حوالہ سے مکمل ہو گیا تو اس میں روح پھونکی
گئی۔ اس سے اس نے متحرک انسان کی صورت اختیار کر لی۔ پھر ملائک وغیرہ کو
اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ اس سجدہ کا مطلب یہ ہرگز ہرگز نہ تھا کہ وہ آج
بعد ان کا معبود ہو گا۔ یہ درحقیقت اس نئی تخلیق کی ان سے برتری اور فضلیت
کا اعلان تھا۔
اس سے پہلے عزائیل کی برتری اور علمبرداری تھی اس لیے اسے یہ ناگوار گزرا۔
یہ کہنا کہ اس نے گمان کیا کہ اس نئی مخلوق کو زحل کی ساعت میں تخلیق کیا
گیا ہے اس لیے یہ فساد پھیلائے گا‘ نہ ماننے کا بہانہ تھا۔ حضرت آدم علیہ
السلام کو مشتری کی بہترین ساعت میں تخلیق کیا گیا تھا۔ دوسرا جو بھی سہی‘
مالک نے حکم دیا اسے ماننا اور دل و جان سے تسلیم کرنا‘ فرمابرداری کا
تقاضا تھا۔ اس کے عالم فاضل ہونے میں کوئی شبہ نہیں‘ کیا وہ اللہ تعالی کی
ذات گرامی سے زیادہ علیم تھا۔ اللہ تو اس کا بھی خالق تھا لہذا چوں چراں کا
جواز ہی نہیں بنتا تھا۔
اللہ کی حاکمیت عطائی نہیں ہے‘ جب کہ اس کی حاکمیت اللہ کی عطا کی ہوئی
تھی۔ سجدہ نہ کرنے کے نتیجہ میں اسے اور اس کے جھولی چکوں کو رجمی کر دیا
گیا۔ شیطان کو انسان کا کھلا دشمن قرار دے دیا گیا۔
اللہ نے حضرت آدم اور ان کی بیوی حوا کو جنت میں منتقل کر دیا۔
جنت کہاں ہے؟
زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ جنت ساتویں آسمان کے اوپر ہے. قرآن مجید میں آیا
ہے:
عِنۡدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی ﴿۱۴﴾عِنۡدَہَا جَنَّۃُ الْمَاۡوٰی ﴿ؕ۱۵﴾
(پ۲۷،النجم:۱۴،۱۵)
یعنی سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ہی جنت الماویٰ ہے۔
اور ایک حدیث میں یہ آیا ہے کہ جنت کی چھت عرش پر ہے۔
شرح المقاصد،المبحث الخامس،الجنۃ والنار...الخ،ج۳،ص۳۶۱
(حاشیہ شرح عقائد نسفیہ،ص۸۰)
جنت ساتوں آسمانوں کے اوپر ساتوں آسمانوں سے جدا ہے، کیوں کہ ساتوں آسمان
قیامت کے وقت فنا اور ختم ہونے والے ہیں، جب کہ جنت کو فنا نہیں ہے.
انہیں ایک درخت کی طرف نہ جانے کا حکم دیا۔ غلطی اور گستاخی کا احساس ہونے
کی بجائے وہ انتقام پر اتر آیا۔ شیطان نے انہیں ورغلایا اور اپنے مکر و
فریب کا جال بچھا کر اس درخت کا پھل کھلا ہی دیا۔ نتیجہءکار انہیں زمین پر
منتقل کر دیا گیا۔ اپنی اصل میں حضرت آدم علیہ السلام کو خلافت ارضی کے لیے
ہی تخلیق کیا گیا تھا۔ دو پیمانے سامنے آئے شیطان اپنی ہٹ پر رہا جب کہ
حضرت آدم علیہ السلام توبہ کی طرف آئے۔ شیطان سردار تھا سرداری چھن جانے پر
انتقامی ہوا۔ آدم خلیفہ مقرر ہوئے غلطی پر پچھتائے، نادم ہوئے اور قلبی
معافی کے طلب گار ہوئے۔
آدم اور اس کی نسل کا اصل گھر جنت ہی ہے جسے حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی
آنکھوں سے ملاحظہ کیا اور اس میں رہائش بھی کی۔ واپس طےشدہ اپنی اقامت گاہ
کی طرف لوٹ جائے گا اور جو شیطان کے کہے میں آئے گا اور توبہ کے دروازے پر
دستک نہیں دے گا جہنم کا ایندھن بنے گا۔
باور رہنا چاہیے آدم جب تک جنت کے اقامتی رہے ان کے ہاں اولاد پیدا نہیں
ہوئی۔ زمین پر آئے تو اولاد پیدا ہوئی انہوں نے جنت دیکھی نہیں لیکن حضرت
آدم علیہ السلام چوں کہ جنت کے اقامتی رہے اس لیے ان کے جینز میں آگہی کا
یہ عنصر نسل در نسل منتقل ہوتا رہا ہے۔ اسی لیے نسل آدم ویسی ہی رہائش
وغیرہ کا اہتمام کرتی آئی ہے۔
جنت سے متعلق جو کہا جاتا ہے اس کا مختصر مختصر ناک نقشہ ملاحظہ فرمائیں
اور پھر غور کریں کہ کہاں تک نسل آدم اسے اختیار کرتی آئی ہے۔
جنت کی کنکریاں؟
موتی اور یاقوت کی ہوں گی۔
جنت کی اینٹیں؟
ایک اینٹ سونے کی اور دوسری چاندی کی ہو گی۔
جنت کا درخت ؟
ایسا کوئی درخت نہ ہو گا جس کی ایک شاخ سونے اور دوسری چاندی کی نہ ہو،
لکڑی کی ٹہنی نہیں ہو گی۔
جنت کے پھل فروٹ ؟
گھڑوں کے برابر جو جھاگ کی طرح نرم اور شہد کی طرح میٹھے ہوں گے۔
جنت کے پتے ؟
باریک کپڑوں سے بھی زیادہ خوبصورت ہوں گے۔
جنت کی نہریں ؟
دودھ کی نہریں ہوں گی جس کا ذائقہ ذرا نہ بدلا ہو گا ، اور شراب کی نہریں
جو پینے والوں کیلئے بہت لذیذ ہو گی اور شہد کی نہریں جو بالکل صاف ہو گی۔
جنتیوں کے کھانے ؟
دل پسند میوے، پھل فروٹ، اور پرندوں کا گوشت اتنی مقدار میں جتنا ان کا جی
چاہے۔
جنتیوں کے مشروبات ؟
ان کے مشروبات تسنیم، سونٹھ اور کافور سے بنے ہوں گے۔
جنتیوں کے کھانے کے برتن؟
برتن سونے اور چاندی کے ہوں گے۔پیالہ، گلاس اور آبخورے شیشے کے بنے ہوں گے۔
جنت کے گیٹ ؟
جنت کے ایک گیٹ کے دو کواڑوں کے درمیان چالیس سال کی مسافت کا فاصلہ ہو گا
اور یہ یقینی بات ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ داخل ہونے والوں کی بھیڑ کے
سبب اتنا بڑا دروازہ بھی تنگ پڑ جائے گا۔
جنت کے درختوں کی ہوا کی سریلی آواز؟
سننے والے جھوم اٹھیں گے۔
درختوں کے سائے ؟
صرف ایک درخت کا سایہ اتنا لمبا ہو گا کہ بہترین تیز رفتار ہلکے پھلکے
گھوڑے پر سوار ہو کر گزرنے والا سو برس تک چلتا رہے گا تو بھی اس کے سایہ
کو طے نہ کر سکے گا۔
جنت کے خیمے اور قبے؟
وہاں کے خیموں میں ایک خیمہ موتی سے بنا ہو گا جو اندر سے خول کی طرح ہو گا
اس کا طول و عرض ساٹھ میل کا ہو گا۔
جنت کے بالا خانے ؟
اونچے اونچے مکانات کی طرح بالا خانے ہوں گے جن کے اوپر بھی اور دوسرے بالا
خانے بنے ہوں گے اور پھر ان کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔
جنت کے بالا خانوں کی اونچائی؟
ان ستاروں کی طرح دکھائی دیں گے جو ابھی طلوع یا غروب ہو رہے ہوں ،جہاں تک
نگاہ کا پہنچنا بھی مشکل ہو۔
جنتیوں کا لباس ؟
ریشم اور سونے کا بنا ہو گا۔
جنت کے بستر ؟
ان بستروں (گدے و قالین) کے استر موٹے ریشم کے ہوں گے جو برابر سے سجے ہوں
گے۔
اس کے صوفے اور تخت ؟
ایسے مزین تخت جن کو سونے سے خوب آراستہ کیا گیا ہو گا، جن میں کہیں سے بھی
کوئی شگاف نہ ہو گا۔
جنتیوں کی عمر؟
وہ لوگ تینتیس (۳۳) سال کے نوجوان ہوں گے، ابوالبشر حضرت آدم ؑ کی صورت پر
ہوں گے۔
ان کی شکل ؟
چاند کے مانند ہو گی۔
ان کو سنائی جانے والی آواز؟
ان کی بیویوں یعنی بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں کے گانے ہوں گے۔ اس سے بڑھ کر
ملائکہ اور ابنیاء کی آواز ہو گی۔ اور پھر ان سے اچھا اور دل کش رب
العٰلمین کا خطاب ہو گا۔
ان کی سواریاں جن سے وہ سفر کریں گے ؟
اللہ تعالیٰ نے اپنی چاہت کے مطابق جنتیوں کے لئے بہت شان والی سواریاں
بنائی ہیں، وہ انہیں لے کر جنت میں چلیں گی، پھریں گی جدھر ان کا جی چاہے
گا۔
ان کے زیور ؟
ان کو سونے اور قیمتی موتیوں کا کنگن اور سروں پر تاج پہنایا جائے گا۔
ان کے نوکر چاکر؟
ان کے لئے ہمیشہ ہمیش رہنے والے بچے اور نوکر چاکر ہوں گے۔ ایسے صاف و شفاف
گویا کہ محفوظ موتی ہوں۔١
انسان کا جسم چوں کہ مٹی پانی سے تخلیق پایا ہے اس لیے جسمانی عوارض کی
دوری کے لیے زمینی اشیاء کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ادویات وغیرہ زمینی اشیاء
سے تیار کی جاتی ہیں۔ روح زمینی چیز نہیں ہے اس لیے اس کے عوارض کا معالجہ
اوپر سے نازل ہوتا ہے۔ اس کی کئی صورتیں رہی ہیں:
وحی ان سب میں افضل صورت ہے
الہام
کشف
خواب ۔۔۔ مومن کا خواب نبوت کا چالیسواں حصہ ہے۔۔۔۔
جسم کے ہر دو حصوں کے معالجے کا ہمیشہ سے اہتمام رہا ہے۔ کوئی عارضہ ناقابل
علاج نہیں رہا۔ بعض جسمانی عوارض وقتی طور پر ناقابل علاج رہے ہیں لیکن
کھوج و تلاش کے نتیجہ میں معالجہ دریافت کر ہی لیا جاتا رہا ہے۔ یہ ہی صورت
روحانی علالت کے معالجے کی ہے۔ ہر روحانی بیماری کا معالجہ ہر چہار صورت
میں ہمیشہ سے دستیاب ہوتا آیا ہے۔
ایک مخصوص اور طےشدہ مدت کے بعد جب ابن آدم کی موت واقع ہو جاتی ہے تو مٹی
پانی سے ترکیب و تشکیل پایا اور اس میں رچا بسا پتلا زمین پر رہ جاتا ہے
اور اسے زیر زمین کر دیا جاتا ہے۔ روح اٹھ جاتی ہے۔ اب جب قیامت کے روز اسے
اٹھایا جائے گا تو اسی جسم کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اسی جسم کے ساتھ درست
سے فریضہ انجام دینے کی صورت میں جنت جب کہ اس سے دوری یا انحراف کی صورت
میں جہنم بھیج دیا جائے گا۔ جنت میں اسی جسم کے ساتھ جائے گا کیوں کہ اسی
جسم کےساتھ جنت میں ٹھہرایا گیا تھا۔
اگر دیکھا جائے کہ آدمی جسمانی حوالہ سے زمینی ہے لیکن اس کی روح زمینی
نہیں ہے۔ یہ بھی کہ ایک عرصہ اس کا باپ جنت میں رہائش پذیر رہا لہذا اس
رہائش کے سبب اس میں وہاں کی بوباس کا رچے بسے ہونا غیر فطری بات نہیں ہے۔
سائنس دانوں کا یہ کہنا کہ انسان زمینی مخلوق نہیں ہے بل کہ کسی دوسرے خطے
سے لا کر یہاں آباد کر دیے جانا ایسی نئی اور حیرت ناک بات نہیں ہے۔ ابن
آدم کا بیک وقت زمین اور آسمانوں سے بالاتر مقام سے رشتہ موجود ہے تاہم
حقیقی مقصد سے وابسطہ لوگ اسی جسم کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے۔ شیطان اور
اس کے مانتوں کا رشتہ بھی دو جگہ سے ہے۔ زمین اور زمین سے باہر یعنی جہنم۔
جنت کی طرح جہنم زمین پر موجود نہیں ہے۔ |