میرے والد محترم جب ٹی وی پر خبریں دیکھنے بیٹھتے تو میں
بہت چیڑ سی جاتی کہ کیا مصیبت ہے ہر وقت خبریں ،میں ان سے اکثر پوچھتی کہ
بابا ٓپ اکتاتے بھی نہیں ؟ میری امی تو کہتی بیٹا اگلا الیکشن آپ کے ابا
حضور نے ہی لڑنا ہے۔اور ہم سب خوب ہنستے میں نے یا میری فیملی کے کسی بھی
فرد نے نہیں سوچا تھا کہ میں کبھی کوئی simple لفظ پوئٹری کا بھی لکھوں گی
کون جانتا تھا کہ بہادر شاہ ظفر کی یہ غزل مجھے اپنا اتنا اسیر کر لے گی
لگتا نہیں ہے دل مِرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائدار میں
بُلبُل کو باغباں سے نہ صَیَّاد سے گلہ
قسمت میں قید لکّھی تھی فصلِ بہار میں
کہہ دو اِن حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں
اس نظم نے میری دلچسپی کو شاعری کی طرف بڑھا دیا پھر افسانے لکھے اس طرح
میرے اندر ولولہ پیدا ہوا اپنے ملک کے لیے لکھنے کا اپنی عوام کی آواز بننے
کامیں نے سوشل میڈیا پہ میم عمارہ کنول کو فولو کیا ان کے کالم شاعری پڑھی
اور ان کو دیکھ اور بھی میرا ارادہ پختہ ہو گیا اور پھر میر ا رجحان کالم
نویسی کی طرف بھی بڑھتا گیا۔اس دوران سوشل میڈیا کے ذریعے میرا تعارف
لکھاریوں کی ایک اتنظیم آل پاکستان رائٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن سے ہوا ،جو
کافی متحرک نظر ٓئی ، میں نے اس تنظیم کا رجسٹر یشن فارم فل کر کے بھیج
دیااور اس کے بعد میں باقاعدہ آل پاکستان رئٹرز ایسوسی ایشن کی ممبر بن گئی
،کچھ دن پہلے مجھے ایسوسی ایشن کی طرف سے افطار ڈنر کی تقریب کا دعوت نامہ
ملا ،جو کہ ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلی زبیر احمد انصاری نے اپنے خوبصورت
فام ہاوس پر صحافیوں اور کالم نگاروں کے لیے رکھی تھی ،وہاں پہنچتے ہی سب
سے پہلے میری ملاقات کالم نگار وسنئیر نائب صدر آل پاکستان رائٹرز ایسوسی
ایشن ایم ایم علی اور نائب صدر حافظ محمد زاہد سے ہوئی جنہوں نے مجھے ویلکم
کیا ، اس پہلے میری ان سے پرسنلی بات چیت نہیں ہوئی تھی لیکن انکی عاجزی نے
مجھے بے حد متاثر کیا۔ اس کے بعد جس ہال میں تمام مہمان بیٹھے ہوئے تھے
وہاں میری ملاقات,,پُرجوش پر اعتماد خاتون جو کے میری بہت فیوریٹ ہیں فاطمہ
شیروانی سے ہوئی انھوں نے مجھے کھڑے ہو کر گلے لگایا میری بے حد حوصلہ
افزائی کی ان کے چہرے سے عیاں تھا کہ انھیں بھی مجھ سے مل کے بہت خوشی ہوئی
ہے وہ مجھ سے ہلکی پھلکی گفتگو بھی کر رہی تھیں انکا لہجہ گلابوں جیسا ہے
بولتی ہیں تو کانوں میں رس گھلتا جاتا ہے میں نے جتنا میم کو سمجھا تھا وہ
اس سے کئی گنا زیادہ خوبصورت خوب سیرت شخصیت کی مالک ہیں انتہاء متاثر کن
سراپا ہیں۔
محترم زبیر انصاری کے لیے تو لفظ ہی کم پڑ جائیں وہ اتنے قابلِ احترام شخص
ہیں ان کی شخصیت کسی تعریفی کلمات کی محتاج نہیں نیک صفت انسان ہیں انتہائی
مخلص اور درویش صفت انسان ہیں میر ے پاس الفاظ ہی نہیں کہ میں ان کے بارے
میں کچھ لکھ سکوں، سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا لکھوں ؟ ابھی تکآنکھیں چمک رہی
ہیں ان کی سادگی دیکھ کر۔ ہم ہال سے صحن میں بنے سبزہ زار پلاٹ میں آئے
جہاں ہر چھوٹے بڑے فرد کے لیے افطاری کا اہتمام کیا گیا تھا باہر کا موسم
بہت خوش گوار تھا اس دوران میری ملاقات صحافت کی کئی نامور شخصیت سے ہوئی،
یہ میرا پرفیشنل فرسٹ ایونٹ تھا میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی میں آتے
ہوئے بہت نروس تھی کہ وہاں سب میرے ساتھ کیسے پیش آئیں گے؟ بہت ہی بے صبری
سے انتظار کر رہی تھی میں اس مخلص خاتون کا جن کو پڑھ کے فولو کر کے میں
اپوا کا حصہ بنی وہ تھیں مس عمارہ کنول، میں بار بار فاطمہ آپی سے انکا
پوچھتی اور وہ بہت ہی ادب سے مسکرا کے کہتیں کہ بس آتی ہی ہوں گی ،بلآخر وہ
کچھ تاخیر پہنچ گئیں اور بہت پرجوش مسکراہٹ لیے سب سے ملی اور جب مجھ سے
ملیں تو ان سے ملاقات کہ بعد تو اجنبیت کا نام ہی نہیں رہا مانو وہ مجھے
بہت پہلے سے جانتی ہوں ، انہوں نے قدم با قدم مجھے اپنے ساتھ رکھا تمام
شخصیتوں سے تعارف بھی تقریباً انہوں نے کروایا بہت ہی با ہمت اور خیال
رکھنے والی خاتون ہیں ۔کھانے پینے کے انتظامات میں کوئی کمی نہیں رکھی گئی
تھی زبیر انصاری صاحب نے مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی واپس آتے
ہوئے میری ملاقات مصنف طاہرتبسم درانی سے ہوئی انہوں نے بھی میری بہت حوصلہ
آفزائی کی ،غرض یہ کہ اپووا کا ہر عہدیدار اپنی مثال آپ ہے میں راستے میں
آتے ہوئے بہت نروس تھی گھبراہٹ نے گھیر رکھا تھا مجھے جب میں پیپرز لکھنے
بیٹھتی تھی تو میں ایک دعا پڑھتی ہوتی تھی میری پریشانی کا یہ عالم تھا کہ
میں وہ دعا تک نہیں پڑھ پا رہی تھی، مجھے اس ایوینٹ میں جانے کے لئے اور
اپووا کا حصہ بننے کے لیے سب سے زیادہ جس نے encourage کیا وہ میرے بھا ئی
آفتاب لاشاری ہیں میرے خوابوں کی طرف میرے اس پہلے قدم میں بہت ساتھ دیا ہے
۔میں ہمیشہ انکی شکرگزار رہوں گی اﷲ ان کو ہزاروں خوشیوں سے نوازے میں
اپووا کی بہت شکرگزار ہوں میرے پاس الفاظ کم پڑ گئے ہیں کہ میں اس گولڈ
مومنٹ اور گولڈن لوگوں کو بیان کرسکوں۔شکریہ شکریہ شکریہ اپووا.
مطلب پرستی اور خود نمائی کے اس دور میں اپووا ہر اس لکھاری کا روشن مستقبل
لے کے موجود ہے جن کو لگتا ہے انکے خواب بس خواب ہی رہ جائیں گے ،اپووا کا
سلوگن ہے ،اپووا آپ کی تحریر کی ضامن اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ
تنظیم صیح معنوں میں لکھاریوں کی تحریر کی ضامن ہے۔ |