رمضان المبارک بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ

بھکاریوں کی فوج شہروں میں عام دنوں میں بھی کثیر تعدا د میں موجود ہوتی ہے لیکن بالخصوص رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہوتے ہی بھکاری ٹولیوں کی صورت میں شہروں میں آجاتے ہیں شہر کی اہم جہگوں پر ڈیرے جما لیتے ہیں اور انتہائی مختلف اندازٹکنیک میں لوگوں کو توجہ کو اپنی طرف مرکوز کرنے اور ان کی جیبوں سے پیسے نکالنے کے لیے مختلف ہربے استعمال کرتے ہیں اس وقت ایک انداز ے کے مطابق روات مانکیالہ ساگری شاہ باغ چوکپنڈوڑی اور کلر سیداں میں سینکڑوں کی تعداد میں بھکاری موجود ہیں جن میں بزرگ عورتیں بچے بچیاں اور نوجوان لڑکیاں شامل ہیں حتیٰ کہ چھوٹے معصوم بچے بھی بھیک مانگتے ہو ئے نظر آتے ہیں ان کی آوازوں پر اگر تھوڑی سی توجہ کی جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان معصوں کو سکھانے کے لیے کوئی با قائدہ گروہ موجود ہے گدا گری ایک مکمل پیشہ بن چکی ہے اور ان کی سر پرستی مقامی انتظامیہ کے کچھ اہلکار بھی کرتے محسوس ہوتے ہیں چند دن پہلے تھانہ کلرسیداں کے چند اہلکار کچھ بھکاریوں کو پکڑتے دیکھے گئے لیکن دوسرے دن وہی بھکاری پھر کلرسیداں بازار میں موجود پائے گئے اور وہ بھیک بھی دوبارہ مانگ رہے تھے میں نے ایک بھکاری جو ہر روز بازر میں مانگتا نظر آتا ہے سے پوچھا کہ کہ کل تم کو پولیس والے پکڑ کر لئے گئے تھے تو تم کیسے واپس آ گئے ہو اس نے کہا کہ پولیس والوں نے مجھے تھوڑی دیر بعد چھوڑ دیا تھااگر ایسا ہی ایکشن کرنا ہوتا ہے تو ان کو پکڑنے کی کیا ضرورت ہے ان بھکاریوں کو صبح سویرے گاڑیوں پر بٹھاکر چوکوں میں اتارا جاتا ہے اور شام کو واپس بھی لایا جاتا ہے ہمارے معاشرے کا یہ حال ہو چکا ہے کہ نوجوان لڑکیوں کو پیشے کی صورت میں اس کام پر لگادیاگیاہے آپ کسی بھی سٹاپ پر کھڑے ہوں ضرور کوئی نہ کوئی عورت آپ کے پاس مانگنے کے لیے آئے گی ان عورتوں کی وجہ سے بعض اوقات شریف لوگوں کو سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ عورتیں جسمانی طور پر بالکل صیح سلامت ہوتی ہیں ان کو ٹریننگ دے کر اتنا ڈھیٹ کر دیا جاتا ہے کہ بار بار کو سنے کے باوجود ان سے جان چھڑا نا مشکل ہو جاتا ہے یہ بھکاری عورتیں شریف گھرانوں خواتین کے لیے بھی باعث شرمندگی بن چکی ہیں یہ بھکاری عورتیں مسافر خواتین سے لپٹ کربھیک مانگتی ہیں خواتین یہ سمجھ کر ان کو پیسے دے دیتی ہیں کہ خدا کی راہ میں دیتے ہیں اگر شریف گھریلو عورتیں ٹال مٹول سے کام لیں تو بھکاری عورتیں ان کو ذلیل کر کے رکھ دیتی ہیں قارئین کرام آپ نے اکثر مشاہدہ کیا ہو گا کہ شہروں میں سڑکوں پر خاص قسم کی عورتیں کھڑی ہوتی ہیں اور وہ صرف اس تاک میں لگی ہوئی ہوتی ہیں کہ کوئی شریف آدمی نظر آئے تو اُس کو سائیڈپر کر لیتی ہیں اور کوئی من گھڑت کہانی سناتی ہیں جس کی وجہ سے آپ نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں اسی طرح یہ عورتیں ہزاروں کے حساب سے دیہاڑی لگالیتی ہیں ان کو اگر کچھ دینے سے انکار کر دیا جائے تو یہ تھوڑی دورجاکر گالیاں تک دینے لگ جاتی ہیں کسی مزار پر جائیں تو سب سے پہلے آپ کی ملاقا ت بھکاریوں سے ہی ہو گی مسجد میں جائیں تو بھی گیٹ پر پہلی ملاقا ت ان لوگوں سے ہی ہوگی جو نہی کسی گاڑی پر سوار ہوں تو گاڑی کی دروازیوں سے تین چار بھکاری گھیر لیتے ہیں جو اﷲ اور رسول کے واسطے دے کر آپ کو مجبور کر دیتے ہیں یا بد عائیں اس قسم کی دینے لگ جاتے ہیں آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں میں آپ منہ چھپائے پھریں گئے بعض بھکاری جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں حکومت کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں بنائے گئے قوانین پر عمل کروائے اور ہر مقامی انتظامیہ کو ہدایات جاری کرے کہ وہ اس گھناؤنے کاروبار کو رو کے اور ان لوگوں کو پکڑ دھکڑ کرے جو ان بھکاریوں کو استعمال کر رہے ہیں ان سے یہ کام لے رہے ہیں جو معصوم بچوں کو سارا سارا دن دھوپ میں کھڑا کیئے رکھتے ہیں اور شام کو ان معصوموں کو چند سکے دے کر سارا مال خود لے جاتے ہیں چونکہ رمضان المبارک بھی آخری عشرے میں داخل ہو چکا ہے اور بھکاریوں کی تعداد میں بھی مزید اور اضافہ ہو چکا ہے حکومت پاکستان کو اس سلسلے میں سخت اقدامات اُٹھانے چاہیں تا کہ بھکاریوں سے عوام کی جان چھڑائی جاسکے اور ان کے پیچھے کام کرنے والے نیٹ ورک کو پکڑا جائے لیکن ان سے جان چھڑانے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ان کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جائے بلکہ کچھ ایسا ادارے قائم کیے جانے چاہیے جن میں بھکاریوں کے لیے ان کی خواہش کے مطابق کوئی ہنر یا اس قسم کے دیگر کام ان کو سکھائے جائیں تاکہ وہ معاشرے کا مفید شہری بن سکیں کیونکہ یہ بات تو بلکل واضع ہے کہ کوئی بھی شخص جو بھی کام کرتا ہے اس کا مقصد صرف اور صرف اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنا ہوتا ہے جبکہ بھکاری بھی اسی مقصدکو لیکر ایسا کرنے پر مجبور ہیں اور ڈرانا دھمکانا یا پھر پولیس کے حوالے کرنا بھی مناسب بات نہیں ہے اس ضمن میں باقاعدہ پلان ترتیب دینا چاہیے تاکہ ان لوگوں کو بھیک مانگنے کے بجائے ان کو ہنر سکھائے جائیں تاکہ معاشرے کے دیگر افراد کی طرح یہ لو گ بھی اپنے بال بچوں کا پیٹ باآسانی پال سکیں اور معاشرے میں باعزت شہری کی طرح اپنی زندگی گزار سکیں۔

Muhammad Ashfaq
About the Author: Muhammad Ashfaq Read More Articles by Muhammad Ashfaq: 244 Articles with 150882 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.