یہ توجنگ کا ایک پینترہ ہوا کرتا تھا کہ دشمن کی توجہ
بانٹ دی جاتی یا اصل سے ہٹادی جاتی اور پھر حملہ کرکے فتح حاصل کرلی جاتی
مگر آہستہ آہستہ یہ پینترہ جنگ کے میدانوں سے مہذب معاشروں میں در آیا شروع
شروع میں اس کو معیوب سمجھا گیا مگر آج کل یہ پینترہ مختلف انداز میں نا
صرف رائج الوقت ہے بلکہ دبے لفظوں میں سیاست کا حسن سمجھا جانے لگا ہے ،حقائق
کو مسخ کرنا ، اعدادو شمار کی جادو گری سے غریب عوام کی آنکھوں میں بھیانک
تعبیر کے حامل خوشنما خواب سجانا،لوگوں کی محرومیوں کو اپنی زندگی کا ماٹو
بنا کر اپنی مرضی سے راج کرنا وغیرہ اسی کے ذیلی شعبے ہیں۔
بدقسمتی سے ملک عزیز پاکستان کا صاحب اقتدار طبقہ یا ارباب حل وعقد دانستہ
نا دانستہ طور پر کئی دھائیوں سے اسی پر عمل پیرا ہیں ،مجھے ایسا کیوں
محسوس ہوتا ہے کیونکہ بحیثیت ایک عام پاکستانی شہری کے میں اس نتیجے پر
پہنچا ہوں کہ ہمارے ملک کی ذمام اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں رہی ہے جو
عوامی مسائل کا نعرہ لگا کر تو اقتدا ر کے سنگاسن پر براجمان ہوتے گئے مگر
ان کے پاس عوامی مسائل کے حل کے لئے کوئی آسان اور جامع پلان نہیں تھا ہر
صاحب اقتدار اوراس کے حواریوں نے اپنی ناقص پالیسیوں کو چھپانے کے لئے اور
عوام کی توجہ ان بنیادی مسائل سے ہٹانے کے لئے مختلف کل وقتی و جز وقتی
بحران کھڑے کئے ،اپنی نااہلی کو چھپانے کے لئے الزامات کی سیاست شروع کی
اوراس کے ساتھ ساتھ اپنے من پسند افراد کو پاکستانی سسٹم کا حصہ بنا دیا
تاکہ اپنی منشاکے نتائج حاصل کئے جائیں یہ سلسلہ ہزاروں بار اتنی تواتر سے
چلا یاگیا اور چلا آرہاہے کہ بنیادی عوامی مسائل اور نااہل حکمرانوں کے
پیدا کردہ مسائل آپس میں گڈ مڈ ہوگئے ہیں اور ہم ہر آنے والے دن کے ساتھ
مزیداس دلدل میں پھنستے چلے جارہے ہیں۔
اس کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ غریب غریب سے غریب تر ہوتا چلا جارہا ہے اور
امیر امیر سے امیر تر ، بد قسمتی سے ملک عزیز پاکستان میں 70 فیصد لوگ غربت
کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ اسی غریب کا
ہرپیدا ہونے والا بچہ لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض ہوچکا ہے (وہ بچہ جس
کے والدین نے ڈیڑھ لاکھ روپے کبھی اکھٹے دیکھے تک نہیں) توآپ ہی بتائیں
مسائل کون سے حل ہورہے ہیں؟، حکومتی اعدادو شمار کے جادو گر کہہ رہے ہیں کہ
ملک تاریخی ترقی کر رہا ہے(یہ نعرہ ہر حکومت لگاتی رہی ہے) مگر غریب کا
چولہا بجھ چکا ہے ،غریب صاف پینے کے پانی سے محروم ہے ، دالیں اور سبزی
غریب کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے ،علاج معالجہ غریب کے لئے مصیبت بن چکا
ہے ،غربت سے تنگ آئے لوگوں کی خودکشیوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوچکا ہے
، میں اگر مزید تفصیل میں جاؤں تو یہ کالم بہت لمبا ہو جائے ایسی بے شمار
مثالوں سے ہمارہ معاشرہ بھرا پڑاہے۔
اب جو ملک عزیز کے بنیادی مسائل ہیں وہ کہاں تک حل ہوئے ہیں ان کی چند
مثالیں حاضر خدمت ہیں تقسیم پاکستان کے بعد انتقال اراضی کا مسئلہ کھڑا ہوا
اور اس میں بہت سارے گھپلے ہوئے پھر زمین کی مساویانہ تقسیم نا ہوسکی جس کی
وجہ سے آج تک پاکستان کا بے شمار علاقہ بنجر پڑا ہے ،ایک انسان ہزار سے
زیادہ ایکڑ کا مالک ہے اور ایک انسان کے پاس رہنے کے لئے ایک مرلہ بھی نہیں
اگر زرعی اصطلاحات کے ذریعے زمین کو تقسیم کردیا جاتا اور محنتی کسانوں کو
آسان شرائط پر زمین اور آلات دے دیئے جاتے تو آج پاکستانی معیشت ہمالیہ سے
زیادہ بلند ہوتی اور ہمارے ہاتھ میں کشکول نا ہوتا بلکہ ہم تقسیم کرنے والے
ہوتے ۔
ہمارا نظام تعلیم جوں کا توں ہے اور ہمارے پاس تعلیم یافتہ طبقہ کی شدید
کمی ہے ہاں البتہ ڈگری ہولڈرز بہت زیادہ ہیں جب سے نظام تعلیم سے اخلاقی
تربیت اور حب الوطنی ختم ہوئی ہے اور تعلیم کا مقصد صرف اور صرف نوکری رہ
گیا ہے اس وقت سے تعلیم یافتہ طبقہ کی قلت میں شدید اضافہ ہوا ہے اور رہی
سہی کسر اس انگریزی زبان نے نکال دی ہے جو زبردستی ہمارے نظام تعلیم پر
مسلط کی گئی ہے بہت سارے قیمتی نوجوان جو حب الوطنی سے سرشار اس ملک اور
قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں محض اس افرنگی زبان پر مکمل عبور نا ہونے کے
باعث بسوں میں کنڈیکٹری کر رہے ہیں یا رکشہ چلا رہے ہیں یا سبزی کی ریڑھی
لگا رہے ہیں ۔
میں یہاں کس کس کاذکر کروں کہ کالم اپنی طوالت کا چیخ چیخ کر شکوہ کناں ہے
اجمالاً بتاتا ہوں کہ یہاں شروع ہی سے ٹیلنٹ کی ناقدری اور نااہل لوگوں
کاسفارش یا رشوت کے ذریعے اہم پوسٹوں پر براجمان ہونا ہے کوئی بھی حکومت اس
مسئلے کو حل نہیں کر سکی بلکہ شاید معاون ضرور بنی ہو گی ،ہمارے ہاں
تقریباً ساٹھ فیصد اموات ناقص ہیلتھ پلانگ کے باعث ہوتی ہیں یہ مسئلہ بھی
اپنے حقیقی حل سے محروم چلا آرہاہے ،ٹرانسپورٹ کے بنیادی مسائل جیسے کے
تیسے ہیں کوئی چیک ان بیلنس نہیں مذہبی ایونٹ ہوں یا سرکاری چھٹیاں عوام
ہمیشہ ہی ٹرانسپورٹروں کے ہاتھوں کھجل ہوتے ہیں اور پھر وقت پر غریب عوام
کبھی بھی اپنی منزل پر نہیں پہنچی ، اڈوں پر بزرگ شہریوں کی عزت افزائی کس
سے چھپی ہے؟۔
بنیادی ضروریات زندگی تک رسائی ہر گذرتے دن میں غریب عوام کی دسترس سے باہر
ہوتی جارہی ہے،ہمارے تہذیبی مسائل ،ہمارے نوجوانوں کے مسائل ،جہالت و تعصب
کے مسائل کبھی بھی کچھ بھی رخ اختیار کر لیتے ہیں اور ہم آج بھی بے بس
خاموش تماشائی بنے سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔
ہمارے ہاں بد قسمتی سے لسانیت ،علاقائیت ،مذہبی فرقہ بندیوں اور برادری ازم
پر جب کوئی چاہے دنگے فساد اور قتل و غارت کا بازار گرم کروالے اسے کسی بھی
دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ان سب کی روک تھام کے لئے کوئی جامع ضابطہ
اخلاق نہیں ہے اور نا ہی حکومتی سرپرستی میں اس کی روک تھام کے لئے آپس میں
مل بیٹھ کر کوئی حل تجویز کیا گیا کیونکہ بہر حال ہر حکومت کوان اختلافات
سے کوئی نا کوئی فائدہ ضرور ہواہے۔
ہمارے ہاں ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایک حکومت ایک کام کو سہی سمجھتے
ہوئے کرتی ہے مگر دوسری حکومت یا تو سرے سے اس کے خلاف ہوتی ہے یا اس کے
طریقہ کار میں تبدیلی کرتی ہے جس سے کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں ہوپاتا ہے
اس ساری دھماچوکڑی میں ملک کو کھربوں روپے کا چونا لگ چکا ہے مگر یہ ڈگر
ختم ہوتی نظر نہیں آتی اور بالآخر اس کا بوجھ ٹیکسوں کی شکل میں غریب عوام
کو اٹھانا پڑتا ہے ۔ہم ابھی تک اپنے ملک سے طبقاتی تفریق کو ختم نہیں کرسکے
،حکمرانوں اور عوام کے درمیان فاصلوں کو سمیٹ نہیں سکے اور ہمارے حکمرانوں
کو عوام سے ایسے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جیسے عوام دہشت گرد ہوں ۔یہ اور اس
طرح کے سینکڑوں مسائل آج بھی اپنی پوری نحوست کے ساتھ اس ملک کو کھوکھلا
کرنے پر لگے ہوئے ہیں مگر ہم اور ہمارے اہل اقتدار اپنی اپنی پارٹیوں کی
تشہیری مہم ،اپنے کاندھوں پر میڈل سجانے کی جستجو اور تمام تر خامیوں کی
ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر آج بھی عوام کو بیوقوف بنانے میں لگے ہوئے ہیں ،
دہشت گردی کی تشریح میں ہر ایک اپنے فریق مخالف کو ڈالنا چاہتا ہے، فوجی
عدالتوں سے لے کر پی ایس ایل فائنل تک کسی بھی چیز پر عوامی پارٹیاں متحد
نظر نہی آتیں ،وہی کھیل ہے وہی طریقے ہیں وہی ذہنیت ہے ہاں کچھ بد ل رہا ہے
تو وہ پاکستان نہیں بلکہ ارباب اقتدار کے چہرے ہیں اور پاکستان بننے کے سات
دھائیوں کے بعد بھی عوام بے یقینی ،غربت ،لاچاری اور بے بسی کی زندگی
گزارنے پر مجبور ہے کیوں ؟ کیونکہ عوامی نعرے لگانے والوں کے پاس عوامی
مسائل کا حل ہی موجود نہیں بلکہ وہ تو صرف اپنے اقتدار کے لئے عوام کے
ذہنوں کو بھٹکارہے ہیں اور بس ۔ |