FIA والے جاگ جائیں

کسی ملک میں جب بے روز گاری بڑھ جاتی ہے تو نئی نئی صنعتیں جنم لینے لگتی ہیں۔ ان صنعتوں میں سب سے بڑی صنعت فراڈ سازی کی ہے۔عید کی آمد آمد ہے اور آجکل لگتا ہے کہ عیدی اکٹھی کرنے کے چکر میں سارا ملک ہی فراڈ سازی میں مصروف ہے۔ پچھلے تین چار سال سے بے نظیر انکم سپورٹ کے پچیس تیس ہزار میرے جیسے مستحق شخص کو دینے کے لئے کئی گروپ مصروف عمل ہیں اور میں بے وقوف انہیں وصول کرنے کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھا رہا۔آئے دن ایک ایس ایم ایس آتی ہے کہ آ پ کا نام نکل آیا ہے فوری طور پر اس نمبر پر رابطہ کریں اور اپنی رقم وصول کریں ۔ میں سدا کا سست آدمی ۔ سوچتا ہوں کہاں اتنی محنت کہ پہلے اس نمبر پر رابظہ کروں پھر ان کے فراڈ کا شکار ہوں پھر مختلف محکموں کے پیچھے پھروں کہ وہ جو میرے تھوڑے سے پیسے فراڈ سے مجھے انعام کا لالچ دے کرمجھ سے وصول کرلئے گئے ہیں وہ ہی واپس دلا دیں۔یوں محکمے والوں سے احمق بھی کہلواؤں اور خوامخواہ پریشان بھی رہوں۔اس لئے کوئی رسک نہیں لیتا۔

پچھلے چند مہینوں سے ایک میڈیا گروپ کی طرف سے ہر ہفتے میرے نام ایک کار نکل آتی ہے۔پتہ نہیں وہ میڈیا گروپ مجھ پر اتنا مہربان کیوں ہے۔گاڑی کس کی ضرورت نہیں ۔ میں بھی چاہتا ہوں ایک آدھ گاڑی گھر میں فالتو بھی کھڑی ہو۔جو گاڑی دیتے ہیں وہ گاڑی تو بہت بعد کی بات ہے پہلے کمال چکر دیتے ہیں۔ میں عمر کے جس حصے میں ہوں ویسے ہی چلتے پھرتے تھوڑے تھوڑے چکر محسوس ہوتے ہیں میں مزید چکروں کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لئے گاڑی کے حصول کی کوشش نہیں کی۔ آج میں سو کر اٹھا تو میرے فون پرآج بھی یہ دونوں پیغامات موجود تھے، میں نے پڑھے اور حسب عادت موبائل کو ان پیغامات سے پاک کر دیا۔

چھٹیاں اور فراغت، میں بیٹھا اخبار دیکھ رہا تھا کہ میری بیگم کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ اس نے اٹھایا۔ کسی سے بات کی اور یہ کہہ کر کہ میرے میاں سے بات کریں فون مجھے پکڑا دیا۔ایک صاحب نے بڑے مہذب انداز میں سلام دعا کے بعد کہا کہ وہ مردم شماری کے حوالے سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔ جی ارشاد۔کہنے لگے مردم شماری ہو گئی، میں نے جواب دیا جی ہاں۔ میں اس حوالے سے کچھ معلومات لینا چاہتا ہوں۔ جی بتائیے ۔ میں نے کہا۔ کہنے لگے ، آپ کا نام ، پتہ، کاروبار، یہ سب کچھ لکھا دیں۔ میں نے ہنس کر کہا کہ پہلے آپ اپنا تعارف تو کرا دیں اور یہ بھی بتائیں کہ یہ معلومات آ پ کو کیوں درکار ہیں۔ کہنے لگے، میں آرمی ہیڈ کوارٹر سے صوبیدار صدیق بول رہا ہوں۔ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کے ذرائع آمدن کیا ہیں۔ کیا وہ جائز ہیں ۔ آ پ کی اخراجات اور ذرائع آمدن میں مطابقت ہے کہ نہیں ۔ یہ سب کچھ آپ کو مجھے بتانا ہے۔

میں نے ایک لمبا سانس لیا۔ پہلے دو فراڈیے تو پیغام کی حد تک تھے یہ تیسرے بہ نفس نفیس فون پر موجود تھے۔میں نے کہا، بھائی میری فوج کے جوان بڑے متحرک اور بڑے ذمہ دار ہیں۔ ایسی معلومات حاصل کرنے کے لئے وہ خود چل کر لوگوں کے پاس جاتے ہیں۔ پہلے اپنی مکمل پہچان کراتے اور پھر بات کرتے ہیں۔ تم کوئی بے غیرت آدمی ہو جو گھروں میں عورتوں کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھا کر اندازہ لگاتے ہو کہ ان لوگوں کو بلیک میل کیا جا سکتا ہے کہ نہیں۔ میں نے چند اور بھی سخت باتیں کیں اور وہ فون بند کر گیا۔ آرمی ہیڈ کوارٹر کے صوبیدار صدیق صاحب کا نمبر 0306-0799787 تھا۔ اب یہ کون تھے جاننا آرمی یا FIA کا کام ہے۔ میرے جیسا آدمی تو اس معاملے میں انتہائی بے بس ہے۔اﷲکرے FIA والے جاگ جائیں۔

ایک تازہ ترین واقعہ یاد آیا،شام کا وقت تھا۔ میں نے دیکھا سڑک کے کنارے بہت سی رہڑیاں کھڑی تھیں اور ان پر پھل بک رہا تھا۔ مجھے درجن کیلے خریدنے تھے۔ میں نے گاڑی ایک طرف کھڑی کی اور ایک رہڑی پر کیلے دیکھے۔ فقظ 125 روپے درجن دے رہا تھا۔ کیلوں کی شکل بڑی بھدی تھی۔ چھوٹے اور سیاہ کالے۔ لگتا تھا کئی دن پرانے ہیں۔ میں چند قدم آگے دوسری رہڑی والے کے پاس پہنچ گیا۔ اس کے کیلے بھی چھوٹے تھے مگر تازہ اور صاف ستھرے تھے۔ کہنے لگا کہ جناب 180 روپے درجن ہیں۔ حکومت کا مقرر کردہ ریٹ ہے۔اچانک نظر پڑی سامنے ایک رہڑی پر بہت بڑے سائز میں تازہ کیلے موجود تھے۔ میں فوراً وہاں پہنچ گیا۔ریٹ پوچھا تو اس نے 200 روپے درجن بتایا۔ میں نے اسے کہا کہ بھائی سنا ہے سرکاری ریٹ تو 180 روپے درجن ہے تم زیادہ کیوں مانگتے ہو۔جواب ملا۔ جناب گدھے اور گھوڑے کو ایک معیار پر تو نہ رکھیں ۔ سرکاری ریٹ تو بس خانہ پری ہے۔ یہاں پچیس تیس پھل بیچنے والے ہیں۔ دس سے زیادہ کے پاس کیلے ہیں۔ جن کے پاس ہلکا یاگندہ پھل ہے وہ سرکاری ریٹ کا الاپتے ہیں۔ میں نے مہنگا خریدا ہے ، اس کا معیار دیکھ لیں ،تقابل کریں گے تو ڈھائی سو(250) روپے درجن بھی آپ کو زیادہ نہیں لگے گا۔کہتا تو صحیح تھا۔

اتنے میں سامنے ایک موٹر سائیکل آ کر رکی ۔ایک صاحب ہاتھ میں بہت سے کاغذ لئے نیچے اترے۔ ہر رہڑی والے کو ایک کاغذ دیتے اور سو روپے وصول کرتے جا رہے تھے۔ میں جس رہڑی پر کھڑا تھا اس نے بھی سو روپے دئیے ، کاغذ پکڑا اور جیب میں ڈال لیا۔میں نے پوچھا یہ کیا ہے۔ کہنے لگا غنڈہ ٹیکس۔ کیا مطلب ،میں نے پوچھا۔ کہنے لگا اب اسے اور کیا کہوں ۔ یہ ریٹ لسٹ ہے جو یہ بندہ روزانہ دیتاہے اور اس کے سو روپے روز وصول کرتا ہے۔سوائے منڈیوں اور عید یا اتوار بازاروں کے۔جہاں ہلکا یا گندہ پھل بکتا ہے، کوئی اس لسٹ کی پرواہ بھی نہیں کرتا۔انہیں بھی پتہ ہے کہ اصل ریٹ کیا ہے اور کیا ہونا چائیے۔ سب ملے ہوئے ہیں ۔ہم سو روپے روزانہ نہ دیں تو شام کو چھاپہ پڑ جائے گا ۔ہم میں سے بہت سے لوگ پکڑے جائیں گے۔چونکہ ہم پیسے دے رہے ہیں ۔ چھاپے کا پروگرام ہو تو یہی بندہ پہلے اطلاع دے دیتا ہے ۔ جن رہڑی والوں کا پھل ستھرہ اور مہنگا ہوتا ہے وہ ارد گرد گلیوں میں گھس جاتے ہیں۔ چھاپے والے میڈیا کے ساتھ آتے ہیں فوٹو کھچواتے ہیں ، کچھ ڈرامہ کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ہمیں اطلاع ملتی ہے کہ بلا ٹل گئی تو ہم واپس اپنی جگہ آ جاتے ہیں۔یہ روز کا کھیل ہے۔ بس سو روپے دیں اور آپ محفوظ ہیں۔مجھے یقین ہے سچ کہہ رہا تھا۔ میں نے 200 روپے دے کر کیلے لئے اور گاڑی کی طرف چل پڑا۔سوچتا ہوں انصاف کیسے فعال ہو سکتا ہے اور قانون کیا کرے گا جب قانون پر عملدرآمد کرانے والے سارے لوگ ہی فنکار ہیں۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 442974 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More