نظام ِ تعلیم کو باتوں ہی باتوں اور گورنمنٹ نے اپنے
ریکارڑ میں بہتر بنا لیا ہے۔ شعبہ تعلیم میں نگرانی رکھنے کیلئے بے شمار
افسران ِ بالا کی خدمات لی جا رہی ہیں۔ مگر ابھی بھی ہم انگریزوں کے 1858 ء
کے معیارِ تعلیم سے کچھ آگے نہیں گئے ہیں۔ آج بھی ملک کے بیشتر علاقوں میں
لوگوں کی سوچ بچوں سے مزدوی کروانا، چھوٹی موٹی نوکری کروانے سے کہیں زیادہ
اونچی نہیں ہےجس کے بدلے امتحان کے وقت نقل کروانےکا خصوصی اہتمام کیا
جاتاہےمثلاََ کھانے پیش کرنا، تحائف دینا وغیرہ۔ حتیٰ کہ پنجم اور ہشتم کی
جماعتوں کے امتحانات میں تو یہ سلسلہ حد سے تجاوز کر جاتا ہے یعنی اساتذہ
اکرام طلباء کے پرچے خود لکھنے کی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ غیر ملکی نظام
ِ تعلیم کو ہم لانے سے تو قاصر ہیں مگر ہم جلد غیر ملکی حکمت عملی کو لاگو
کرنے کے ماہر ہیں۔ نتائج ؛ ہم سب جانتے ہیں۔ سکولوں میں ،سرکاری کھاتوں میں
وقت سے پہلے بچوں کی تعداد کو پورا کر لیا جاتا ہے۔ لیکن صد افسوس حقیقت
کہیں ویران سی گلی میں دفن رہتی ہے۔ کسی کو اپنی غفلت کا کوئی احساس نہیں
ہے۔ میں نے اپنے استاد ِ محترم سے کچھ دن پہلے پوچھا، " جناب، ملک میں نظام
ِ تعلیم کا کیا مسئلہ ہے؟" سر نے جواب دیا، " ہمارے ہاں نظام تعلیم کو ہر
کوئی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر استعمال کر رہا ہے ۔ اس ملک میں میرے تیرے
مفاد کی کوئی بات نہیں ہے ۔ بس ، بیٹا یہی اس ملک اور ہمارے نظام ِ تعلیم
کا مسئلہ ہے۔ " ہمارے ہاں ایک بہت بُرا رواج عام ہے "دیکھا جائے گا " کہہ
کر بھی لو گ اپنے آپ کو مطمن رکھتے ہیں۔ ہماری قوم کی اصل بدقسمتی ہی یہی
ہے۔ہم ڈاکڑ علامہ محمد اقبال کی بات کو نظر انداز کر چکے ہیں
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فر دہے ملت کے مقدارکا ستارا تبدیلی کے لئے گورنمنٹ آف
پاکستان نے شعبہ تعلیم کو 46 ارب روپوں سے نوازا ہے اور ساتھ ہی بہتر نظام
تعلیم کا اعلان بھی فرمایا ہے۔ خدارا سکولوں کی عمارتوں کا بر احال ہے،
سٹاف مکمل نہیں، جو موجود ہے ان سے کلرکوں کا کام لیا جاریا ہے۔ نہ صرف
کلرکوں بلکہ الیکشن ڈیوٹی ، امتحانی ڈیوٹی ،پولیو ڈیوٹی، مرد م شماری غرص
یہ کہ ہر وہ کام جس کا تعلق شعبہ تعلیم سے ہو نہ ہو، اساتذہ اکرام سے لیا
جا رہا ہے۔ بجائے اس کے استاد کو اس کا کام کرنے دیا جا ئے ۔ وہ سکول کا
کلرک نہ ہو ، بچے داخل کروانا اس کام نہ ہو ، پیپر کروانا اس کا کام نہ ہو
۔ ایک استاد سے صرف پڑھانے کا کام لیا جائے۔ ہمارے ہاں گنگا یا تو اُلٹی
ہےیا پھر خشک ہو گئی ہے استاد کو ذلیل کرنا محکمہ اپنا فرض سمجھتا ہے یہ
کلرکوں کی دنیا ہے ہم کلرکوں سے آگے نہیں جا سکے۔ خود احتساب کریں!ہم نے
ترقی کی ہے یا ناکام ہوئے ہیں! |