میرا نام عبدالرحیم ھے ۔ دوست یار مجھے رحیما کہہ کر
بلاتے تھے۔ جو بات میں آج آپ کو سنانے والا ھوں یہ پاکستان بننے سے پہلے کی
ھے۔اس وقت انڈیا اور پاکستان ایک ھی ملک ھوا کرتے تھے میں اپنے والدین اور
بیوی بچوں کے ساتھ جس گاؤں میں رھتا تھا وہ آج کل انڈیا میں ھے۔
میرا ایک ھی بیٹا تھا۔ اس کا نام کلیم تھا ۔ مگر سب اسے کالو کہہ کر بلاتے
تھے ۔ میں چھوٹی سی دکان چلا کر اپنی گزر بسر کرتا تھا۔ ھمارے گھر کے آس
پاس زیادہ تر گھر ھندؤوں اور سکھوں کے تھے ۔کچھ گھر مسلمانوں کے بھی تھے ۔
ھم مل جل کر رھتے تھے ۔بھائی چارے کی ایک فضا قائم تھی ۔
گوپال سنگھ میرا پڑوسی تھا ۔ میرے ساتھ اس کا سلوک بڑے بھائیوں جیسا تھا۔
وہ ھمیشہ میرے دکھ درد کا ساتھی تھا۔ ہم اکٹھے بیٹھتے ۔گپ شپ لگاتے ۔کبھی
کتوں کو لیکر شکار پر نکل جاتے ۔ دن اسی طرح بے فکری اور اطمینان سے گزر
رھے تھے۔پھر ھندوستان کے بٹوارے کا غلغلہ بلند ھوا۔ دیکھتے ھی دیکھتے یہ
تحریک پورے ھندوستان میں پھیل گئی ۔مسلمان الگ ملک پاکستان بنانا چاھتے
تھے۔ ھندو اور سکھ مسلمانوں کے شدید مخالف ھو گئے تھے ۔ میں محسوس کر رھا
تھا کہ ھمارے گاؤں میں رھنے والے ھندو اور سکھ بھی اب ہم مسلمانوں کو عجیب
نظروں سے دیکھنا شروع ھو گۓ تھے۔ میرے دل میں انجانا سا خوف پیدا ھو رھا
تھا۔
پھر ایک دن سنا کہ پاکستان بن گیا ھے ۔اور اب ھندوستان اور پاکستان دو ملک
تھے ۔مسلمانوں نے پاکستان میں رھنے کے لیے ھجرت شروع کر دی ۔ جو مسلمان
ھندوستان میں رھنا چاھتے تھے ان کو ھندو زبردستی ملک سے نکال رھے تھے ۔ان
کی جائدادوں اور املاک پر قبضہ کر رھے تھے ۔۔قتل و غارت شروع ھو چکا تھا ۔
بے بس اور کمزور مسلمانوں کو قتل کیا جا رھا تھا ۔ان کی ماؤں بہنوں اور
بیٹیوں کی عزت تار تار کی جا رھی تھی۔ مسلمان ٹولیوں اور گروپوں کی صورت
میں رات کے اندھیرے میں گاؤں اور گھر چھوڑ رھے تھے۔
ھمارے گاؤں میں بھی یہ صورت حال پیدا ھو چکی تھی ۔کچھ مسلمان گھرانے ھجرت
کر چکے تھے ۔ میں گو مگو کی حالت میں تھا ۔میں گاؤں چھوڑنا نہیں چاھتا تھا۔
کیونکہ میرے بچپن اور جوانی کی سہانی یادیں گاؤں کی ایک ایک گلی سے جڑی
ھوئی تھیں ۔ گاؤں کے درخت ۔۔۔ پتھر ۔۔۔ کھیت اور کنویں میرے دل و دماغ میں
پیوست ھو چکے تھے ۔ وہ ۔۔۔۔ گلیاں ۔۔۔۔۔ جس میں دوڑا کرتا۔۔۔۔ ۔ وہ
کھیت۔۔۔۔۔ جس میں بکریاں چرایا کرتا۔۔۔۔۔۔ وہ پیڑ ۔۔۔۔۔ جن پر میں چڑھ کر
جھولا جھولتا۔۔۔۔۔۔ ۔ یہ سب میرے پیروں میں زنجیر بن کر چپک گئے ۔ مجھے
ھجرت سے روکنے کیلۓ ایک دیوار بن کر میرے راستے میں کھڑے ھوگئے۔ میں گم صم
۔۔۔ خاموش۔۔۔۔ اور اداسی کے عالم میں سوچتا ۔۔۔۔۔کہ کیا کروں۔
میرے دوست گوپال نے مشورہ دیا کہ مجھے چلا جانا چاھیے۔کیونکہ اب حالات قابو
سے باھر ھو چکے ھیں۔ میں نے اس کے کہنے پر ھجرت کا پروگرام بنا لیا۔ لیکن
بہت دیر ھو چکی تھی ۔ ایک دن بلوائیوں نے میرے گھر پر حملہ کر دیا ۔میں گھر
سے باھر تھا۔ بلوائیوں نے میرے والدین کو قتل کر دیا ۔اور میرے بیٹے کالو
اور بیوی کو اٹھا کر لے گئے۔ مجھے خبر ملی تو میں پاگلوں کی طرح گھر کی طرف
دوڑا۔ مگر اب وھاں کچھ نہیں بچا تھا ۔ میری دنیا اجڑ چکی تھی ۔ میرے اوپر
قیامت ٹوٹ پڑی ۔میں ھوش و حواس سے بیگانا ھو کر گر پڑا ۔
معلوم نہیں کتنی دیر تک پڑا رھا۔مجھے ھوش آیا تو گوپال سنگھ میرے اوپر جھکا
ھوا تھا۔ گوپال کو دیکھ کر میرے ضبط کے بند ٹوٹ گئے ۔گوپال نے مجھے اپنے
ساتھ لپٹا لیا ۔ کافی دیر رونے کے بعد گوپال نے مجھے الگ کیا اور کہا کہ
میں اب فوراً گاؤں چھوڑ جاؤں۔ گوپال نے مجھے کچھ رقم ۔۔۔ کھانے کی پوٹلی
اور پانی سے بھری ایک چھاگل دی اور کہا کہ رات ھوتے ھی میں نکل جاؤں۔ ھم
آخری بار ملے اور پھر گوپال سنگھ چلا گیا۔
میں رات کے اندھیرے میں گاؤں سے نکل پڑا۔ گاؤں سے نکل کر میں نے آخری بار
مڑ کر گاؤں کی طرف دیکھا۔ میری آنکھیں بھر آئیں ۔میرا خاندان ختم ھو چکا
تھا ۔ اور اب گاؤں بھی چھوڑنا پڑ رھا تھا ۔زندگی میرے لیے بے معنی ھو چکی
تھی ۔اور زندہ رھنے کی ھر امنگ ختم ھو چکی تھی ۔ لیکن جب تک سانس باقی تھی۔
مجھے زندہ رھنا تھا۔
میں چلتا رھا۔چلتا رھا ۔اب میں گاؤں سے کافی دور نکل آیا تھا۔ جب میں نے
محسوس کیا کہ اب محفوظ جگہ پہنچ گیا ھوں تو میں رک گیا ۔اور فیصلہ کیا کہ
آرام کرنے کے بعد منہ اندھیرے دوبارہ اپنا سفر شروع کر دوں گا۔ گوپال سنگھ
کا دیا ھوا کھانا تھوڑا سا کھایا اور باقی لپیٹ دیا۔ مجھے گوپال سنگھ یاد
آگیا ۔ نہ جانے کیوں میری آنکھوں کے کونے نمی سے بھیگ گئے۔۔میں چادر بچھا
کر لیٹ گیا۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور دماغ میں سوچوں کا طوفان بر
پا تھا۔ اب دل میں ایک ھی ارمان رہ گیا تھا کہ پاکستان پہنچ جاؤں ۔ میں
دیکھنا چاھتا تھا کہ وہ پاکستان کیسا ھے ۔جس کے لیے میرے والدین اور بیوی
بچے قربان ھو گئے۔ میں انھی سوچوں میں گم تھا کہ مجھے اپنے پاؤں پر گدگدی
سی محسوس ھوئی ۔میں نے اٹھ کر دیکھا ۔ وہ کتے کا ایک چھوٹا سا بچہ تھا ۔ وہ
اپنی چھوٹی سی زبان نکال کر میرے تلوے چاٹنے کی کوشش کر رھا تھا ۔ میں نے
اسے اٹھایا اور گود میں بٹھا لیا ۔ وہ شائید بھوکا تھا ۔ گوپال سنگھ کی دی
ھوئی روٹی میں سے ایک ٹکڑا توڑ کر اسے کھلایا اور پانی پلایا ۔ پلے میں جان
آ گئی ۔اب وہ میرے ھاتھوں میں مچلنے لگا۔ اس کا رنگ سیاہ تھا ۔میرے دل میں
ایک خیال آیا اور میں نے اس پلے کا نام کالوُ رکھ دیا ۔اس پلے کے روپ میں
مجھے اپنا بیٹا کالو یاد آگیا ۔ وہ میری زندگی تھا۔ میں سوچا کرتا کہ کالو
میرے بڑھاپے میں میرا سہارا بنے گا۔ لیکن اب دو دن میں ہی میں بوڑھا ھو چکا
تھا اور کالو مجھے چھوڑ کے جا چکا تھا ۔ میری آنکھیں بھی اب خشک ھو چکی
تھیں ۔ اب آنکھوں میں رونے کی سکت بھی باقی نہ رھی تھی۔ آنکھیں بھی کب تک
میرا ساتھ دیتیں۔ شائید غم کا پہاڑ ھی اتنا بڑا تھا۔
اب میں تھا اور میرے ساتھ کالو تھا۔ میں نے کالو کو بتایا کہ ھم پاکستان جا
رھے ھیں ۔وھاں ھر طرف امن اور سکون ھو گا ۔ وھاں ھم اپنی مرضی سے نیئ زندگی
شروع کریں گے۔ سنا ھے وہاں بہت بڑے بڑے لیڈر ھیں ۔ جو ھمارا طرح سے خیال
رکھیں گے ۔ وہاں کوئی کسی سے زیادتی نہیں کرے گا ۔ھر آدمی کو زندگی کی ھر
سہولت اور آسائیش میسر ھوگی۔۔۔۔۔۔میں بولتا رھا اور کالو سنتا رھا ۔۔شائید
کالو میری ساری باتیں سمجھ رھا تھا۔
اب صبح کا ھلکا سا اجالا نمودار ھونا شروع ھو گیا ۔دور کسی جگہ سے آذان کی
آواز آ رہی تھی ۔ میرے پاس وضو کے لیے پانی نہ تھا ۔نہ مجھے قبلے کی سمت کا
اندازہ تھا۔ میں اٹھا ۔ رب کے حضور کھڑا ھو گیا۔ مجھے معلوم نہیں میں کیا
پڑھتا رھا ۔ معلوم نہیں کتنی کھڑا رھا۔ اور پھر سجدے میں گر گیا ۔ میرے
آنسو ٹپ ٹپ گر کر مٹی کو بھگو رھے تھے۔ تھوڑی دیر بعد میں اٹھ گیا۔ اب میں
پرسکون تھا ۔میں نے اور کالو نے اپنا سفر شروع کر دیا۔ کھانا اور پانی ختم
ھو چکا تھا۔ اور نجانے کتنی دور تک ھم نے جانا تھا۔ہم چلتے رھے کالو بھی سر
جھکاۓ میرے پیچھے چلا آ رھا تھا ۔
پانی کے بغیر سفر بہت مشکل تھا ۔راستے میں دو کنویں آۓ۔۔مگر ان کے گرد مردہ
جانوروں اور پرندوں کے جسم پڑے تھے۔میں سمجھ گیا کہ بلوائیوں نے ان کنوؤں
میں زھر ملا دیا ھے۔یہاں سے پانی پینا خطرناک ھے ۔میں مرنا نہیں چاھتا
تھا۔میں پاکستان پہنچنا چاھتا تھا ۔۔۔
ھم آگے بڑھ گئے۔۔دوپہر تک ھم نڈھال ھو چکے تھے ۔کالو کی ھمت جواب دے گئی
۔اور اس نے مزید چلنے سے انکار کر دیا۔ لیکن رکنا خطرناک تھا ۔ اس لیے میں
نے کالو کو اٹھا لیا ۔کالو آنکھیں بند کیے میرے بازو میں جھول رھا تھا ۔
میں اپنے آپ کو گھسیٹتا رھا ۔
راستے میں ایک اور کنواں دکھائی دیا۔ میں کنویں پر پہنچا۔ خوش قسمتی سے اس
میں پانی بھی تھا اور کنویں کی منڈیر پر رسی بھی پڑی تھی۔اور ڈول بھی بندھا
ھوا تھا ۔یہاں کوئی مردہ جانور بھی دکھائی نہیں دے رھا تھا۔ میں نے سوچا
شائید یہ کنواں بلوائیوں سے بچ گیا ھے۔ اور اس کا پانی زھریلا نہیں ھو گا۔
میں نے جلدی سے ڈول کنویں میں ڈالا اور پانی نکال لیا۔
مجھے خیال آیا کہ کہیں یہ پانی بھی زھریلا نہ ھو ۔ میں گو مگو کی حالت میں
سوچ رھا تھا کہ پانی پیؤں یا نہ پیؤں ۔ اچانک میرے دل میں ایک خیال آیا
۔میں نے فوراً اس خیال کو جھٹک دیا ۔لیکن یہ خیال تو میرے ذھن سے جیسے چپک
ہی گیا۔ کافی دیر تک میں مبہوت بیٹھا رھا۔ کالو میرے سامنے بیٹھا حیرت سے
مجھے دیکھ رھا تھا۔شائید وہ میرے خیالات کو پڑھنے کی کوشش کر رھا تھا۔۔میں
بار بار چور نظروں سے کالو کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کا اور میرا ساتھ اگرچہ
بہت مختصر رہا تھا۔ لیکن کالو سے جو انس مجھے ھو چکا تھا اس کی وجہ میں
اپنے خیال پر عمل کرنے سے ھچکچا رھا تھا۔ لیکن مجھے تو ھر حال میں پاکستان
پہنچنا تھا۔
آخر میں اٹھا اور پانی کالو کے آگے رکھ دیا۔ شدید ندامت کی وجہ سے میرا سر
جھک گیا ۔ میں کالو سے نظریں نہیں ملا پا رھا تھا۔میں نے سوچا تھا کہ اگر
پانی زھریلا ھوا تو کالو مر جاۓ گا اور میں بچ جاؤں گا۔ کالو نے عجیب نظروں
سے مجھے دیکھا اور پانی پینے لگا۔میں نے منہ پھیر لیا۔ میرے اندر ایک
زوردار لہر اٹھی ۔میں اٹھنے لگا تاکہ کالو کو روک لوں۔۔مگر زمین نے میرے
پاؤں جکڑ لیۓ۔
کالو پانی پی کھڑا ھو گیا ۔ اب وہ ممنون آنکھوں سے مجھے دیکھ رھا تھا۔ پھر
کالو ڈگمگایا۔ اور زمین پر گر گیا۔ اس کے منہ سے جھاگ نکل رھی تھی۔پانی
زھریلا تھا ۔اور اس نے کالو پر اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا تھا۔۔اچانک
کالو نے آخری ھچکی لی ۔ایک بار آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا۔اس کی نظریں
میرے چہرے پہ گڑی ھوئی تھیں ۔اس کی آنکھوں سے پانی کا قطرہ نکلا اور اس نے
آنکھیں موندھ لیں۔۔کالو مرچکا تھا۔۔میں دوسری بار اپنے کالو کو گنوا بیٹھا
تھا۔
آج سالوں بیت چکے ھیں ۔ میں پاکستان میں اپنی زندگی کے دن پورے کر رہا ھوں۔
یہ وہ پاکستان نہیں ھے ۔جس کی باتیں میں اور کالو کیا کرتے تھے ۔ آج بھی
رات کے اندھیرے میں کالو کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں میرا پیچھا کرتی رہتی
ھیں۔۔۔۔۔۔۔ |