سورج خوب تپ رہا ہے جیسے ہر زی روح کو جھلسا دے گا،،،،پھر
بھی اس کی تپش قابلِ برداشت تھی۔زندگی رکی ہوئی نہیں تھی،معاملاتِ زندگی
ویسے ہی رواں دواں تھے۔
تپ تو رفیق بھی رہا تھا،،،مگر اس کا تپ و تاب اس کمزور وناتواں کی برداشت
سے باہر تھا،،،رفیق منہ سے اگ اگل رہا تھا،،،وہ خاموش نظروں سے آنسو بہا
رہی تھی،،، جیسے اپنے آنسوؤں سے اس آگ کو بجھانا چاہتی ہو،،،باقی سب گھر
والے خاموش تماشائی بنے گونگے بنے بیٹھے تھے مجال جو اک لفظ کہہ لیں،،،،
وہ بار بار گررہی تھی،،،رفیق نے بازو سے اٹھایا اور گھر کے باہر پھینک
آیا،،،اللہ اللہ،، نہ زمین پھٹی نہ آسمان،،،پر اس بوڑھی کا دل پھٹا جارہا
تھا،،، اس کا قصور بس یہ تھا کہ وہ اس کی ماں تھی،،،تکلیفوں سے
پیداکیا،،،مشکلوں سے پالا پوسا،،،اس وقت کے لیے کہ وہ ذلیل و خوار
کرے،،،،؟کیا اتنے بڑے گھر میں اس کےلیے اک چارپائی کی جگہ بھی نہیں
تھی،،،؟؟
بس اسکا وجود برداشت نہیں ہوتا تھا اس سے،،،،اک ماں کا وجود،،،،جو بھی
سنتا،،، دنگ رہ جاتا،،،،
کچھ دیر وہ وہاں پڑی رہی شاید دروازہ کھل جائے،،،مگر نہ ایسا ہوا نہ ہونا
تھا،،،تھک ہار کر اٹھی اور عبدالحمید کے گھر چلی گئی،،،جو اسکادور کا رشتے
دار،،،اسکی بیوی،، نے اماں کو نہلایا،،،کھانا کھلایا،،،اور دباتی رہی جب تک
وہ سو نہ گئی،،،، اماں کے دل سے خود بخود ان کے لیے دعائیں نکلتیں،،بد دعا
تو کبھی رفیق کو بھی
نہیں دی تھی،،،مگر دل سے ٹیس ضرور اٹھتی تھی،،، وقت گزرتا گیا،،،آخر اس
بوڑھی کو بھی دنیا سے نجات ملی،اور وہ سکون سے ابدی نیند سو گئی،،،
وقت گزرتا ہی نہیں،،،بہت کچھ بدلتا بھی ہے،،،ملک رفیق جسے غرور تھا اپنے
تین جوان بیٹوں پر،،،تف ہے اس پر خود اپنی ماں کا غرور نہیں بنا،،،تو اس کے
بیٹے اس کا کیسے،،،،؟
پہلا بیٹا چوبیس کا ہوتا گیا،،عجیب سے دورے پڑنے لگے،،پاگلوں کی طرح راتوں
کو اٹھ کر روتا،،چینختا،وہ ملک رفیق کے بڑھاپے کا سہارا تھا،ایسے کیسےچھوڑ
دیتا اسے اس حال میں،،،ہر ڈاکٹر کے پاس لے گیا،،،ہر علاج کروایا،،،مگر کچھ
نہ ہوسکا،،،، اک صبح کمرے سے جوان بیٹا لاش کی صورت ملا،،،اس نے خود کشی کی
تھی،،،!!
رفیق ٹوٹ کر رہ گیا ،،،مگر آہ جو دکھی دل سے نکلی تھی اس کا اثر ابھی ختم
نہیں ہوا تھا،،،اس کے باقی دونوں بیٹے بھی چوبیس چوبیس کے ہوتے ہی مرتے
گئے،،،بالکل ویسے ہی پہلے پاگل ہوتے پھر اپنی جان خود لے لیتے،،،، جو اک
ماں کے جنازے کو کندھا نہ دے سکا،اس نے اپنے تین تین جوان بیٹوں کے جنازے
اٹھائے،،،اور خود موت مانگتا رہا اپنے لیے،،،، |