گزشتہ سے پیوستہ دنوں جب تیسری قومی کانفرنس برائے ادب
اطفال 2018لاہور میں شرکت کرنے کے بعد گھر کے لیے روانہ ہوئے اور رات
تقریباً12.00بجے ہم بس سٹاپ پر اترے۔ سٹاپ سے تھوڑے فاصلہ پر ایک عورت جس
نے گود میں ایک بچہ اٹھایا ہواتھا جبکہ ایک بچی اور بچہ ننگے پاؤں اس کے
دونوں سائیڈ پر چل رہے تھے وہ عورت بھی ننگے پاؤں تھی اور زاو قطار رو رہی
تھی ۔ جب ہم اس کے قریب پہنچے تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اس سے رونے
کی وجہ پوچھی‘ پہلے تو وہ خاموش رہی لیکن میرے بار بار اصرار پر اس نے
بتانا شروع کیا۔۔۔۔میرے شوہر نشئی ہیں او ر جب ان کا نشے کا سامان (چرس )
ختم ہوجاتا ہے تو وہ مجھے مارپیٹ کر گھر سے نکال دیتے ہیں کہ جاؤ کہیں سے
بھی پیسے لاؤ تاکہ میں اپنا نشہ پورا ک سکوں۔اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گئی
تو میں نے پوچھا ۔۔کیا تمہارا شوہر کوئی کام وغیرہ نہیں کرتا؟۔۔۔کیا بتاؤں
بھائی ۔۔وہ ایک مقامی فیکٹری میں لوڈنگ کا کام کرتے تھے ۔۔اور ہمارے گھر کا
ماحول بھی بہت اچھا تھا ۔۔کبھی کسی چیز کی پریشانی نہیں ہوئی تھی ۔۔۔میرے
شوہر کو سنوکر کھیلنے کا شوق تھا اور وہ فیکٹری سے آنے کے بعد سنوکر کھیلنے
چلے جاتے تھے ۔۔۔ایک دن وہ گھر آئے تو ان کے منہ سے سیگریٹ کی بدبو آرہی
تھی تو میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ آج دوستوں نے زبردستی پلا دی ہے
۔۔۔۔۔پھر رفتہ رفتہ ان کی یہ عادت بنتی گئی ۔۔گھر دیر سے آنا اور نیم بے
ہوشی کی حالت میں رہنا۔۔۔میری برداشت سے یہ باہر ہوتا گیا اور میں نے انہیں
ہر موڑ پر روکنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ میں ہماری میاں بیوی کی لڑائی شروع
ہو جاتی ہے ۔۔۔محلے داروں کے سمجھنے پر میں نے اپنے شوہر کی ان کی حالت پر
چھوڑ دیا۔۔لیکن مجھے اس کا یہ نقصان ہوا کہ نشہ کی وجہ سے ان کی نوکری چلی
گئی اورگھر کا سارا نظام درہم برہم ہو گیا۔۔شروع شروع میں تو محسوس نہ ہوا
کیوں کہ میں نے کچھ جمع پونجی کر رکھی تھی جو کہ کام آتی رہی۔۔۔لیکن جیسے
جیسے وقت گزرتا گیا گھریلوپریشانیا ں بڑھتی گئی۔۔۔ میرے میکے والوں نے مجھے
تھوڑا بہت خرچہ دینا شروع کر دیا لیکن آخر کب تک۔۔۔میں گھر کا خرچہ چلاتی
یا پھر شوہر کے نشہ کا۔۔۔۔میرے شوہر نے مارپیٹ کر کے میر ا زیور بھی بیچ
دیا اور اس طرح اس کا مہینہ بھر کا نشہ کا بندوبست ہو گیا ۔ ۔۔۔اس نشہ کی
وجہ سے ہمارے گھر کا سارا سامان ایک ایک کر بک گیا ہے ۔۔۔میں لوگوں کے
گھروں میں کام کاج کرتی ہوں جس کی وجہ سے گھر کا خرچہ اور شوہر کے نشہ کا
انتظام ہو رہا ہے ۔۔۔لیکن جب کبھی اسے وقت پر نشہ نہ ملنے تو مجھے مارپیٹ
کر گھر سے نکال دیتا ہے ۔۔۔میں اسی طرح رات جاگ کر گزارتی ہوں اور پھر صبح
کو کام پر جا کر ان سے پیسے لے کر اسے لا کر دیتی ہوں تب جا کر گھر میں
سکون نصیب ہوتا ہے ۔۔۔۔یہ کہہ وہ چپ ہو گئی اور بچوں کے ساتھ ایک طرف چلی
گئی ۔۔۔او ر میں اسے جاتا ہوا دیکھتا رہ گیا ۔۔۔۔یہ صرف اس عورت کی کہانی
نہیں بلکہ ہمارے ہر گلی محلہ کی کہانی ہے ۔۔۔۔بلیئرڈ و سنوکر کلب میں سر
عام چرس ‘افیون فروخت ہو رہی ہے ۔۔۔نوجوان نسل بھی اس سے محفوظ نہیں ۔۔۔میں
خود اپنی آنکھو ں سے پندرہ سالہ نوجوان کو چرس کے سوٹے لیتے دیکھا ہے ۔۔۔ستم
ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون تو ہے لیکن اس پر پاسداری نہیں۔۔۔۔افیون
چرس اور شراب کا کاروبار عروج پر ہے ۔۔۔۔۔میرے پڑوس میں ایک ایسا شخص ہے جو
کہ چوری اور ڈکیتی میں مشہور ہے لیکن پولیس سے اس کے تعلقات ’’اندر کی
تہہ‘‘تک ہے ۔۔۔ ۔۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ جو کوئی بھی کسی برائی کو ختم کرنے
کے لیے نکلتا ہے لوگ اس کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں ۔۔۔کہ چھوڑو ہم اس سے
کیا لینا دینا ۔۔۔لیکن اگر ہم برائی کو نہیں روکیں تو یہ ایک ناسور کی شکل
اختیار کر جائے گی اور پھر ناسور کا خاتمہ بہت مشکل ہوتاہے ۔۔۔۔۔ہمارے
سیاستدان اپنی نجی محفلوں میں بڑے فخر شراب استعمال کرتے ہیں اور خود کو
پارسا تصور کرتے ہیں ۔۔۔۔حالات و واقعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ برائی
اس وقت تک عروج بام پر نہیں پہنچتی جب تک اس کی پشت پناہی کرنے والے ’’وڈیرے‘‘
نہ ہوں۔۔۔کیونکہ یہ وڈیرے ہی ہیں جو کسی بھی غریب کو سہانے سپنے دکھائے اسے
اپنے جال میں پھنساتے ہیں اور پھر ان سے یہ کاروبارکرواتے ہیں ۔۔۔خود پس
پشت رہ کر اس کاروبار کی سرپرستی کرتے ہیں ۔۔۔اور جب کبھی پردہ فاش ہوتا ہے
توکہتے ہیں کہ ہم تو اسے جانتے بھی نہیں۔۔۔ انہی نام نہاد وڈیروں کی وجہ سے
معاشرے میں برائیوں عروج پر ہیں۔۔۔۔ہم سب لوگوں کا یہ مشاہدہ ہے کہ تھانہ
کچہریوں میں اکثر غریب لوگ ہی نظر آتے ہیں ۔۔۔کبھی کسی نے یہ نہی دیکھا کہ
کسی امیر شخص نے تھانہ میں رات گزاری ہو۔۔۔ایسا ہو ہی کیوں۔۔۔۔؟ یہ لوگ
پہلے ہی اپنے مہربان پولیس والوں سے مک مکا کر لیتے ہیں ۔۔۔۔رمضان میں شہر
بھر میں پیشہ ور بھکاریوں کی ایک بہت بڑی تعداد مختلف طریقوں سے بھیک مانگ
رہی ہے ۔۔۔۔کوئی اپنے آپ کو مسافر ظاہر کرتا ہے اور جیب کٹ جانے کی کہانی
سناتا ہے۔۔۔۔۔۔ کسی کے گردے کاآپریشن ہوتا ہے تو کسی کا بچہ بیمار۔۔۔۔ یہ
لوگ اپنے کام میں اتنے ماہر ہیں کہ جیبوں کی صفائی آرام سے کر لیتے ہیں۔۔۔۔
اس کے علاوہ شہر میں خوبرو بھکارنوں کا ایک ٹولہ بھی نظر آ رہا ہے جو
بدکاری اور فحاشی میں ملوث ہیں ۔ اس کے علاوہ گھروں میں چوریا ں ڈکیتیوں
میں بھی یہ لوگ ملوث ہیں یہ کون لوگ ہیں یہ کہاں سے آتے ہیں ان کی سرپرستی
کون کرتا ہے۔۔۔۔اس بارے کوئی کچھ نہیں جانتا کیوں کہ سب اپنے آپ میں مگن
ہیں۔۔۔۔۔ان پیشہ ور گداگروں کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں موجود اصل حق داروں
کی حق تلفی ہو رہی ہے جو اپنے سفید پوشی کے بھرم کی وجہ کسی کے آگے ہاتھ
نہیں پھیلاتے صاحب ثروت حضرات ان پیشہ ور بھکاریوں کی بجائے اپنے آس پاس
اپنے عزیزواقراب میں ان سفید پوشوں کی مددکریں اور اپنی عزت نفس کی وجہ سے
کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔۔۔۔۔یہی وہ پیشہ ور لوگ ہوتے ہیں جو دن کو
گلیوں محلوں میں بھیک مانگتے ہیں اور رات کو چوری واراتیں کرتے ہیں ۔۔۔۔اس
سلسلہ میں ارباب اختیار کو چاہیے کہ ان پیشہ ور گداگروں کا خاتمہ کرے اور
جگہ جگہ بنے ہوئے نام نہاد بلیئر ڈ و سنوکر کلبوں کو بند کرے تاکہ ہماری
نوجوان نسل نشہ جیسی لعنت سے بچ سکے ۔۔۔۔۔۔ |