لہو لہان مسلم مملکتوں پر عید کی حنائی کیا مداوائے دردِ مسلم ہوگی؟

اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے!

فی الوقت اُمتِ مسلمہ تین محاذوں پر صف آرا ہے اور اپنی غیر دانش مندانہ قیادت کے باعث زوال کی راہ پر مسلسل رواں دواں ہے: [۱]عالمی سطح پر یہود و نصاریٰ؛ برصغیر میں ہنود و بدھشٹوں کی سازشیں [۲] تمدنی و تہذیبی حملے [۳] اندرونی تفرقوں کی یورش گرچہ یہ مایوس کن تمہید ہے لیکن کبھی غفلت کے اسباب پر غور و فکر سے بیداری کی سحر طلوع ہوجایا کرتی ہے۔

قضیۂ عرب: ترک غیور قوم تھے۔ وہ اسلام کے سچے خادم اور یہود وانگریز کے دُشمن تھے۔ اسلامی اُصولوں کے پابند اور مملکتِ اسلامیہ کے خیر خواہ تھے۔ فلسطین و حجاز،شام ویمن، عراق و ایران ان کی عمل داری میں تھے۔ اُدھر یورپ و افریقہ تک ان کی سلطنت پھیلی تھی۔ جس میں امن و چین کا دور دورہ تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد ترکوں کا زوال ہوا۔ برطانیہ نے کئی صدی قبل تخریب کی تخم ریزی کی تھی، اس کا پھل ۱۹۲۴-۲۵ء میں حجاز سے ترکوں کے انخلا پر ہوا۔ معاً بعد ہی یہودیوں کی فلسطین میں مسلسل مداخلت کے نتیجے میں اسرائیل کا ناجائز قیام اسلامی مملکتوں پر ضربِ کاری تھا۔ جس کے لیے اسلامی مراکز کے سلاطین کی مجرمانہ خاموشی اور درپردہ یہود نوازی اُمتِ مسلمہ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ یہی وہ ضرب تھی جس نے عرب مملکتوں کی تاراجی کے اس دور کا آغاز کیا جو ترکوں کے تخلیہ کے بعد سب سے کرب ناک و درد انگیز تھا۔ جس کا نتیجہ آج بھی اُمتِ مسلمہ بھگت رہی ہے۔ یہود نواز مسلم حکمراں آج بھی امریکہ کی کاسہ لیسی میں مطمئن ہیں۔ ٹرمپ کا عرب دورہ در اصل اسرائیلی تحفظات کی خفیہ پالیسی کا حصہ ہے۔ اُمت کے کسی بھی حصے سے اسرائیل کی مخالفت میں کوئی تحریک اُٹھتی ہے اسے عرب حکمرانوں کے اشتراک سے دبا دیا جاتا ہے۔
داعش اور تخریب: عراق و شام ایک ناقابلِ تسخیر قوت بن کر اُبھرتے؛ جن کی رگوں میں قبلۂ اول کے تحفظ کا لہو گردش کر رہا تھا؛ اُمید تھی کہ ان سے فلسطین کی آزادی کی راہ آسان ہوتی؛لیکن ’’جعفر از بنگال-صادق از دکن‘‘ تھیوری نے اُنھیں زوال کی راہ ڈال دیا۔ ’’جعفر از عراق- صادق از شام‘‘ جیسی تمثیل اَنسب ہے؛ عراق و شام کے آستیں کے سانپوں نے امریکہ و یہودیت کا ساتھ دیا، ان کی دریوزہ گری کی۔ اندرونی معاونین تیار نہ ہوتے تو شاید امریکہ عراق و شام میں کبھی کامیاب نہ ہوتا۔راقم کا سفرِ عراق کے دوران مشاہدہ رہا ہے کہ عراقی؛ صہیونیت سے سخت نفرت کرتے ہیں اور اسلام پسند ہیں۔ اسی کے فوراً بعد اسلامی دہشت گرد گروہ کے بطور ’’داعش‘‘ کا خوف دُنیا پر طاری کیا گیا۔ حالاں کہ اس سے امریکہ دوہرے مقاصد حاصل کر رہا تھا۔ ایک طرف اسلامی نظامِ انصاف کو اسلامک ٹیررزم کے ٹائٹل سے بدنام کر رہا تھا، دوسری طرف داعش کی تمام سرگرمیاں امریکی مفاد اور اسرائیلی تحفظات میں جاری رہیں۔ کیا کبھی ایک واقعہ ایسا بھی گزرا کہ داعش نے کسی یہودی یا انگریز پر سختی کی ہو؟ ان کے تمام تر اہداف صرف مسلمان بستیاں تھیں، مسلم علاقے اور شہر تھے۔ جن علاقوں میں امریکہ غلبے کے بعد بھی قدم نہ رکھ سکا وہاں داعشی دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں۔ان کے تشدد سے خونِ مسلم ارزاں ہوا۔ ان کی حرکتوں سے اسلامی مآثر و مقابر تاراج ہوئے۔ صدیوں پرانے اسلامی تمدن کے آثار منٹوں میں ڈھا دیے گئے۔ اپنی تاریخ سے نسلوں کے رشتوں کو منقطع کرنے کی بھیانک کارروائی داعش نے کی، جس سے تاریخ کے کئی گوشے محو ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔اسی عزم تاریک کی طرف پیش قدمی تھی کہ سالِ گزشتہ ۲۹؍ رمضان کو بوقت افطار عین مسجد نبوی شریف کے مقابل بم دھماکہ کر کے یہ بتایا گیا کہ’’ ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر‘‘کے احترام کی پامالی داعش یا دھماکہ کرنے والوں کے نزدیک عام سی بات ہے۔ اور اس طرح حرم نبوی کی بے ادبی کر کے پوری اُمت کے دل زخمی کیے گئے۔

امن دشمنی کی مہم: داعش کو سرگرم رکھ کر شام و عراق کی تعمیر کو قدغن لگا دیا گیا ہے۔ تباہ حال عراق سنورنے کو تھا۔ اسے داعشی تشدد کے حوالے کر دیا گیا۔ اب کئی دہائی تک اس سے سر نہ اُٹھا سکے گا۔ تب تک اسرائیل نئے دفاعی ہتھیاروں کی تازہ کھیپ تیار کر چکا ہوگا۔ اسرائیلی ٹینک حجاز کی سرحد تک پہنچ چکے ہوں گے۔ شام ایک نئی جنگ میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ جس سے نکلنے ابھی مدت لگے گی۔ تب تک غیرت و بہادری کی نسلیں نیم جاں ہو چکی ہوں گی۔ کئی لاکھ لاشوں کی تدفین کے بعد جواں حوصلے بھی ضعف کی نذر ہو چکے ہوں گے۔ عرب کے مال دار بادشاہ زکاتوں اور خیراتوں کی مدد دے کر دُنیا کو یہ پیغام دے دیں گے کہ ہم نے شام کو سنبھلنے میں مدد دی۔ نیٹو، داعش، بشارالاسد کے تکون نے جو آگ برسانے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے اس کا مداوا ریال و درہم نہیں، بلکہ فوجی طاقت کے ذریعے شام کو کشت و خوں سے نکال کر اُمتِ مسلمہ کی محفوظ پناہ گاہ بنانا تھا۔ لیکن پست سوچ نے محض بھیک اور خیرات تک ہی مسلم مملکتوں کو تباہ حال ممالک سے مربوط سمجھ لیا۔ ہمیں پتہ ہے کہ عربوں کی اس بے غیرتی نے کل انھیں بھی یہی دن دکھانا ہے، یہودی کبھی وفادار نہیں رہے، آج اُنھیں شام کی تباہی میں حمایتی حکمرانوں کی ضرورت ہے۔ اقتدار کا نشہ دے کر بہلایا جا رہا ہے کہ اگر شام و ترکی طاقت ور ہو گئے، لیبیا سنبھل گیا، یمن ومصر فوج وسناں سے لیس ہوگئے تو تمہارے اقتدار کا آفتاب غروب ہوجائے گا۔ اس طرح سے پڑوسی مسلم مملکتوں سے ہی مسلم امارتوں کی چولیں ہلائی جا رہی ہیں۔

زخم خوردہ اور دین سے دوری! ہم پر تہذیبی حملے ہیں، تمدنی، لسانی، نسلی، فکری، اعتقادی، سماجی، معاشرتی ہر طرح کے وار کیے جا رہے ہیں۔ ان سب کے باوجود دین کے احکام کی طرف رجوع کی فکر نہیں ہے۔ یہ المیہ ہے۔ اُمتِ مسلمہ ہزاروں زخم سہہ رہی ہے لیکن اپنے دفاع کے لیے آمادہ نہیں، مملکتِ اسلامیہ کی تاراجی کا کھیل ایک کے بعد ایک روا ہے۔ ایک ملک کم زور کر کے اسے ۵۰؍ برس پیچھے کر کے دوسرے مسلم ملک کو تباہ کرنے نیٹو، اسرائیل، امریکہ کا مثلث مستعد ہو جاتا ہے۔ ہم بے حس ہیں۔ پسپائی کی عادت ہو گئی ہے۔ ضمیر مر چکے ہیں۔ یہ زخم تو شامیوں، فلسطینیوں، یمنیوں، عراقیوں و افغانیوں کو آئے ہیں، ہمیں کہاں زخم آیا، ہمارا لہو کہاں بہا! اسی بے حسی نے بہ حیثیت زندہ قوم ہماری شناخت ختم کر دی۔ پورا بدن زخمی ہے اور ہم مذموم طریقِ مسرت سے عید منا رہے ہیں۔

عید منایئے؛سادگی کے ساتھ، خوشی منائیے؛ مظلوموں کی یاد کے ساتھ، سوغاتِ مسرت بانٹئے؛ شہدائے مملکتِ اسلامیہ کی قربانیوں کی یاد سے، وہ وقت نہیں رہا جب کہ عیش کے ساماں کیے جاتے تھے۔ وہ حالات رخصت ہوئے۔ ہمارے اپنے جمہوری ملک میں ’’بھگوا توا‘‘ کی تازہ لہر اور پرانی سازش نے ہم پر زمیں تنگ کر دی ہے۔ شریعت کے احکام پر لگاتار بندش کی کوششیں ہیں۔ ہماری اذانیں، ہماری نمازیں، مسجدیں، درس گاہیں، خانقاہیں، دانش گاہیں سبھی کچھ کھٹک رہی ہیں۔ ہمارے بہت ہی کم اقلیتی تعلیمی مراکز کی اقلیتی حیثیت اس لیے ختم کرنے کی کوشش ہے کہ مسلمان تعلیم کے میدان سے دو قدم پیچھے ہٹ جائے۔

ناموسِ رسالت کا تحفظ ضروری: ایک وہ عہد تھا کہ مسلم اُمہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتی جب تک کوئی توہین رسالت کا مرتکب کیفرِ کردار کو پہنچ نہ جاتا۔آج کوئی تسلیمہ ہے، یا رُشدی یا آسو پریہار؛ سبھی آزاد ہیں، ان کی تائید میں کتنے ہی گستاخ بھگوا بطن سے پیدا ہوچکے ہیں، جن کی عملی کاوشیں صہیونیت کو پختہ کر رہی ہیں۔ اس محاذ پر ہمیں تازہ دَم ہو کر کام کرنا ہے، عظمت رسالت کے دیے طاقِ دل پر روشن کرنے ہیں۔ بچوں کو اور ’’اولاد کو سکھاؤ محبت رسول ﷺکی‘‘……یوں ہی آنے والی نسلوں کے دلوں میں تعظیم مصطفی ﷺ کا نقش جما دینا اپنا مقصد قرار دے لیں تو ہر گستاخ کی موت ہوگی، گستاخی کی فکر مرے گی اور عزت رسول ﷺ کا تحفظ بھی ہوگا اور ہم زندہ قوم کی حیثیت سے عالمی سازشوں کے مقابل باوقار طریقے سے اپنی حقانیت کے علَم نصب کر سکیں گے۔

ناموسِ رسالت مآب ﷺ میں توہین کا فتنہ عالمی سازش کا حصہ ہے؛ جس کا مظاہرہ ہندوستان میں کچھ زیادہ ہی ہو رہا ہے۔ہمیں بیک وقت علم دین و دُنیا، تحفظِ ناموسِ رسالت اور اسلامی وقار کے تحفظ کے لیے بیدار ہو کر مسرت و خوشی کی سوغات تقسیم کرنی ہے ؂
کروں تیرے نام پہ جاں فدا، نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا
دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا، کروں کیا کروروں جہاں نہیں
٭٭٭

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 255200 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.