بجلی کی بچت کے سنہری اُصول

گیما فلپائن کے شہر کیوٹ کی رہنے والی ایک چالیس سالہ خاتون ہیں۔ چند برس قبل میری اُس سے ملاقات سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بُک پر ہوئی۔ وہ دس جماعت تک پڑھی ہوئی ہیں اور چھوٹی موٹی پرائیویٹ جاب کرکے اپنے تین بچوں کی پرورش کر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں میری اُن سے بات ہو رہی تھی کہ بیچ میں موسم کاتذکر چھڑگیا۔ اُس نے بتایا کہ وہ سرد موسم کو پسند کرتی ہیں۔میں نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ اب دیکھو ، کل رات سے یہاں بارش ہو رہی ہے جس سے موسم سرد ہوگیا ہے اور میں نہایت خوش ہوں کیوں کہ میں نے گھر کے پنکھے اور ائیر کنڈیشن بند کر دیئے ہیں۔ یوں بجلی کی بچت سے اس کا ماہانہ بل کم آئے گا۔ اگرچہ وہ بجلی کے حوالے سے زیادہ معلومات نہیں رکھتی تھی لیکن میری اُن سے جتنی باتیں ہوئیں ، اُن کا خلاصہ یہ ہے۔ گیما کے مطابق بجلی اُن کے ہاں مہنگی ہے۔ اس کا ماہانہ اوسط بل ساڑھے سانچ سو پیسو یعنی تقریباًبارہ ہزار روپے آتا ہے۔ اس لئے وہ بچت کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ موسم تھوڑی سی بھی انگڑائی لے تو وہ پہلا کام بجلی کی بچت کا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر اُن کی صحت اجازت دے تو وہ کپڑے دھونے کاکام اپنے ہاتھوں سے کرتی ہے۔ اسی طرح ڈرائیر کا استعمال ضرورت پڑنے پر ناگزیر حالات میں کرتی ہے۔ مزید یہ کہ گھر سے باہر نکلتے وقت غیر ضروری الیکٹرک اور الیکٹرونکس آلات نہ صرف بند کرتی ہے بلکہ ان کا استعمال بھی نہایت احتیاط سے کرتی ہیں اور وہ اپنے مخصوص اوقات میں ٹی وی دیکھتی ہیں۔ لوڈ شیڈنگ اور بجلی چوری کے الفاظ سے اس کے کان نا آشنا تھے۔ جب کافی دیر بعد اس کو سمجھ آیا تو اس کا کہنا تھا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دن میں بلا تعطل چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کرے اور ہمارافرض بنتا ہے کہ استعمال شدہ بجلی کا بل ادا کریں۔ بجلی چوری سے متعلق اس نے یہ بھی کہا کہ بجلی کی تقسیم کا کام تقریباً درجن سے زائد نجی کمپنیوں کے پاس ہے لہٰذا اس کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی مفت یا چوری کی بجلی استعمال کرے۔ ان باتوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ فلپائن کے عوام میں بجلی کی بچت کے حوالے سے خاصا شعور پایا جاتا ہے ۔ واضح رہے کہ فلپائن میں بجلی کی پیداوار ، ترسیل اور تقسیم میں پہلے دو کام حکومت جب کہ تقسیم کا کام نجی کمپنیوں کے سپرد ہے۔ بجلی کی پیداوار کے سب سے بڑے ذرائع کوئلہ ، قدرتی گیس ،جیو تھرمل اور ہائیڈرو پراجیکٹس ہیں جن سے بالترتیب 42.8 ، 24.2 ، 13.3 اور 11.8فیصد بجلی پیدا ہو تی ہے جس کی ترسیل تین بڑے گرڈ سٹیشنوں لوزون ، وی سیس اور مینڈانوکے ذریعے ہوتی ہے۔

ہمارے ملک کی صورت حال اس سے بالکل مختلف ہے۔ہم جب چھوٹے تھے تو اس وقت سو واٹ کے بجلی کے فلپس بلب اور چند ایک پنکھے استعمال ہوتے تھے۔ جب کہ امیر گھرانوں میں ونڈو ائیر کنڈیشن ہوتے تھے۔اس وقت بجلی کی پیداوار اورطلب میں برابر ی پائی جاتی تھی۔ پھرکچھ عرصہ بعد لوڈ شیڈنگ کا جِن بوتل سے باہر نکل آیا۔ عوام نے سو واٹ کے فلپس بلبوں کی جگہ بیالیس واٹ کی ٹیوب لائٹس اور ونڈو اے سی کی جگہ سپلٹ اے سی کا استعمال شروع کر دیا تاکہ بجلی کا بل کم ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے لئے بجلی بھی بچائی جا سکے۔ لیکن گزشتہ دس برسوں میں لوڈ شیدنگ کا جِن بے قابو ہو چکا ہے، یعنی بجلی کی پیداوار اورطلب کا تناسب بگڑ گیا ہے اگرچہ ٹیوب لائٹس کی جگہ انرجی سیور بلبوں نے بھی لے لی ہے۔ درحقیقت انرجی سیور کے نام سے ہم نے ایک سو واٹ بلب کی جگہ دو ، دو اور تین ، تین انرجی سیور بلب لگا دیئے ہیں اور گھروں میں ہر کمرے کے لئے الگ الگ سپلٹ ائیر کنڈیشنرز کا استعمال شروع کردیا ہے ۔ اس کے علاوہ تن آسانی کی غرض سے لا متناہی الیکٹرک اور الیکٹرونکس کے آلات کو گھروں کی زینت بنا دیا ہے جن کے استعمال سے بجلی کی طلب میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا ہے۔ اس وقت بجلی کا شاٹ فال پانچ ہزار نو سو میگا واٹ ہے ، یعنی پیداوار اٹھار ہزار میگا واٹ اور طلب تیئس ہزار نو سو میگا واٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھا دیا گیا ہے۔ جس کا نوٹس نگران وزیراعظم جسٹس ( ر) ناصر الملک نے لے لیا اور توانائی کے شعبے کی بہتری کے لئے فوری اور جامع منصوبہ بندی مرتب کرنے کے احکامات جاری کئے۔ بریفنگ کے دوران نگران وزیر اعظم کو بتا گیا کہ 2013 ء میں بجلی کی پیداواری استعداد 18753 میگا واٹ تھی جو اَب 28704 میگا واٹ ہے۔ اگر ان اعداد و شمار کو صحیح تسلیم کیا جائے تو اس وقت ملک میں زیرو لوڈ شیڈنگ ہونی چاہیئے تھی۔ توانائی بحران کے حوالے سے کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس ٹھوس حل موجود نہیں ہے اور ہمیں اس اُمید کو بھی دل سے نکال دینا چاہیئے کہ آئندہ آنے والی حکومت اس پر قابو پالے گی۔پس عوام کوگیما کی طرح بجلی کی بچت کے سنہری اُصول اپنانا پڑیں گے جو اس بحران سے نجات کا ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

( تحریر : پروفیسر شوکت اﷲ )

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 226 Articles with 301517 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.