زندگی حرکت کا نام ہے ۔اس میں برکت کے لیے ضروری پہلو یہ
ہے کہ اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کی واضح طور پر ادائیگی یقینی بنائی
جائے۔اسلام وہ دین کامل ہے جس میں بچوں سے لے کر بوڑھوں،حشرات سے لے کر
جانوروں اور دولت کے پجاریوں سے لے کر مزدور طبقے کے حقوق و فرائض متعین
کیے گئے ہیں۔آج سے1400 سال قبل اللہ کے احکامات اور نبی کے فرمان سے جو اجر
اور اجیر درمیان تعلقات طے کیے گئے وہ رہتی دنیا کے لیے مثالی ہیں ۔ اگر
اسی بات کو جدت کے دنیا سے دیکھا جائے تو یکم مئی 1886 میں محنت کشوں نے
شکاگو میں سرمایہ کارنظام سے ٹکر لے کر دنیا میں اپنی حیثیت کو امر کر دیا۔
محنت کش جو گرمی میں پسینہ بہاتے يا اداروں میں بیٹھ کر روزآنہ یا ماہانہ
آمدنی سے گھر کی ضروریات پورا کرتے ہیں ان کی حق تلفی کی سزا اسلام اور
معاشرے دونوں میں مقرر کی گئی ہے۔ ملکی اداروں کی رپورٹ کے مطابق مزدور کی
سیکورٹی کا قانون 1969،مزدور کے بچوں کی تعلیم کا قانون 1972 اور بوڑھاپے
میں حکومت کی طرف سے مفادات کی ضمانت کا قانون 1976کے ساتھ ساتھ دیگر بہت
سے قانون موجود ہیں ۔ان سب کے ساتھ ساتھ ملازم کو صنعتی تعلقات آرڈیننس
1969 کے تحت یہ حق بھی دیا گیا ہے کہ اگر کسی صنعت میں 50 سے زیادہ مزدور
موجود ہیں تو وہ اپنی نمائندہ تنظیم بنانے حق بھی رکھتے ہیں لیکن حد افسوس
کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان قوانین کی معاشرے سے نفی ہوتی جا رہی ہے۔ اس
تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ مزدور طبقہ بہت سے ذاتی
مفادات کے حصول کے لیے اپنے رویے سے اداروں میں بدمزگی پھیلا رہا ہے جس کا
اثر صرف خود پر بلکہ اُن حضرات پر بھی پڑ رہا ہے جو امانتداری سے اپنے کام
کررہے ہیں۔ اجر اور اجیر کے باہمی تعلق کا دوستانہ فروغ تبھی ممکن ہیں جب
دونوں کارکنان اپنے حقوق اور فرائض کا علم رکھنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل
بھی کریں پاکستان کی معاشی،اقتصادی اور ثقافتی ترقی کا راز چھپا ہے۔ |