بیٹی اپنے گھر کو چلی۔۔ایک لمحہ افتخار کا
(Haseeb Ejaz Aashir, Lahore)
تحریر: حسیب اعجاز عاشرؔ چند روز قبل خامشی کے پردے میں دل پر ایک بوجھ سا محسوس ہوا، جیسے کوئی انجانی کسک سینے میں کروٹیں لینے لگی ہو۔ معلوم ہوا کہ میرے عزیز دوست، افتخار بھائی کی نورِ نظر، ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک، ان کے دل کا سکون، ان کی بیٹی کی رخصتی ہو چکی ہے۔آہ! کیسا لمحہ ہوگا وہ جب افتخار بھائی نے اپنی کلی کو کسی اور گلشن کی امانت بنا کر وداع کیا ہوگا۔ میں وہاں نہ تھا۔۔تبلیغ کے سفر میں تھا۔۔لیکن دل وہیں بھٹکتا رہا، اُس دہلیز پر جہاں ایک باپ اپنی بیٹی کو دعاؤں کے آنچل میں لپیٹ کر رخصت کرتا ہے۔ بیٹی۔۔خدا کی رحمت،جوبابل کے آنگن کی رونق،محفل کی خوشبو، وقتوں کی دعا،دعاؤں کی قبولیت کا وسیلہ اورخوابوں کی تعبیر تھی۔۔ کل وہ پرائی ہو گئی۔ افتخار بھائی نے اپنی عمر بھر کی پائی پائی جوڑ کر، راتوں کی نیندیں قربان کر کے، خوابوں کے محل بنائے ہوں گے، صرف اس دن کے لیے۔ وہ دن کہ جب بابل کی دہلیز سے بیٹی پالکی میں بیٹھتی ہے، اور پیچھے ایک دل ٹوٹ کر بکھرتا ہے۔ کیا آنکھیں خشک رہتی ہیں ایسے لمحے میں؟ نہیں۔۔! وہ لمحہ تو باپ کی پوری زندگی کا نچوڑ ہوتا ہے۔ ایک گھر ویران ہو جاتا ہے، اور ایک نیا آنگن آباد ہوجاتا ہے۔ یہ قدرت کا اٹل قانون ہے۔ لیکن بابل کے دل پر جو ویرانی اترتی ہے، اس کا مداوا کوئی نہیں۔ باپ کے سینے میں ایک گونجی ہوئی دعا رہ جاتی ہے، جس کی بازگشت بیٹی کے قدموں کے ساتھ نئی دہلیز تک چلتی ہے۔مگر اس حسین دن میں ایک خلش ایسی بھی تھی جو افتخار بھائی کے دل میں جیسے کوئی چبھن، کوئی درد بن کر رہ گئی ہو۔ فون پر ان کی آواز میں وہ مانوس شگفتگی نہ تھی، جو برسوں سے دل کو قرار بخشتی آئی تھی۔ الفاظ کے بیچ چھپی حسرت، آواز کی لرزش، اور شکوے کا مہذب سا انداز۔۔ دل کو چیر گیا۔ وہ کہہ تو کم رہے تھے، مگر ان کے جملوں کے عقب میں بہت کچھ تھا جو بولا جا رہا تھا: ”حسیب بھائی آپ نہ آئے۔۔ وہ لمحہ آپ کے بغیر ادھورا رہ گیا۔“یہ محض ملاقات کا شکوہ نہ تھا، یہ برسوں کی دوستی،خوشی میں شرکت کی امید، اور محبت کی غیر مشروط سند کا گلہ تھا۔میں خاموش تھا۔۔ کہ میرے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔ ایک طرف رب کی راہ کا سفر تھا، اور دوسری طرف ایک دوست کی عمر بھر کی کمائی کا دن۔۔ جسے میں اپنی مصروفیت کی دیوار کے پیچھے کھو بیٹھا۔ افتخار کی بیٹی کی رخصتی میں نہ جا سکنا گویا ایک ایسا باب تھا جس میں میرے قلم کی سیاہی بھی شرمندہ ہو گئی۔ہاں یہ میری غلطی تھی کہ واٹس ایپ پر شادی کا دعوت نامہ موصول کرنے پر مطلع کرنا چاہیے تھا کہ میرے دوست میں یہاں نہ ہوں گالیکن میری دعائیں بٹیا رانی کے ساتھ ہیں۔اب بھائی افتخار کا پرشکوہ لہجہ سن کر دل چاہا کہ لمحوں کو لوٹا لوں، وقت کی زنجیروں کو توڑ دوں، اور اس محفل میں اپنے ہونے کی گواہی دے سکوں۔۔ مگر اب صرف دل کی ندامت ہے، اور افتخار کی خاموشی میں چھپا وہ درد۔۔ جو شاید تاعمر میری دوستی کا ماتم کرتا رہے گا۔افتخار بھائی میں معذرت خواہ ہوں۔ اور پھر یہ دکھ اور گہرا ہو گیا جب سنا کہ وہ قریبی دوست احباب جن پر بھائی افتخار اپنی بے لوث محبتیں نچھاور کرتے رہے وہ بغیر کسی عذرکے منظر سے غائب رہے۔۔۔نہ اُن کے قدموں کی چاپ،نہ الفاظ کی حاضری،نہ کسی دستک کا نشان اور نہ مبارکباد کی کی خوشبو۔۔۔۔۔۔ ایسی بے نیازی کہ گویا یہ لمحہ ان کے دل کی فہرست میں کوئی مقام ہی نہ رکھتا ہو۔ کیا دوستی صرف محفلوں میں مسکراہٹ بانٹنے اورمیلوں کے موسم کی ہمراہی کا نام ہے؟ یا اصل وفا وہ ہے جو خوشی اور دکھ، ہر دو موقع پر ساتھ نبھانے کا تقاضا کرے؟افسوس! آج زمانہ کس کروٹ جا بیٹھا ہے کہ تعلقات کی وہ مٹھاس، جو کبھی دلوں میں چراغاں کرتی تھی، اب مصلحتوں کی گرد میں دھندلا سی گئی ہے۔ سوچنا ہوگا کہ تعلقات صرف زبانی دعوے نہیں ہوتے، بلکہ وقت پر نبھائی جانے والی ذمہ داریاں ہی اصل تعلق کی پہچان ہیں۔بھائی افتخار کا دل زخمی ہوا ہے، لیکن یہ زخم ہمیں سکھا گیا ہے کہ دوستی، رشتہ، تعلق۔۔یہ سب وہ پودے ہیں جنہیں وقت پر رابطے،تعلق، اخلاص اور قربانی کے پانی سے سینچا جائے تو بہتر ہے ورنہ وہ مرجھا جاتے ہیں، اور جب پلٹ کر دیکھو۔۔ تو صرف پچھتاوا رہ جاتا ہے۔ میرے ویر،میرے دوست میرے محسن میں دیر سے سہی، پر دل سے شریک ہوں۔وہ خوشی آپ کی تھی، لیکن آنکھیں میری بھی نم ہیں۔شادی آپ کی بیٹی کی تھی، لیکن بیٹیاں تو پھرسانجھی ہوتی ہیں نا۔میں آپ کے جذبات سمجھ سکتا ہوں آپ اپنے دل کا ٹکڑا دنیا کو سونپ کر رات کے اندھیرے میں دل کو بہلانے کیلئے بیٹی کا خالی کمرہ ضرور تکتے ہوں گے۔کبھی محفل میں کبھی تنہائی اِس کی مسکراہٹ کو یاد کر کے مسکر ا دیتے ہوں گے اور اُس چاند سی پری کی آوازوں سے گھر کے درودیوار سے سن کر روبھی دیتے ہوں گے۔ بس رب کریم سے دعا ہے کہ اللہ اس چاند سی بیٹی کو خوشیوں بھرا نصیب عطا کرے، اور آپ کو عمر بھر کی محنت اور قربانی کا بہترین صلہ دے۔
|