آج کل پاکستان کے تمام گلی کوچے سیاسی اکھاڑوں کی منظر
کشی کرتے نظر آتے ہیں، تمام چھوٹے بڑے ماہر سیاسی کھلاڑی اور تمام محلہ
میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ باپ بیٹے، بھائی ،بہن اپنے برسوں کے
رشتوں ناطوں کا لحاظ کئیے بغیر ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
پیشہ ور سیاسی مداری ایک مرتبہ پھر عوام الناس کو اپنے جوش خطابت اور مکر و
فریب کے چھری کانٹوں سے ماہر قصاب کی مانند تکہ بوٹی کرنے کو تلے ہوئے ہیں۔
کچھ مداری پاکستانی جمہوریت کی بقا کا واسطہ دے رہے ہیں تو کچھ نظریاتی
سیاست کا وہیں چند منچلے تبدیلی کا نعرہِ مستانہ بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ اس
تبدیلی سے مجھے اس ناگزیر چیز کا خیال آیا جس کے بغیر پاکستانی جمہوریت بن
شکر کھیر کی مانند ہے، جی ہاں میں آپ سب کے ہر دلعزیز لوٹوں کی ہی بات کر
رہا ہوں۔
آج کل ہر نیا دن اک تبدیلی کے ساتھ طلوع ہوتا ہے, شاطرسیاسی مداری بیدار
ہونے پر دیکھتے ہیں کہ ان کے پہلو میں کوئی چیز پڑی آنکھیں پٹپٹا رہی ہے,
پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت ضمیر ہیں. اپنے بیدار ہو چکے ضمیر کو
انگلی سے لگائے وہ مداری کسی پارٹی کی جاری پریس کانفرس میں آتے ہیں اور
خود کو اپنے بیدار ضمیر ،نئے رنگ و روپ کے ہمراہ نمائش کے لیے پیش کرتے ہیں
اور تبدیلی کی میٹھی گولیاں بانٹتے نظر آتے ہیں۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی کچھ عرصہ قبل ایک سابق صدر اور قابل احترام آرمی
چیف صاحب یہ خلاصہ کرتے پائے گئے کہ پاکستانی سیاست میں وفا داریاں تبدیل
کرنا اتنا ہی اہم ہے جتنا کسی بھی غسل خانے کا اک مقررہ وقت کے بعد لوٹا
تبدیل کرنا اور لوٹوں کا وجود پاکستانی سیاست کے لئیے نا گزیر ہے۔
میرے بہت سے تازہ تازہ نوجوان بھائی، بہن شاید لوٹا لفظ پہلی بار سن رہے
ہوں، کیونکہ ان کا واسطہ تو زیادہ تر شاورز سے ہی رہتا ہے۔ بتاتا چلوں لوٹا
ایک بیضوی شکل کا ایسا برتن ہے جس سے پانی باآسانی گرتا ہے اور لوٹا مختلف
ہاتھوں میں رہنے کے باوجود اپنی افادیت بر قرار رکھتا ہے، اب آتے ہیں لوٹا
کریسی کی جانب پاکستان کو یہ تحفہ تو شاید تقسیم کے وقت ہی موصول ہو چکا
تھا لیکن اس کا با ضابطہ استعمال شاید 80 اور 90 کی دہائیوں میں کیا گیا۔
آپ سب کو 90 کا چھانگا مانگا تو ضرور یاد ہوگا، آج تاریخ میں وہ چھوٹا سا
بے نام قصبہ اسی لوٹا کریسی کے باعث امر ہو چکا ہے۔
ہر الیکشن سے پہلے لوٹا کریسی کا با زار سجا یا جاتا ہے، لوٹوں کو اچھی طرح
چمکا دمکا کر نمائش کے لئیے پیش کیا جاتا ہے، لوٹوں کی بولیاں لگتی ہیں اور
حسب روایت سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو لوٹا تھما دیا جاتا ہے۔ یہ قصہ
آج کا نہیں 90،96،2002،2007،2013 کے الیکشن امیدواران کی تاریخ ملاحظہ
کریں، آپ کو چند مانوس چہرے ہر الیکشن میں ایک نئی پہچان کے ساتھ نظر آئیں
گے اور عوام انہی لوگوں کو بار بار نئی پہچان کے ہمراہ قبول کرتی ہے،
جمہوریت کا یہ خاصہ شاید پاکستان میں ہی دیکھنے کو ملے دیگر ممالک اس دوڑ
میں پاکستان کا مقابلہ نہ کر پائیں۔ میں محترم جنرل صاحب کی دور اندیشی کی
داد دوں گا جنھوں نے بڑے سادہ الفاظ میں اس تبدیلی کو ناگزیر قرار دیا۔
ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے 25 سال بعد بلآخر بیچارے اصغر
خان صاحب کی پٹیشن کو شرف سنوائی بخشا اور اس لوٹا کریسی میں لفافوں کے
کردار کو بے نقاب کیا، مگر افسوس آج بھی لفافے بنٹ رہے ہیں آج بھی لوٹے بک
رہے ہیں۔ آج بھی مختلف پارٹیاں کھسیانی بلی کی مانند لوٹوں کے وجود کا
کھمبا نوچ رہی ہیں اور غریب عوام سوائے نئے جوتوں کے لئیے اپنا سر پیش کرنے
کے اور کچھ نہیں کر پا رہی۔
اس نفسا نفسی کے عالم میں آج بھی عام آدمی اپنے حق کے لئیے آواز اٹھانے کی
بجائے ، کسی لوٹے کے بینر اٹھانے کو ترجیح دیتا ہے۔ بحیثیت قوم ہمیں یہ
سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ آخر کیوں یہ قوم بار بار بے وقوف بننے کے باوجود
اب تک اپنی منزل کا تعین نہیں کر پائی، ہر بار کوئی سیاسی شعبدہ باز کیسے
ان کے ووٹ چرا کر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہو جاتاہے اور ان کا خون چوستا
ہے شاید یہ وہ علت ہے جو اب ہماری عادت بن چکی ہے ہم چاہ کر بھی اس سے
پیچھا نہیں چھڑا پائے۔
بقول شاعر
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
پاکستان پائندہ باد! !!!!! |