پمپر یاڈائپر آج کل کی روزمرہ زندگی میں بہت زیادہ
استعمال کیا جاتا ہے اور اگر آپ گندگی کے کسی بھی ڈھیر پر نظر ڈالیں تو اس
میں زیادہ تر بچوں کے استعمال شدہ پمپر یا ڈائپر ہی نظر آئینگے یہ
ماحولیاتی آلودگی کا بڑا سبب بھی ہے لیکن ہم الحمد اللہ دنیا کے ان ممالک
میں شامل جہاں پر ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں سوچنا بھی گناہ سمجھا جاتا
ہے . خیبر پختونخوا میں حال ہی میں تبدیلی کی آڑ میں پانچ سال تک صوبے پر
حکومت کرنے والوں کی ماحول سے پیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ
گذشتہ پانچ سالوں میں وزیر ماحولیات نے ماحول کے حوالے سے کسی بھی اجلاس
میں شرکت نہیں. یہ الگ بات کہ ٹھپہ ان پر وزیر ماحولیات کا تھا اور فنڈز
بھی ماشاء اللہ ملتے رہے..خیر..باتیں کہیں اور نکل گئی..بچوں کے استعمال کے
پمپر یا ڈائپرہماری روزمرہ زندگی کیساتھ ہر شعبہ زندگی میں داخل ہوگئے ہیں
اس معاشرے میں رہتے ہوئے ہم دوسروں سے اپنا گند چھپانے کیلئے پمپروالی
زندگی گزاررہے ہیں.
ستر کی دہائی میں یورپ اور نوے کی دہائی میں پاکستان میں متعارف ہونیوالا
پمپر/ یا ڈائپر صرف بچوں کے استعمال کا نہیں رہا بلکہ اب توماشاء اللہ ہر
سیاسی پارٹی ان کے لیڈر اور کارکن اسی طرح لاتعداد سرکاری محکمے اپنے گند
کو چھپانے کی بھرپور کوشش کرتے رہتے ہیں یہ الگ بات کہ بعض اوقات انہیں
چھپانے کی چکر میں یہ پمپر پھٹ جاتا ہے اور گندگی بکھر بھی جاتی ہیں جس سے
نہ صرف گند کو صاف کرنے والا گندا بلکہ اس کے بدبو کے باعث پورا ماحول
متاثر ہو جاتا ہے.
ویسے نوے کی دہائی سے قبل پیدا ہونیوالے بچے بھی خوش قسمت تھے میں خود بھی
ان خوش قسمتوں میں شامل ہوں . کیونکہ ان بچوں کے والدین کو پتہ ہوتا تھا کہ
ان کے بچے کی ضرورت کیا ہے کب اسے باتھ روم لیکر جانا ہے . بچے کے پیٹ میں
درد کیوں ہے اور اگر باہر لیکر جانا ہے تو پہلے سے باتھ روم میں جا کر
صفائی کرکے لے جانا کہ کہیں راستے میں " پوٹی"نہ کرے. بچے بھی خوش قسمت تھے
کہ مائیں بچوں کا خیال کرتی تھی اور مائیں بھی خوش قسمت کہ بچے کو "پوٹی "
کی ضرورت پڑتی تو مخصوص اشارے یارونے کی انداز سے پتہ چلتا کہ بچے کی ضرورت
اس وقت کیا ہے.اچھا بھلا وقت گزر رہا تھا لیکن پھر..
پمپر یا ڈائپر کا زمانہ آگیا.بچے بھی نازک ہوگئے اور مائیں بھی نازک ہوگئیں
چونکہ ماں کے پاس بچے کیلئے وقت نہیں کہ دیکھ سکے کہ بچے کو کس وقت باتھ
روم لیکر جانا ہے اور کب اس کی "پوٹی"کا وقت ہے اور کیوں اس کے پیٹ میں درد
ہے کیونکہ اس نے اپنی سہولت کیلئے بچے کو پمپر یا ڈائپر پہنانا شروع کردیا
ہے بس صبح ڈائپر لگا دیا اور شام تک بچے ڈائپر یا پمپر لگائے پھرتے رہتے
ہیں. بچے کی ماں کو پتہ ہی نہیں کہ بچے نے کتنی مرتبہ ڈائپر یا پمپر میں "
پوٹی " کی ہے اور اب تو ماشاء اللہ میڈیا کا دور ہے ٹی وی میں باقاعدہ
دکھایا جاتا ہے کہ بچے کا پمپر / ڈائپر کتنا محفوظ ہے اور کتنی گندگی کو
برداشت کرسکتا ہے تو مائیں بچوں کو ڈائپر پہنا کر بھول جاتی ہیں اور بچہ
"پوٹی" پمپر میں لٹکائے پھر رہا ہے کسی کو احساس ہی نہیں. زیادہ سے زیادہ
بچوں کے کولہے پر ریشنل ہی آتے ہیں جس کیلئے کریم بھی مارکیٹ میں آگئی ہے
دوسری طرف بچے بھی ماں کیساتھ الفت کا اظہار نہیں کرتے . کیونکہ ماں کے پاس
اتنا وقت نہیں. کہ بچے کی پوٹی صاف کرے اس کے دکھ و درد کو سمجھیں . بس
پمپر/ ڈائپر نے کام آسان کردیا ہے.ہاں ماں کے پاس موبائل فون پر چیٹ کیلئے
وقت ہے چہرے پرسرخی پاؤڈر لگانے کیلئے وقت ہے لیکن اپنے بچے کی صفائی کیلئے
وقت نہیں..خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ ہے لیکن اس عمل نے ماں اور بچے کے
مابین تعلق کو کتنا کمزور کردیا ہے اپنے ارد گرد / خاندان میں نظر دوڑائیں.
ہمارے بچے کتنے کمزور ہوگئے ہیں ان کا مدافعتی نظام کتنا کام کررہا ہے.
بس یہی نظام اب ہماری سیاسی پارٹیوں میں بھی چل رہا ہے کسی بھی سیاسی پارٹی
کا لیڈر اگر " پوٹی "کردیتا ہے تو پھر اس کے کارکن اور دوسرے رہنما اسے
پمپر/یا ڈائپر پہنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں آپ نے دیکھا ہوگا کہ کبھی
کبھار بچے کاڈائپر پھٹ جاتا ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ماں بچے کو گود
میں اٹھا کر ایسی جگہ پہنچ جاتی ہیں جہاں پر مہمان بھی ہوتے ہیں یا پھر
بازار میں اور ڈائپر پھٹنے کی صورت میں نہ صرف بدبو پھیل جاتی ہے بلکہ کپڑے
بھی ماں اور بچے کی گندے ہو جاتے ہیں . اور پھر کمزور چونکہ بچہ ہی ہوتا ہے
اس لئے پشتومثل کے بقول " پانی ہمیشہ کمزور سائیڈ پر ہی آتا ہے" یعنی پھر
بچے کی شامت آتی ہے حالانکہ غلطی ماں کی ہوتی ہیں. بالکل اسی طرح سیاسی
پارٹیوں میں لیڈروں کی گند کو چھپانے کیلئے پمپر /ڈائرپر پہنانے کی کوشش کی
جاتی ہیں اور پھر ایسی جگہ پر پمپریا ڈائپر پھٹ جاتا ہے جہاں پریہ لوگ منہ
دکھانے کے قابل بھی نہیں رہتے.تقریبا اسی طرح کی صورتحال پورے ملک کی سیاسی
پارٹیوں کی ہے . بھائی اگر آپ لوگوں نے گند ہی کیا ہے تو پہلے اسے صاف کریں
اور پھر روزمرہ کی زندگی گزار یں لیکن نہیں ہمیں مصنوعی زندگی نے اتنا بے
حال کیا ہے کہ ہم اپنا گندپمپروں سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں. اور اس عمل
میں نہ صرف سیاسی پارٹیاں الحمد اللہ بہت تیز ہیں بلکہ اب تو ماشاء اللہ
مذہبی پارٹیاں بھی اپنے گند کو پمپر/ ڈائپر کے تعاون سے چھپانے کی کوشش
کرتی ہیں.
اب تو ماشاء اللہ ہم لوگی یعنی پاکستانی قوم پمپرڈ کے استعمال کی اتنی عادی
ہوگئی ہیں کہ اپنے گند کو چھپانے اور " پوٹی"کو "مٹھائی " ثابت کرنے کیلئے
لوگوں نے " پی آر او" تعینات کردئیے ہیں اس عمل میں سیاسی پارٹیوں اور
مختلف اداروں کے تنخواہ دار ملازمین بھی شامل ہیں جنہیں اس رقم کی تنخواہ
ملتی ہیں کہ ہمارے ادارے /پارٹی کے گند کو پمپرڈ پہنایاکرو. اور توراب جز
وقتی صحافی بھی اس کام میں لگ گئے ہیں ایسے ایسے نادر صحافی ہم نے زندگی
میں دیکھ لئے جورقم کے عوض ایسی ایسی لاجک دیکر پوٹی کو مٹھائی ثابت کرنے
کی کوشش کرتے ہیں کہ لگتا یہی ہے کہ یہ صاحبان کسی زمانے میں یہ پوٹی میرا
مطلب مٹھائی کھا بھی چکے ہونگے .
انتخابات کا دور دورہ ہے خدارا آنکھیں کھولئے پمپریا ڈائپر کا استعمال گھر
کی حد تک ٹھیک ہے لیکن ایسی سیاسی و مذہبی جماعتوں سے دور رہیں جو پمپریا
ڈائپر پہنا کر اپنا گند چھپانے کی کوشش کررہی ہیں ایک سے ایک بدتر ہم
پرمسلط ہورہا ہے اور یہ مملکت خداداد سودی قرضوں کی بوجھ میں جکڑا جارہا ہے
. کسی کا لحاظ /تعلق کئے بغیر اپنے ووٹ کا استعمال کیجئے کیونکہ ایک دن وہ
بھی ہے جس دن امانتوں کا پوچھا جائیگا .اس رب سے ڈرئیے جو کن اور فیکون کا
مالک ہے..
|