بسم اللہ الرحمٰنِ الرحیم
انسان کی دو فطری کمزوریاں ہیں، کچھ جاننے کی تمنا اور کچھ کرنے کی امنگ۔
ہر حال میں انسان اپنی معلومات میں افزائش اور کچھ کرنے کی اپنی استعداد
میں اضافے کا متمنی ہے۔ایک عاقل ، ہوشیار اور بیدار انسان کبھی بھی اپنی ان
دو خواہشوں سے دستبردار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم چاہے کسی بھی دین و
مذہب اور نظریے سے تعلق رکھتے ہوں باقی دنیا کے بارے میں جاننا اور اس دنیا
میں کچھ کر گزرنے کی خواہش رکھنا ہی ہماری سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ یہی
خواہش ہے جو انسان کو خلاوں میں لے کر گھوم رہی ہے ، فضاوں میں اڑا رہی ہے
اور سمندروں کی تہوں میں اتار رہی ہے۔ اگر انسان سے یہ دو خواہشیں چھین لی
جائیں تو انسان کا انسان ہونا خطرے میں پر جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ ذمہ دار اور سرکردہ افراد ہمیشہ کچھ جاننے اور کچھ کرنے کے
درپے ہوتے ہیں۔انسانی معاشرے میں انسان جدید معلومات اور نئے حالات سے
لاتعلق ہو کر نہیں رہ سکتا۔اس وقت ہمارے ارد گرد کی دنیا میں بڑی تیزی سے
سائنسی، سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ بڑی طاقتیں نت نئی
تھیوریز اور ایجادات کے ساتھ کمزور اقوام پر جدید تجربات کر رہی ہیں۔ یعنی
ہماری دنیا میں طاقتور اقوام ، کمزور اقوام کو اپنے تجربات کی بھینٹ چڑھا
رہی ہیں۔
ایک نئے مشرق وسطیٰ کا تجربہ امریکہ کو مہنگا تو پڑا لیکن اس کے نتیجے میں
چاندہ چہرہ ممالک کھنڈر بن گئے، ممالک کو کھنڈرات بنانے کا یہ سلسلہ ابھی
جاری ہے اور اس وقت امریکی ایما پر سعودی عرب کی سربراہی میں قائم ’عرب
اتحاد‘ نے یمن کی مرکزی بندرگاہ الحدیدہ پر دھاوا بول رکھا ہے۔ یہ اتنی
مصروف اور اہم بندرگاہ ہے کہ یمن کی ستر فی صد در آمدات اسی کے ذریعے ہوتی
ہیں۔ ۲۰۱۵ سے جاری اس جنگ میں یہ اب تک کا سب سے بڑا حملہ ہے۔اس حملے کو
سنہری فتح کا نام دیا گیا ہے اور اس کی ابتدا میں ہی انصار اللہ نے امارات
کے فرسٹ نیول سارجنٹ خلیفہ سیف سعید الخاطری، علی محمد راشد الحسانی،
سارجنٹ خمیس عبداللہ خمیس الزیودی اور العریف حمدان سعید العبدولی جیسے
متعدد افراد کو موت کے گھاٹ اتار کر حملہ آوروں کے دانت کھٹے کر دیے ہیں۔
اس سنہری فتح نامی حملے کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ کچھ دن پہلے
اقوام متحدہ نے برملا اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اگر الحدیدہ پر دھاوا
بولا گیا توانسانی جانوں کی خوفناک تباہی ہوگی۔بہر حال ہمیشہ کی طرح اس
مرتبہ بھی اقوامِ متحدہ کے واویلے پر کسی نے کان نہیں دھرے اور حملہ کرنے
والوں نے حملہ کر کے ایک مرتبہ پھر اقوامِ عالم کو یہ پیغام دیا ہے کہ
طاقتور اقوام کے سامنے انسانی حقوق، اقوامِ متحدہ اور انسانی زندگیوں کی
کوئی اہمیت و وقعت نہیں ہے۔
یہاں پر لمحہ فکریہ ہے ہمارے لئے کہ وہ میڈیا جو شام کے کسی علاقے میں داعش
کے درندوں کے محصور ہونے پر تو انسانی ہلاکتوں کا واویلا کرتا ہے لیکن اس
وقت الحدیدہ میں ہونے والے انسانی المیے پر چپ سادھے ہوئے ہے۔
یعنی میڈیا کے نزدیک یمن میں مارے جانے والے انسان گویا انسان ہی نہیں ہیں۔
عالمی برادری کو اس حقیقت سے نظریں نہیں چرانی چاہیے کہ الحدیدہ اس جنگ کا
آخری مرحلہ نہیں ہے، امریکہ اور سعودی عرب ایک طولانی ایجنڈے کے تحت پوری
دنیا میں سرگرمِ عمل ہیں اور دنیا بھر میں ہونے والی انسانی ہلاکتوں کے
پیچھے ان دونوں ممالک کا ہی ہاتھ ہے۔
انسانی ہمدردی کے ناتے ہی یہ ہماری اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم الحدیدہ
میں ہونے والی انسانی ہلاکتوں پر غم کا اظہار کریں اور جارحین کی مذمت
کریں۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے دیگر مناطق کی طرح الحدیدہ سے بھی
جارحین زلیل و رسوا ہو کر نکلیں گے لیکن اس جارحیت کے نتیجے میں وسیع
پیمانے پر انسانی و مالی نقصان کا احتمال ہے جس کے تدارک کے لئے عالمی
برادری کو سامنے آنا چاہیے۔
انسان کی دو فطری کمزوریاں ہیں، کچھ جاننے کی تمنا اور کچھ کرنے کی
امنگ۔الحدیدہ کے حوالے سے ہمیں زیادہ سے زیادہ حقائق کو جاننے کی کوشش کرنی
چاہیے اور الحدیدہ پر ہونے والی جارحیت کی مذمت کرنے کی جرات کرنی چاہیے۔
اگر ہم الحدیدہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور کچھ نہیں کرتے تو ہمیں یہ
جان لینا چاہیے کہ حق و باطل کے معرکے میں غیر جانبدار ہوجانا یا خاموش
ہوجانا در اصل باطل کی ہی مدد ہے۔ |