ہم اس اعتبار سے خوش نصیب ہیں کہ اﷲ تعالی نے ہمیں
ایمان کی دولت سے نوازا اور اپنے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی امت میں پیدا
فرمایا ۔ اﷲ تعالی نے ہمارے لیے بے شمار خوشیوں کا سامان بھی فرمایا ۔ نماز
پڑھتے وقت جسم کے ساتھ ساتھ ہماری روح بھی پاکیزہ ہوجاتی ہے ۔ہمارے اندر
ایک ایسا طاقتور سسٹم ڈویلپ ہوتاہے جو ہر برائی کے وقت قدموں کو روک لیتا
ہے اگر پھر بھی کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو ضمیر احساس ندامت کرتے ہوئے توبہ
کی جانب مائل ہوجاتاہے ۔ ماہ رمضان ہم مسلمانوں کے لیے تزکیہ نفس بھی ہے
اور گناہوں سے معافی کا ذریعہ بھی ۔ ایک صحابی ؓ نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا اے
اﷲ کے نبی ﷺ پچھلی امتوں کے لوگ طویل ترین عمروں کے مالک تھے ان میں سے بعض
اپنی ساری عمر ہی عبادت و اطاعت میں کھپادیتے ۔ ہماری عمریں تو بہت چھوٹی
ہیں پھر ہم عبادت گزاری اور نیکی کرنے کے عمل میں ان کا مقابلہ کیسے کرسکتے
ہیں ؟نبی کریم ﷺ نے فرمایا اﷲ تعالی نے ماہ رمضان کی جو سعادت ہمیں عطا کی
ہے جو مسلمان حقیقی روح کے مطابق روزے رکھے گا اﷲ تعالی اس کے تمام گناہوں
کو معاف فرما دے گا ۔ اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول اور دوزخ کے دروازے
بند کردیئے جاتے ۔ ماہ رمضان میں مرنے والے بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل
ہوتے ہیں ۔ اس اعتبار سے وہ لوگ خوش نصیب ہیں جنہیں ماہ رمضان میں موت نصیب
ہوتی ہے ۔(میرا ایک خالہ زاد بھائی "سہیل اختر" بھی رمضان مبارک میں اپنے
خالق حقیقی سے جا ملے ۔ یقینا وہ بھی خوش نصیبوں میں شامل ہوگا) ۔ نبی کریم
ﷺ نے فرمایا 20ویں روزے کے بعد طاق راتوں میں ایک ایسی مقدس رات " لیلہ
القدر " بھی آتی ہے جس کی جانے والی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل
قرار پاتی ہے ۔ وہ مسلمان خوش قسمت ہیں جو اﷲ تعالی کی ان عطا کردہ سہولتوں
اور رعایتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور وہ مسلمان بھائی انتہائی بدقسمت ہیں
جو نہ روزہ رکھتے ہیں اور نہ ہی نماز کے لیے مسجدوں کا رخ کرتے ہیں ۔یہاں
مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ ایک قافلہ جنگل میں سفر کررہا تھا یہ قابلہ
سفر کرتے ہوئے ایک غار میں داخل ہوا ۔اندھیرے کی وجہ سے کچھ دکھائی نہیں دے
رہا تھا لیکن چلنے والوں کے پاؤں میں کنکریاں چھبتی محسوس ہورہی تھیں کچھ
لوگوں نے وہ کنکریاں اس خیال اٹھا کر جیب میں ڈال لیں کہ پیچھے آنے والوں
کو ان سے تکلیف نہ پہنچے اور کچھ لوگوں نے یہ زحمت گوارا نہ کی ۔ غار کا
اندھیرا ختم ہواتو جیب میں ڈالی ہوئی کنکریاں پھینکنا چاہیں تو سب دیکھ کر
حیران رہ گئے کہ وہ کنکریاں نہیں بلکہ چاندی کی بنی اشرفیاں تھیں ۔جن لوگوں
نے اٹھائی تھیں وہ خوش نصیبوں میں شامل ہوئے اور جو محروم رہے وہ پیشمانی
کاشکار ۔ دنیا کی زندگی بھی کچھ ایسے ہی ہے جو نیکیاں کرلیتا ہے وہ خوش
نصیب جو خالی ہاتھ رہ جاتاہے وہ بدنصیب کہلاتا ہے ۔ کچھ لوگ یہ تصور کرکے
اپنے روزمرہ معاملات میں مشغول رہتے ہیں کہ بڑھاپا آئے گا تو نیک کام بھی
کرلیں گے لیکن ایسے نادان لوگ اس بات سے ناآشنا ہیں کہ دنیا میں آنے کی
ترتیب تو ہے ‘واپس جانے کی نہیں ۔ پہلے دادا دنیا سے رخصت ہوتاہے یا پوتا ۔اس
کا علم صرف اﷲ تعالی کو ہے ۔ بہرکیف عید الفطر ان مسلمان بھائیوں کے لیے
خوشیوں کاسامان لے کر آتی ہے جنہوں نے شدید گرمیوں اور بدترین لوڈشیڈنگ کے
باوجود روزے رکھے اور گناہوں سے بچتے رہے ۔ عید ایک خوشخبری کی مانند ہے ۔
انہیں چاہیئے کہ عید کی صبح صاف ستھرے کپڑے پہن کر اﷲ تعالی کی حمد و ثنا
کرتے ہوئے مسجدکی جانب روانہ ہوں ۔کیونکہ عید کے دن ان کو ان کے نیک عملوں
کا انعام ملنے والا ہے ۔ عید کی خوشیاں صرف اپنی ذات تک محدود کرنے کی
بجائے ہمیں ان لوگوں کی طرف ضرور دیکھنا چاہیئے جن کے پاس اتنے وسائل نہیں
کہ وہ نئے کپڑے سلوا سکیں ‘ اچھا کھانا اپنے گھر میں پکا سکیں ۔ پیشہ
ورفقیروں کو چھوڑ کر بے شمار لوگ ہمارے معاشرے میں ایسے بھی موجود ہیں جو
کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے لیکن ان کی آنکھوں میں تمام کہانی پڑھی
جاسکتی ہے ۔ یہ روزوں کی ہی بات ہے میں دکان پر سودا خرید رہا تھا بے شمار
لوگ بازار میں آجارہے تھے ۔ اچانک میں نے پیچھے موڑ کر دیکھا تو کچھ فاصلے
پر ایک پٹھان بزرگ اپنے کاندھے پر چارپائی بننے والا بان رکھے کبھی قدم
اٹھا کر آگے چلنے لگتا تو کبھی رک کر پیچھے دیکھنے لگتا ۔ وہ زبان سے کچھ
نہیں کہہ رہاتھالیکن اس کے جسمانی خدو خال کسی خدا ترس انسان کی تلاش میں
تھے ۔ اﷲ تعالی نے میرے دل میں اس کی محبت پیدا کی تو میں اس کے قریب
پہنچااور سو روپے کا نوٹ نکال کر اسے دے دیا ۔ سو روپے کا نوٹ لے کر اس کی
آنکھوں میں آنسوبہہ نکلے ۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ ہائی بلڈپریشر کا مریض ہے
۔ کبھی مزدوری ملتی توکبھی نہیں ملتی ۔ وہ روٹی کھائے یا نہ کھائے ‘بلڈ
پریشرکی گو لی روزانہ کھانی پڑتی ہے ۔ میں اپنی مالی استطاعت کے مطابق خدا
کے دیئے ہوئے رز ق سے اس کی مدد کردیاکرتاہوں ۔ یہاں بتانے کا مقصد یہ ہے
کہ صرف اپنا ہی پیٹ نہیں بھرنا چاہیئے بلکہ اپنے ارد گرد انتہائی مستحق
لوگوں کو تلاش کرکے ان کی مدد بھی کرنی چاہیئے ۔ میں ایک ایسے بزرگ کوبھی
جانتا ہوں جو دھوپ میں خونچہ لگا کر اپنا سر ٹانگوں میں چھپاکر بیٹھا ہوتا
ہے ‘ کچھ عرصہ تو میں اسے دیکھتا رہا پھر اﷲ تعالی نے توفیق دی تو میں نے
اسے ایک سائبان خرید کر دیا جس سے وہ قدرے تلملاتی ہوئی دھوپ کی شدت سے
محفوظ ہوچکا لیکن اب بھی وہ مالی مشکلات میں گھرا ہوا نظر آتا ہے ۔بہرحال
راستے میں کانچ کا ٹکڑا اٹھانا ‘ کسی معذور کی مدد کرنا ‘ پرندوں کے لیے
گھر کی چھت پر ٹھنڈا پانی اور باجرہ رکھنا ‘ کسی غریب کو عید پر نئے کپڑے
لے کر دینا ‘ کسی بھوکے انسان کو روٹی اور پیاسے کو پانی پلانا ۔یہ ایسے
عمل ہیں جن کو اﷲ تعالی بے حد پسند کرتا ہے ۔ اپنے والدین اور بزرگوں کی
عزت اور قدر کرنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے ۔ عید کی حقیقی خوشیاں ‘ کھانے
پینے کا نام نہیں بلکہ چھوٹوں سے شفقت سے اور بڑوں کی عزت و تکریم کرنا ہی
بہترین عمل قرار پاتا ہے ۔کسی نے کیا خوب کہاتھا کہ جوانی اور پیسہ کبھی
کسی کے پاس ہمیشہ نہیں ٹھہرتا۔ وہ خوش نصیب ہے جو خوشحالی میں غربت کو یاد
رکھتا ہے ‘ جو تندرستی میں بیماروں کونہیں بھولتا ‘ جوانی میں بڑھاپے کو
یاد رکھتا ہے ۔ اﷲ تعالی نے کسی انسان کو لامحدود زندگی اور اچھی صحت ہمیشہ
کے لیے عطانہیں کی ۔آج کا بچہ کل کا جوان اور آج کا جوان کل بڑھاپے کی
دہلیز پر کھڑانظر آتا ہے ۔وہ خوبصورت لوگ جو اپنے حسن پر نازاں ہوتے ہیں
چند سال بعد انہیں دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہتے ۔سدا رہنے والی ذات اﷲ
تعالی کی ہے جوہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ
ہوگا کہ یہ زندگی ایک امتحان ہے اس امتحان میں صرف وہی لوگ کامیاب ہیں جو
اپنے قدم زمین پر رکھ کر ‘ نگاہیں جھکا کر چلتے ہیں ۔ جن کی گردن میں
معمولی سا سریا بھی آگیا وہ اس طرح صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں کہ دنیا میں
ان کی موجودگی کا احساس بھی نہیں رہتا ۔بے شمار لوگ گمنام قبروں میں لیٹے
ہوئے ہیں جو خود کو زمینی خدا تصورکیا کرتے تھے ۔قصہ مختصر عید کی خوشیاں
مناتے وقت نہ صرف اﷲ تعالی کا شکر ادا کریں جس نے ماہ رمضان میں کی سعادت
عطا فرمائی بلکہ کچھ وقت نکال کر ہسپتالوں ‘ اولڈ پیپلز ہوم (جہاں رہنے
والے لا وارث بزرگ اپنے چاہنے والوں کی راہ دیکھتے ہیں ) اور قبرستانوں کا
چکر بھی لگا لینا چاہیئے ۔ وہاں بے شمار لوگ ایسے بھی وہاں نظر آئیں گے جو
پچھلے سال زندہ تھے لیکن اس سال ماہ رمضان سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو گئے
۔حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا فرمان عالی شان ہے کہ زندگی کے ہر دن کو آخری
تصورکرکے عبادت کرو‘ نہ جانے پھر زندگی اور عبادت کی مہلت میسر نہ آئے ۔
حقیقی مسلمان وہی ہے جو اپنی خوشیوں میں دوسروں کو بھی شامل کرے ۔یہی درس
اﷲ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے ہمیں دیا ہے اور یہی روشنی کی کرن بن کر پل
صراط میں ہمیں راستہ دکھائے گا ۔
|