اسلام ایک منظم لائحہ عمل، اجتماعی نظام حیات، ٹھوس
ومستحکم قواعد واصول اور متحدہ فلسفہ حیات پیش کرتا ہے۔ اس نظام میں
عشوائیت، من مانی، لاقانونیت، تحریف، بدعت اور افتراق وانتشارکی گنجائش
نہیں ہے۔ اس کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس کے بہت سارے معاملات بلکہ متعدد
قسم کی عبادات کا تعلق نظام شمس وقمرسے ہے ۔ایک مومن کا عقیدہ ہے کہ کائنات
میں نظام شمس وقمر اللہ کے حکم سے چل رہاہے ۔ اسی کے حکم وارادے سے ماہ
وسال اور رات ودن گردش میں ہیں۔ اس میں انسانی عمل دخل کا ذرہ برابر بھی
شائبہ نہیں ہے ۔
عبادات میں نمازوں کے اوقات، روزہ وافطار، حج وقربانی اور عیدوبقرعید کی
تعیین سورج وچاند سے ہوتی ہے اور معاملات واحکام میں حساب وکتاب ، طلاق،
عدت، حیض ونفاس وغیرہایام سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اللہ نے ان ایام کو شروع زمانے
سے بارہ مہینوں میں تقسیم کیا ہے ۔ اس تاریخ کو قمری یا ہجری تاریخ کہا
جاتا ہے ۔ اس وجہ سے مسلمانوں کے لئے جہاں ایک طرف اپنے معاملات میں قمری
تاریخ استعمال کرنے کی ضرورت ہے وہیں ہرمہینہ چاند دیکھنے کا اہتمام کرنا
چاہئے تاکہ تاریخ شمار کرنے میں سہولت ہو ۔ ماہانہ چاند دیکھنے کا سب سے
بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ محرم،رمضان ،شوال اور ذوالحجہ کا چاند دیکھنے اور
اندازہ لگانے میں بہت حد تک مدد ملے گی ۔
ہندوستان جہاں متعدد اقوام وملل اور مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں اور
مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں ان کے لئے مذہبی طورپر بیحدمشکلات کا سامنا
ہے۔یہاں پر ہم اسلام کا جنائی قانون نافذ نہیں کرسکتے کیونکہ اسلامی خلافت
یا ملوکیت قائم نہیں ہے۔ ہندوؤں کی اکثریت یا ہندوتوا کی حکومت کیوجہ سے
ہمیں عبادات کی انجام دہی اور اسلامی شعائر کی پابندی میں بھی دشواریاں
ہیں۔ مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی جاتی ہے اور خالص شرعی مسائل میں جمہوری
عدالت کا فیصلہ ماننا پڑتا ہے ۔ یہ پہلو مسلمانوں کے لئےحد درجہ افسوسناک
ہے۔ مسلمان اہل مناصب اور صاحب اثرورسوخ کی بطور خاص ذمہ داریاں بنتی ہیں
کہ مسلمانوں کے لئے مذہبی آزادی میں حائل رکاوٹوں کا ازالہ کرے جوکہ ہمارا
دستوری حق ہے۔
رویت ہلال کے ضمن ہندوستان کے اس پہلو کو ذکر کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ
ہرسال مسلمان روزہ اور عید کے مسئلہ میں شدید اختلاف کا شکار ہوتا ہے اور
مسلم سماج چاند کے نام پر تقسیم درتقسیم ہوجاتا ہے ۔ یہ منظر دیکھ اہل وطن
ہمیں طعنہ دیتے ہیں، میڈیا والے الگ مسلمانوں کو بلکہ ہلال کمیٹی اور اس کے
ذمہ داروں کو بلی کا بکرا بناتا ہے۔ رویت ہلال کے مسئلہ میں ہرسال شدت
بڑھتی ہی جارہی اور اگر کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے نہ کیا گیا تو وہ دن دور
نہیں جب چاند کی اطلاع کے لئے عدالتی فرمان کی ضرورت پڑے گی۔
میں یہ بات وثوق کے ساتھ کہہ رہاہوں کہ دوعوامل سوشل میڈیااور رویت ہلال کے
اعلان میں عشوائیت کی وجہ سے اکثررمضان میں مسلمانوں کے درمیان رویت ہلال
پر اختلاف ہوتا رہےگا۔عالموں کو برابھلاکہا جائےگا، ایک دوسرے پر الزام
تراشی ہوگی اور آپس میں تنفرکو ہوا ملےگی جو قتل وقتال کا سبب بھی بن سکتا
ہے۔ وطن کے ناگفتہ بہ حالات اور اسلام کا دہرا تقاضہ ہے کہ رویت ہلال کے
باب میں پیداہونے والے مسائل کا تدارک کرکے ان کا خاتمہ کیا جائے ۔ مجھے
تقریروتحریر کے میدان کے ان تمام شہسواروں کی عملی کارکردگی پر حیرت
واستعجاب ہے جو اتفاق واتحاد پر گھنٹوں تقریر کرتے ہیں ، لمبے لمبے مضامین
قرطاس کثیر پر ثبت کرتے ہیں اور جب اجتماعیت کا عملی ثبوت دینے کی ضرروت
پڑتی ہے تو تفرقہ پھیلاتے ہیں ۔
اس مختصر تحریر میں اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے کہ رمضان میں جب مسلمان
رویت ہلال پر مختلف فرقوں میں بٹتے ہیں تو اسکے وجوہات کیا ہیں ؟ یا اختلاف
کا مرکزی سبب کیا ہے تاکہ اس مسلمانوں میں اجتماعیت کو پروان چڑھایا جائے
اور عشوائی نظام کے مفاسد کا سد باب کیا جائے۔
میری ناقص رائے میں اس کا اصل سبب رویت ہلال کے اعلان میں مرکزیت کا فقدان
ہے ۔ کوئی بھی ٹرسٹی، ضلعی یا صوبائی ذمہ دار اپنی حد تک معلومات جمع کرکے
رویت ہلال کا فیصلہ سناکر عوام کو روزہ رکھنے یا عید منانے کا ریاستی فرماں
روا کی طرح فرمان جاری کردیتا ہے اور جس علاقہ میں رویت نہیں ہوتی وہاں کی
عوام خلجان کا شکار ہوجاتی ہےجبکہ دونوں کا مطلع ایک ہی ہوتا ہے ۔حد تو یہ
ہے کہ بغیر ممبران کمیٹی کے پاکٹ میں تنظیم رکھ کر گھومنے والے رمضان میں
ہلال کمیٹی کے نام سے رویت ہلال پر اعلان شائع کرتے ہیں یعنی وہ خود کو
کمیٹی سمجھتے ہیں اورحال یہ ہے کہ محض سنی سنائی باتوں پر اعلان کرتے ہیں
خود اس نےنہ چانددیکھنے کی زحمت گوارا کی، نہ تحقیقات کے عمل سے گزرا ہے۔
ہندوستان کے بعض صوبوں کو چھوڑ کر اکثر صوبوں کا مطلع ایک ہے ،اس کا صاف
صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ ان تمام علاقوں میں مرکزی اعتبار سے صرف ایک جگہ
سے رویت ہلال کا اعلان ہو۔رویت ہلال کا اعلان ایک اجتماعی امر ہے نہ کہ
انفرادی ۔ انفرادی معاملہ سمجھنے والے دین سے بے بہرےاور فہم وفراست سے
خالی ہیں۔
رویت ہلال پہ اختلاف کا واحد حل مرکزیت ہے ۔اگر سارے مذاہب کو یکجا کرکے
ہندمیں ایک مرکزی رویت ہلال کمیٹی بن جائے تو سب سے اچھا ہے ۔ نہ بھی بنے
تو الحمدللہ ہمارے پاس مرکزیت کے لئے مرکزی جمعیت ہے جو صوبائی ، ضلعی اور
علاقائی تمام جگہوں سے مربوط ہے ۔ مرکزی جمعیت سے رویت ہلال کے اعلان کا
طریقہ کار یہ ہوگا کہ اگر کسی علاقہ اور ضلع میں چاند نظر آئے تو علاقائی
اور ضلعی جمعیت اس خبر کی تحقیق کرےپھرصوبائی جمعیت کو اطلاع کرے ، صوبائی
جمعیت اپنے طورپر اس خبر کی تصدیق کرنے کے بعد یہ اطلاع مرکز کو بھیج دے ۔
مرکز بھی اس سلسلے میں متحرک رہے اور صوبہ، ضلع اور علاقہ سے مسلسل رابط
قائم کرے حتی کہ دیگر مسالک کی ہلال کمیٹیوں اور اداروں سے بھی جانکاری
حاصل کرے پھر مرکز کی ہلال کمیٹی ساری معلومات یکجا کرکے مرکزی طور پرملک
میں لیٹرکے ذریعہ، ٹی وی کے ذریعہ اور اخبارات کے ذریعہ پورے ملک میں رویت
ہلال کا اعلان نشر کرے ۔ یہ ہے مرکزیت اوراس کا طریق کار جس سے ہمارا
اختلاف ختم ہوگا اور لوگ رمضان میں تقسیم ہونے سے بچیں گے حتی ناگہانی
مشکلات سے بھی تحفظ فراہم ہوگا۔سعودی عرب کی مثال دنیا کے سامنے ہے۔
پاکستان میں بھی حکومتی سطح پر اعلان ہوتا ہے۔
اس بار کئی ادارے والوں نے رویت کی تصدیق کے لئے رات بھر جاگ کربڑی
جانفشانی کی ہےجو قابل تحسین ہےمگر یہ جانفشانی اپنے ادارے تک محدود تھی
۔مرکز کو اطلاع دینا کسر شان سمجھا پتہ نہیں یا اس سے رابطہ کیا گیا مگر
رابطہ نہ ہوسکا۔تاہم یہ معلوم ہوناچاہئے کہ رویت ہلال کا معاملہ پورے ملک
کا معاملہ ہے اس کا فیصلہ پورے ملک کی نمائندہ جماعت ہی کرے ۔مرکز نے بھی
تحقیقات میں سستی سے کام لیا، رویت ہلال کا معاملہ سنگین ہے اس کی تحقیق
میں ہلال کمیٹیکو رات بھر جاگنا پڑے تو جاگنا چاہئے ۔
واقعہ کریب میں مذکور ہے کہ شام میں بہت سے لوگوں نے چاند دیکھا مگر رویت
ہلال کی نسبت وہاں کے گورنر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی ،کریب
نے عبداللہ ابن عبا س سے کہا کہ کیا معاویہ کی رویت اور ان کا روزہ کافی
نہیں ہے جبکہ اہل شام نے چاند دیکھاتھا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے
ایک بار اکیلے رمضان کا چاند دیکھا تو انہوں نے خود سے روزہ رکھنے کا شہر
میں اعلان نہیں کیا بلکہ رسول اللہ ﷺ کو بتلایا پھر رسول اللہ ﷺنے لوگوں
کوروزہ رکھنے کا حکم دیا۔ ایک مرتبہ چند سواروں نے رسول اللہ ﷺ کو شوال کے
چاند کی اطلاع دی جبکہ آپ ﷺ اور اصحاب روزے سے تھے تو آپ نے روزہ توڑنے اور
اگلے دن عید منانے کا حکم دیا۔ ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ رویت ہلال کی
بناپر روزہ اور عید کا حکم مسلمانوں کے امیر یا مسلمانوں کے مرکزی ادارہ کی
جانب سے ہویعنی مرکزی شکل میں ایک جگہ سے رویت ہلال کا اعلان ہو۔
رویت ہلال پہ کچھ مزید باتوں کی جانکاری سطور ذیل میں دی جاتی ہے ۔
٭ آج کل کچھ ہلال کمیٹیاں بھی بغیر وسائل اختیار کئے اور گھروں میں بیٹھے
لوگوں کی طرف سے خبروں کا انتظار کرتی ہیں جبکہ ان کا کام ہونا چاہئے کہ
جدید وسائل کے ذریعہ ازخود چاند دیکھنے کا بہتر سے بہتر اہتمام کرے ۔ مرکزی
ہلال کمیٹی کی بڑی ذمہ داری ہے کہ اس کام کے لئے ماہرفلکیات اور جدید آلات
پر مشتمل بہتر نظام قائم کرے،ساتھ ہی ملکی پیمانے پر مختلف مناسب مقامات پر
رویت ہلال کےلئے کمیٹی تعینات کرے۔
٭ روزہ اور عید کا اعلان بصری رویت پر منحصر ہے اس لئے محض تخمین وظن ،
غیرمصدق خبریا نظام فلکیات سے چاند کی اطلاع نہیں دی جائے گی۔ ہاں یہ بات
ضرور ہے کہ نظام فلکیات نے کافی ترقی کرلی ہے ، اس کے توسط ہم پنچ وقتہ
نمازیں ادا کرتے ہیں کوئی سورج یا سایہ کو نہیں دیکھتا۔ افطار اور سحری بھی
نظام فلکیات سے معلوم وقتوں پر کرتے ہیں تو پھر رویت کے معاملہ میں بھی مدد
لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
٭ چاند اپنی گردش 29 دن ، 12 گھنٹے ،44 منٹ اور 3 سکنڈ میں پوری کرکے سورج
سے جاملتا ہے اسے قران کہتے ہیں ۔ اس وقت چاند پر سورج کی شعاع نہیں پڑتی
اس وجہ سے ہمیں چاند نظر نہیں آتا، جب چاند سورج کی مغربی جانب سے مشرقی
جانب گردش کرتا ہے تو سورج کی شعائیں اس پرپڑنے لگتی ہیں ۔نظام فلکیات میں
اسے نیومون(نیا چاند) سے تعبیر کرتے ہیں ۔فوری طورپر یہ نیاچاند بھی اس
پوزیشن میں نہیں ہوتا کہ ہم اسے دیکھ سکیں ،جب سورج سے اس کا فاصلہ بڑھ
جاتا ہے تو نظر آنے کے قابل ہوتا ہے ۔ نظام فلکیات کا ماننا ہے کہ نیومون
کے کم ازکم آٹھ گھنٹے کے بعد ہی چاند کی رویت ممکن ہے جوکہ سورج سے 4 ڈگری
کا فاصلہ ہوتاہے۔ مثلا صبح میں نیومون ہوا ہو تو آٹھ گھنٹے بعد شام میں
چاند نظر آنے کا امکان ہے اور اگر شام میں نیومون ہواہو تو پھر اس وقت چاند
نظر نہیں آئے گا۔ نظام فلکیات کے اس نظریہ کوہم مدد وسہولت کے طور پر لیں
گے نہ کہ حرف آخر کے طور پر ۔
٭ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ، جھوٹ کی اشاعت بڑھ گئی ہے ایسے میں کوئی
آڈیو یا تحریر یا خبر رویت ہلال کے باب میں براہ راست صاحب معاملہ سے رابطہ
کرکے اور اس شخص کی عدالت ودین پر اطمینان کلی کرکے ہی کوئی فیصلہ کیا
جاسکتا ہے ۔ اور ایک بات یہ بھی کہ خبر کی تحقیق اپنے علاقہ کے دفتر و
ادارہ سےہو۔ بسااوقات ہوتا یہ ہے کہ ممبئی میں بیٹھا شخص گجرات کی خبر کی
تصدیق کررہاہوتا ہے ۔
٭ چاند کے موٹا یا پتلا ہونے سےشرعی حکم پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے اور
لوگوں میں مشہور پہلی رات کا چاند موٹا نہیں ہوتا غلط ہے ۔ ایک مرتبہ صحابہ
نے بھی پہلی رات کا چاند موٹا دیکھا تھا تو کسی نے دوسری رات کا چاند کہا
اور کسی نے تیسری رات کا چاند کہا جبکہ وہ پہلی رات کا ہی چاند تھا۔ سیدنا
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمان رسول سنایا کہ اللہ تعالی نے اسے دیکھنے
کے لئے تمہارے لئے بڑا بنادیا ہے اور چاند اسی رات کا ہے جس رات تم لوگوں
نے دیکھا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں چاند کا موٹا پا قیامت کی نشانی قرار دی
گئی ہے۔
٭ کبھی ایسا ممکن ہے کہ بدلی کی وجہ سے رمضان کا چاند نہ دکھے اور شعبان
مکمل کرکے روزہ رکھنا پڑے اور 28 رمضان پر ہی شوال کا چاند نظر آئے ۔ اس کا
مطلب یہ ہواکہ بدلی کی وجہ سے پہلی رات کا چاندنظر نہیں آیاتھااور رمضان کا
ایک روزہ ہمارا چھوٹ گیااس کی قضا کریں۔ اگر کبھی ایسا ہوجائے تو کسی جماعت
کو ملامت کرنے کاکسی کوحق نہیں بنتا ۔
٭مطلع کا اختلاف تو دنیا میں موجود ہے اور اس اختلاف کو معتبر بھی مانا گیا
ہے لہذا انڈیا والے اپنے مطلع کے حساب سے روزہ رکھیں گے اور عید منائیں گے
، سعودی عرب کی رویت سے انڈیا والوں کا تعلق نہیں ہے البتہ پاکستان، بنگلہ
دیش اور نیپال کا مطلع عموما ہندوستان سے ملتا ہے پھربھی چونکہ یہ الگ الگ
اور مستقبل ممالک ہیں اس لئے اپنے یہاں کی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا سہارا
لیں ۔
٭ جو لوگ پوری دنیا میں ایک مطلع اور ایک چاند کی بات کرتے ہیں وہ نصوص،
تعامل امت اور عقل وسائنس کے خلاف ہے۔ مشرق ومغرب کے درمیان بُعدکثیر ،
شمال وجنوب کی وسعت کثیرہ ،کہیں دن تو کہیں رات، کہیں سحر تو کہیں افطار ،
اوقات کا یہ فرق ہمیں بتلاتا ہے کہ قدرت نے ہی ہم دنیا والوں کو الگ الگ
وقت دیا ہے اور سبھی اپنے اپنے نظام شمس وقمر کے حساب سے عبادات کی پابندی
کرتے ہیں ۔ یہ بات امت کے اتحاد کے خلاف نہیں ہے ۔ ہمیں دین میں اختلاف
کرکے الگ راہ نکالنے سے منع کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تم سب اللہ کے
دین پرہی مضبوطی سے قائم رہو یہی اتحاد ہے ۔
٭ تمام لوگوں کا چاند دیکھنا ضروری نہیں ہے ،رویت ہلال رمضان کے لئے ایک
عادل مسلمان اورہلال عید کی شہادت کے لئے دوعادل مسلمان کی گواہی کافی ہے
خواہ موسم ابرآلود ہو یاصاف ستھرا۔
٭ مسلم دفتروں اور مساجدومدارس میں ہجری تقویم کا اہتمام کیا جائے اور چاند
دیکھنے کا اہتمام ہلال کمیٹیوں کے علاوہ عوام بھی کرے اور مرکزی ہلال کمیٹی
کے فیصلے کو قبول کرکے اجتماعی طورپر روزہ رکھے اور عیدمنائے اور کسی قسم
کے اختلاف کو ہوا نہ دے ۔
٭ بسا اوقات ہلال کمیٹی کو نئی معلومات ملنے پر اپنا فیصلہ بدلنا پڑتا ہے
اس پر عوام کو ہنگامہ آرائی کی ضرورت نہیں ہے ،نہ فیصلہ بدلنے میں کمیٹی کو
عار ہوگرفیصلہ حق بجانب ہے۔ یہ کمیٹی کا حق ہے اور ہمارا کام بلاچوں چرااسے
تسلیم کرنا ہے۔
٭ عین ممکن ہے کہ دوسرے مسالک کے مسلمان ہماری مرکزیت تسلیم نہ کرے اس سے
ہماری مرکزیت پر کوئی حرف نہیں آتا ۔ ہم متعین کتاب وسنت ،اتباع کتاب وسنت
کے پابند ہیں یہی ہماری پہچان ہے اسی پہچان پر قائم رہیں گے۔
٭ مرکزی ہلال کمیٹی کے علاوہ کسی کو اپنے طور پر رویت کی نشریات جاری کرنے
کی اجازت نہ ہو اور جو اس کی مخالفت کرے اس کے خلاف کاروائی کی جائے تو
عشوائی نظام اور اس کے فساد سے بچاجاسکےگا ۔
اللہ تعالی امت میں اتحاد واتفاق پیدا فرمادے اور ہمیں اجتماعیت کے ساتھ
زندگی گزارنے اور دین پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین |