عاشق رسول ﷺ صوفی بشیر احمد اویسی رحمۃ اﷲ علیہ

حافظ محمد عرفان اسلام اویسی ۔۔۔۔۔صدر مدرس جامعہ اویسیہ کنز الایمان نارووال
زندگی و موت اﷲ کا امر ہے اور ان کی تخلیق کا مقصد اعمال صالحہ ہے اور وہ انسان آخرت میں کامیاب و کامران ہو گا جس نے اپنی زندگی قرآن و سنت کی روشنی میں بسر کی ۔رسول اﷲ ﷺ کی تعلیمات کو مشعل راہ بنایا ۔دنیاوی زندگی عارضی اور اخروی زندگی ہمیشہ کیلئے ہوگی ۔انسان دنیا میں ایک مسافر کی حیثیت رکھتا ہے ۔بچپن سے لیکر لڑکپن تک ،جوانی اور بڑھاپا مختلف مراحل طے کرنے کے بعد اسے اس دنیا سے رخصت ہونا پڑتا ہے اور اس کی تمام سرگرمیاں امر ربی کے تحت معطل ہو جاتی ہیں ۔اسی طرح امر ربی کے تحت عاشق رسول ﷺ صوفی بشیر احمد اویسی رحمۃ اﷲ علیہ 15رمضان المبارک بوقت افطاری دنیا فانی سے رخصت ہو گئے ۔ صوفی بشیر احمد اویسی رحمۃ اﷲ علیہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ،مذہبی سوچ کے حامل ،صوم و صلوٰۃ کے پابند ، باشرع و نیک سیرت انسان تھے ۔آپ نے 63برس عمر پائی ۔آپ نے اپنی ذاتی گرہ سے ایک کنال اراضی جامع مسجد سیدناخواجہ اویس قرنی رضی اﷲ عنہ اور جامعہ اویسیہ کنز الایمان کیلئے وقف کی ۔اس طرح آپ جامع مسجد سیدنا خواجہ اویس قرنی رضی اﷲ عنہ او رجامعہ اویسیہ کنزالایمان نارووال کے بانی بھی ٹھہرے ۔آپ کے دو صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں ہیں ۔آپ کے بڑے صاحبزادے ملک کے نامور خطیب و ادیب ،قومی اخبارات کے کالم نویس اور نارووال کی معروف مذہبی و سماجی شخصیت حضرت علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال ہیں اور آپ اسی دینی مدرسہ کے مہتمم بھی ہیں ۔اس معروف و عظیم الشان دینی درسگاہ سے سینکڑوں طلباء و طالبات حفظ و ناظرہ قرآن پاک ،ترجمہ و تفسیر القرآن کورسزکر کے تبلیغ دین کا فریضہ پورے ملک میں سر انجام دے رہے ہیں جو صوفی بشیر احمد اویسی رحمۃ اﷲ علیہ کیلئے تا قیامت صدقہ جاریہ کا سبب ہیں ۔راقم کا علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی مرکزی ناظم اعلیٰ تحریک اویسیہ پاکستان سے عرصہ 20سال سے گہرا تعلق ہے اور شب و روز آپ کے ساتھ بسر ہوتے ہیں۔جن کے والد گرامی صوفی بشیر احمد اویسی رحمۃ اﷲ علیہ ایک ملنسار ،خوش اخلاق، مخلص اور انسانیت کیلئے نفع بخش انسان تھے ۔آپ محکمہ تعلیم سے ریٹائرڈ تھے اور آپ کی حتیٰ الوسع کوشش ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ پڑھے لکھے بچے اور بچیوں کو روزگار دلایا جائے ۔ آپ نے شب و روز کوشش کر کے کئی لڑکے اور لڑکیوں کو محکمہ تعلیم میں روزگار دلایا ۔یہ ان کے جذبۂ خدمت اور انسانیت سے ہمدردی کی دلیل ہے ۔آپ کے صاحبزادے اور صاحبزادیاں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ۔آپ اپنے بڑے صاحبزادے معروف مذہبی سکالر منظور نظر بدر المشائخ حضرت علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی پر بڑا ناز کرتے تھے اور اگر کسی بھی دفتر میں کسی کام کے لئے جاتے اور کہتے میں علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی کا والد ہوں توان کی عزت افزائی بھی ہوتی اور کام بھی فوراً ہوجاتا ۔ گھر آکر کہتے کہ یہ سب میرے بیٹے کی برکت ہے ۔آپ تقریباً تین سال سے شوگر اور ہیپاٹائٹس سی کے مرض میں مبتلا تھے ۔لیکن ایک ماہ قبل آپ کی طبیعت سخت ناساز ہو گئی ۔ کوئی بھی آپ کی عیادت کیلئے آتا اور ان سے صحت کے بارے میں پوچھتا تو کہتے کہ ’’اﷲ اور رسول کا فضل ہے ‘‘۔ صاحبزادگان نے علاج معالجے کیلئے بڑی دوڑ دھوپ کی لیکن افاقہ نہ ہوا ۔حتیٰ کہ آپ نہایت کمزور ہو گئے۔آپ کئی سالوں سے عبادت و ریاضت ،ذکر و اذکار میں مصروف رہتے تھے ۔آپ عرصہ دراز سے ہر سال پیر شریف کو مرکز اویسیاں نارووال میں محفل درود پاک کا انعقاد بڑے شوق سے فرمایا کرتے تھے اور محفل میں شمولیت کرنے والوں کے لئے تبرک کا بھی خود اہتمام کیا کرتے او رکہتے تھے کہ یہ میری محفل ہے ۔درود پاک کی کثرت آپ کی زندگی کا معمول بن چکا تھا ۔ آپ ایک ہفتے میں کئی لاکھ مرتبہ درود پاک پڑھا کرتے تھے ۔ راقم کے ساتھ اکثر اوقات موٹر سائیکل پر آپ بیٹھ کر سفر پر جاتے تو راستے میں بھی درود شریف کا ورد کرتے ۔درود تاج آپ کو زبانی یاد تھا اور روزانہ کئی مرتبہ اس کو وردِ زباں رکھتے تھے۔

15رمضان المبارک افطاری سے تقریباً 15منٹ قبل اپنے صاحبزادے علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی کو کہہ رہے ہیں کہ مجھے درود تاج پڑھ کر سناؤ انہوں نے درود تاج پڑھ کر سنایا اور آپ سن کر بہت خوش ہوئے ۔آپ کے صاحبزادے ،صاحبزادیاں سب بھائی و دیگر اہلخانہ بھی وقت نزع آپ کے پاس موجود تھے ۔چند منٹوں کے بعد آپ نے اونچی آواز سے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کر دیا اور کلمہ طیبہ پڑھتے پڑھتے آپ کی روح پرواز کر گئی اور نہ ہی کوئی تکلیف ہوئی اور نہ کوئی تلخی موت محسوس ہوئی ۔کیونکہ درود پاک ایک ایسا وظیفہ ہے جس کو کرنے والا وقت نزع زیارت نبی ﷺ سے فیض یاب کیا جاتا ہے ۔ بروز جمعرات بوقت11بجے دن آپ کی نماز جنازہ کے اعلانات کئے گئے ۔آپ کے صاحبزادوں علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ، محمد عاصم بشیر اویسی نے آپ کو خود غسل دیا ۔جب آپ کا جسد خاکی گھر سے اٹھایا گیا تو کہرام مچ گیا ۔ہر آنکھ اشکبار تھی ۔آپ کی نماز جنازہ تحریک اویسیہ پاکستان کے مرکزی امیر علامہ پیر غلام رسول اویسی سجادہ نشین دربار عالیہ اویسیہ علی پور چٹھہ شریف نے پڑھائی اور نماز جنازہ کا اجتماع تاریخی تھا ۔ ملک کے نامور مشائخ اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے علاوہ ہزاروں لوگ شریک ہوئے ۔جبکہ علماء و مشائخ کا جم غفیر تھا ۔محکمہ تعلیم کے تمام بڑے آفیسران ،سیاسی و سماجی شخصیات اور صحافی برادری سے تعلق رکھنے والے احباب نے کثرت سے نماز جنازہ میں شرکت کی ۔آپ کی نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ان کو گورنمنٹ ہائی سکول نارووال کے قریب قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔صوفی بشیر احمد اویسی رحمۃ اﷲ علیہ اس لحاظ سے بڑے خوش قسمت ہیں کہ ایک تو آپ کا وصال رمضان المبارک میں ،مغفرت کے عشرہ میں اور روزہ افطاری سے چند منٹوں قبل ہوا ۔حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جو مسلمان رمضان المبارک میں فوت ہو جائے اسے اﷲ تعالیٰ بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل فرمائے گا ۔ دوسرا عشرہ بھی مغفرت والا ،وقت انتقال قبل ازافطاری جوقبولیت دعا و مغفرت کا وقت ہے تو اس حوالہ سے اُمید کی جا سکتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان تمام نسبتوں کی بدولت آپ کو جنت عطا فرمائے گا۔آپ کے بڑے صاحبزادے علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایک معروف عالم دین ہونے کی وجہ سے ان کا پورے ملک میں مضبوط نیٹ ورک ہے ۔صوفی بشیر احمد اویسی رحمۃ اﷲ علیہ کا سالانہ ختم پاک بعنوان جلسہ تقسیم اسناد 15رمضان المبارک بعد نماز عصر مرکز اویسیاں نارووال میں منعقد ہو گا جس میں مختلف علمائے کرام خطابات فرمائیں گے ۔ اور ماہ رمضان المبارک میں منعقد ہونے والے 12روزہ دورۂ تفسیر القرآن سے کامیاب ہونے والے طلباء و طالبات کو اسناد اور انعامات تقسیم کئے جائیں گے ۔
 

Peer Tabasum
About the Author: Peer Tabasum Read More Articles by Peer Tabasum: 40 Articles with 69266 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.