آہ ڈاکٹر شجاعت بخاری

ڈاکٹر شجاعت بخاری کو عید سے ایک روز قبل قتل کر دیا گیا۔ ان کا دفتر سرینگر کے لالچوک علاقہ میں پریس کالونی میں واقع ہے۔ وہ افطار کے لئے دفتر سے نکلے کار میں بیٹھتے ہی ان پر موٹر سائکل سواروں نے اندھا دھند فائرنگ کی ۔ کئی گولیاں ان کے جسم میں پیوست ہو گئیں۔ وہ اپنے دو محافظوں سمیت دم توڑ بیٹھے۔ ڈاکٹر صاحب سے سرینگر میں اس وقت سے تعلق رہا جب وہ جناب وید بھسین کے انگریزی اخبار کشمیر ٹائمز کے لئے کام کرتے تھے۔ اس دوران وہ بھارتی اخبار دی ہندو سے منسلک ہو گئے۔ ان دنوں کشمیر ٹائمز وادی میں کافی مقبول تھا۔ ابھی وادی کے انگریزی روزنامے اس طرح اپنی ساکھ قائم نہ کر سکے تھے۔ کشمیر ٹائمز جموں سے شائع ہوتا تھا۔ وادی میں وہ بھارتی اخبارات کے ساتھ دوپہر کو پہنچتا تھا۔ مگر قارئین اس کا انتظار کرتے تھے۔ کیوں کہ اس کی ادارتی پالیسی تحریک نواز یا کشمیر نواز تھی۔ اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر شجاعت بخاری اور اور ان کے رفقاء نے بھی اسے شہرت یافتہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جس طرح کشمیر میں ہی نہیں بلکہ اس خطے میں بی بی سی کو جناب یوسف جمیل نے عروج بخشا۔ وہ بہت محنت کش صحافی تھے۔ میں روزنامہ الصفا سے وابستہ تھا۔ ہمارا دفتر امیرا کدل سرائے بالا میں تھا۔ اس کے قریب چٹان اور پل کی دوسری جانب عبد اﷲ نیوز ایجنسی، اس کے بعد اے ایف پی میں جناب لولی سنگھ اوعر اور مرحوم اظہار وانی کے ساتھ خوب گپ شپ رہتی۔ بعد میں پڑاؤ روزنامہ آفاق اور کشمیر ٹائمز ہوتا۔ میں گریجویشن کے دوران صحافت سے وابستہ ہوا۔ مرحوم سناء اﷲ بٹ صاحب اور صوفی غلام محمد حب سے صحافت کے حروف ابجد سیکھے۔ جناب بشیر احمد بشیر کے کارٹون دیکھ کر حالات کی عکاسی ہوتی۔ سرینگر ٹائمز اور آفتاب کی کشمیر کی صحافت میں وہی حثیت تھی جو پاکستان میں جنگ اور نوائے وقت کو تھی۔ پھر اردو اور انگریزی صحافت کا جیسے سیلاب آ گیا۔ نئے چہرے اس مین شامل ہوئے۔ نیا ٹیلنٹ سامنے آیا۔ سرینگر یونیورسٹی میں صفات کا شعبہ قائم ہونے کے بعد دھڑا دھڑ لوگ اس میں آنے لگے۔ یہ سچ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے میڈیا نے صحیح معنوں میں عوام کی نمائیدگی کی۔ مظلوم عوام کے ساتھ صحافی ہمہ تم کھڑا ہوا۔ اسے قتل کیا گیا۔ اس پر پابندی لگی، اس کا قلم اور کیمرہ توڑا گیا۔ اس کی ہڈیاں پسلیاں ایک کی گئیں۔ لیکن یہ سرپھر صحافی حق اور سچ لکھنے اور دکھانے سے کبھی باز نہ آئے۔ بلکہ انھوں نے اپنے خون سے صحافت کی عظمت اور قلم کی حرمت کو سر بلند کیا۔ ان میں ڈاکتر شجاعت بخاری کا نام بھی شامل ہے۔ کشمیری صھافی بہت مشکل حالات میں کام کر رہا ہے۔وہ ہر وقت اپنی زندگی ہاتھ میں لئے پھرتا ہے۔ لیکن وہ بے باک اور نڈر ہے۔ اسے اپنی جان سے زیادہ اس شعبہ کے تقدس کی فکر ہے۔ کشمیری صحافی بھارتی میڈیا اور انٹرنیشنل میڈٖیا سے بھی وابستہ ہے۔ جو انسانی حقوق کی پامالیوں کو نظر انداز کرنے کی تلقین بھی کرتا ہے۔ مگر کشمیری صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نظر انداز کرنے پر کبھی تیار نہ ہوا۔
 
ڈاکتر شجاعت بکاری نے اپنی نگرانی میں بیک وقت انگریزی، اردو اور کشمیری زبان مین صحافت کو عروج دیا۔ کشمیری ادب اور ثقافت کے لئے بھی خدمات سر انجام دیں۔ کشمیر سے باہر بھارت، پاکستان اور دنیا بھر میں اپنا ایک حلقہ اثر قائم کیا۔ اسلام آباد اور مظفر آباد مین ان کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ہر وقت انھہیں کشمیریوں کی بے بسی اور مظلومیت پر فکر مند پایا۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریریں اس کی عکاس ہیں۔ ان میں درد مندی اور خلوص بھی ہے۔ اسی وجہ سے وہ پاک بھارت بات چیت کی بحالی کے لئے بھی سرگرم رہے۔ ٹریک ٹو سے بھی جڑے رہے۔ ظاہر ہے کشمیر کی آواز ہی اجاگر کرتے رہے۔ اس پر ان پر تنقید بھی ہوئی۔ کسی کی نیت اور دل کے حال کون جان سکتا ہے۔ جو ظاہر ہے ، اسی کو دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ کشمیر پر کئی کانفرسیں ہوئیں۔ جن کا ڈاکتر شجاعت بکاری حصہ بنے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی متنازعہ بات بھی ان سے منسوب کی گئی ہو۔ مگر کشمیر کی عسکریت اس قدر ہوشمند اور باشعور ہے کہ وہ جائز تنقید کو راہنمائی کے طور پر سامنے رکھے۔ یا اسے اپنی اصلاح کے لئے بروئے کار لائے۔ اب پیامبر کو قتل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔ معلوم نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کس پیشہ ورانہ رقابت کا نشانہ بنے یا انہیں کس نے استعمال کیا۔ لیکن ان کے قتل کا کشمیر کو نقسان ہوا ہے۔ ایک موثر آواز سے کشمیر محروم ہو گیا ہے۔ بھارت اس قتل کا الزام بھی مجاہدین پر ڈالتا ہے۔ جب کہ مجاہدین نے اس کی مذمت بھی کی ہے اور حقائق جاننے کے لئے غیر جانبدار انکوائری کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے اس کانفرنس میں شرکت کی جس میں بندوق ڈالنے کی بات کی گئی۔ ظاہر ہے کسی کانفرنس میں ہر کوئی اپنا موقف پیش کرتا ہے۔ جیسے کہ بھارت کو بندوق ڈالنے اور جدوجہد ختم کرنے کی فکر ہے۔ کشمیری بندوق کو مسلہ کا حل نہیں بلکہ بھارت پر دباؤ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ کشمیر میں بھارتی اسلحہ کے انبار لگے ہیں۔ بھارتی فوجی ہر کشمیری پر بندوق تانے کگڑا ہے۔ کالے قوانین سے وہ معصوم عوام کا قتل عام کر رہا ہے۔ عید کے روز بھی لوگ بھارتی گولیوں کا نشانہ بنے ہیں۔ کشمیر سے بھارتی فوج کے انخلاء کا بھی ان کانفرسوں میں مطالبہ ہوتا ہے۔ حق خود ارادیت اور رائے شماری کرانے کا بھی موقف پیش ہوتا ہے۔ یہ موقف کوئی بھارتی نہیں بلکہ ڈاکٹر شجاعت بخاری جیسے لوگ ہی پیش کرتے ہیں۔ بھارتی میڈیا پر کشمیر کا کیس کشمیری صحافی انتہائی دلیری اور بے باکی سے لڑتے ہیں۔ وہ اپنی جان کی پروا کئے بغیر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کو قتل کر کے کشمیر کو ایک موثر اور توانا آواز سے محروم کر دیا گیا ہے۔ آزادی پسند اسے بھارتی کارستانی قرار دیتے ہیں۔ اس قتل سے بھارت کو ہی فائدہ ہوا ہے۔ اس کی غیر جانبدارانہ انکوائری کی ضرورت ہے۔ تا کہ سچ سب کے سامنے آ سکے اور پتہ چلے کہ بھارت کس طرح کشمیر میں اپنی رٹ کو قائم رکھنے کے لئے میڈیا کا گلہ دبا رہا ہے تا کہ اس کی نسل کشی پالیسی کے خلاف آواز دبا دی جائے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555428 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More