تحریر: صبیح الحسن،منڈی بہاولدین
بابا گِٹکو ہمارے چوک میں نجانے کب سے تھا۔ میں نے جب ہوش سنبھالا اسے میلے
سے کپڑے پہنے ہماری دکان کے تھڑے پر بیٹھے آتے جاتے لوگوں کو گھورتے پایا۔
چوک میں ایک خالی حویلی کے مالکوں نے اس پر ترس کھا کر اسے ایک کمرے میں
رہنے کی جگہ دے دی تھی۔ اس سے حویلی کی بھی حفاظت ہوتی رہتی اور بابے کو
رہنے کا ٹھکانہ بھی مل گیا۔ بال بچوں کا بھی بکھیڑا نہ تھا۔ محلے کے ایک
گھر سے 2وقت کا کھانا آ جاتا اور باقی سارا دن محلے والوں سے الجھتے گزرتا۔
مجھے بابا گٹکو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا لیکن محلے کے لوگ بابے کی ڈانٹ بھی
سن کر ہنس دیتے کیونکہ ان کے نزدیک بابا تھوڑا ذہنی طور پر کھسکا ہوا تھا۔
بابا گٹکو کی وجہ تسمیہ اس کا گٹھلیاں جمع کرنے کا شوق تھا۔ ہماری دکان کے
تھڑے پر جانی کھجور والا عرصے سے ریڑھی لگاتا تھا۔ بابے گٹکو کو محلے والے
جو کچھ رقم امداد کے طور پر دیتے رہتے وہ اس کی ٹافیاں خریدتا اور جانی کی
ریڑھی کے پاس آ بیٹھتا اور بچوں سے کہتا کہ کجھوریں کھا کر مجھے گٹھلیاں دو
اور بدلے میں ٹافیاں لے لو۔ بچوں میں یہ قصہ مشہور تھا کہ بابے کو گٹھلیاں
سونے چاندی میں بدلنے کا وظیفہ آتا تھا اور اس نے اپنا خزانہ حویلی میں دبا
رکھا تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ جب بھی بابے سے پوچھا جاتا کہ بابا
گٹھلی کا کیا کرو گے تو وہ سرد سے لہجے میں کہتا ’’سونا بناؤں گا‘‘۔ لوگ یہ
سن کر ہنستے ہوئے چلے جاتے۔
پر ایک دن صبح اٹھتے ہی خبر ملی کہ بابا نہیں رہا۔ دکھاوے کو دکھ تو ظاہر
کیا لیکن دل ہی دل میں یک گونہ سکون محسوس ہوا کہ چلو اب دکان کے سامنے ایک
میلے بھدے بابے کو تو برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔ جا کر دکان کھولی جانی سے
چند منٹ باتیں کیں اور دکان پر بیٹھ گیا۔ لیکن نگاہیں بار بار اس نکر کی
جانب مڑ رہی تھیں جہاں بابا گٹکو بیٹھا کرتا تھا۔ کچھ دیر کے بعد بابے کے
جنازے کا اعلان ہوا۔ دل تو نہیں چاہ رہا تھا پر محلے داری کی خاطر دکان بند
کی لیکن جیسے ہی تھڑے پر پاؤں رکھا زمین پیروں تلے سے کھسک گئی۔ سنبھلتا
سنبھلتا بھی دھڑام سے پکے فرش پر جا گرا۔ پاؤں اور کولہے میں درد کی اٹھتی
ٹیسوں کے درمیان اس ناہنجار شے کو تلاش کیا جس کی وجہ سے پاؤں پھسلا تو
جوتوں کے تلوے میں دو گٹھلیاں چپکی دیکھ کر سن ہو کر رہ گیا۔ آج گٹھلیاں
خریدنے والا جا چکا تھا۔
|