امام سجاد علیہ السلام کا خطبہ یا دشمن پر ایک کاری ضرب

امام سجاد علیہ السلام کا خطبہ یا دشمن پر ایک اور کاری ضرب

بحوالہ کاروان شہادت صفحہ نمبر 448 تالیف علامہ محمد علی فاضل۔ نفس المہموم ص٤٥٠ میں ہے کہ: جمعہ کے دن یزید نے اپنے ایک درباری خطیب یا دین فروش مولوی کو حکم دیا کہ منبر پر جاکر جس قدر ہو سکے علی علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کی توہین و تحقیر کرے اور شیخین و یزید کی شان میں قصیدہ خوانی کرے ،چنانچہ اس نے حکم کی تعمیل کی ۔
اس پر امام سجاد - نے یزید سے فرمایا کہ:
''مجھے بھی اجازت دی جائے تاکہ میں بھی کچھ کہوں !''
مگر یزید نے بات نہ مانی ،وہاں پر یزید کا بیٹا معاویہ موجود تھا، نے اپنے باپ سے کہا:
''اس مریض و ضعیف اور کمزور انسان کے خطبے نے کیا اثر کرنا ہے؟بولنے دیں اسے ''
یزید نے کہا :
تمہیں اس خاندان کی قابلیت اور صلاحیتوں کا علم نہیں ،ان لوگوں نے علم اور فصاحت ایک دوسرے سے ورثے میں لی ہے ،مجھے ڈر ہے کہ اس شخص کا خطبہ شہر میں فتنہ کھڑا نہ کردے اور اس کا وبال ہمارے گریبان کو آن پکڑے ۔
اس لئے یزید نے تہیہ کر لیا کہ انہیں بولنے کی اجازت نہیں دے گا ، مگر لوگوں نے اصرار کرنا شروع کردیا کہ امام کو منبر پر جاکر خطبہ دینا چاہئے۔
یزید نے کہا:
اگر یہ منبر چلا گیا تو اس وقت تک نیچے نہیں اترے گا جب تک مجھے اور خاندان ابوسفیان کو رسوا نہیں کردے گا ۔
لوگوں نے کہا:
''یہ نوجوان کیا کر لے گا ؟''
اس نے کہا:
''یہ وہ خاندان ہے جن کو گھٹی ہی علم کی دی جاتی ہے''
بہر حال لوگوں کے اصرار اور دباؤ کی وجہ سے یزید کو مجبوراً اس کی اجازت دینی پڑی ،اب امام منبر پر تشریف لے گئے ،اور خداوند عالم کی حمد وثناء کے بعد ایسا خطبہ دیا کہ تمام دنیا بے قرار ہو کر بے ساختہ رونے لگ گئی (نفس المہموم ص٤٥٠ میں ہے کہ)آپ نے فرمایا:
''اَیُّہَا النَّاسُ اُعْطِیْنَا سِتّاً وَفُضِّلْنَا بِسَبْعِ ، اُعْطِیْنَاالْعِلْمَ وَالْحِلْمَ وَالسَّمَاحَۃَ وَالْفَصَاحَۃَ وَالشُّجَاعَۃَ وَالْمُحَبَّۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤمِنِیْنَ ،وَفُضِّلْنَا بِسَبْعٍ بِاَنَّ مِنَّا النَّبِیُّ الْمُخْتَارُ مُحَمَّدٌ وَّمِنَّا الصِّدِّیْقُ وَمِنَّا الطَّیَّارُ وَمِنَّا اَسَدُ اللّٰہِ وَاَسَدُ رَسُوْلِہ وَمِنَّا سِبْطَا ہٰذِہِ الْاُمَّۃِ''
اے لوگو!خدا نے ہمیں چھ خوبیاں عطا فرمائی ہیں اور سات فضیلتوں سے نوازا ہے ،ہمیں علم ،حلم ، سخاوت ،فصاحت ، شجاعت اور مومنین کے دلوں میں محبت عطا فرمائی ہے ،اور ہمیں ان وجوہات کی بنا پر دوسروں پر فضیلت سے نوازا ہے کہ : اسلام کا عظیم الشان رسول (ص)،اس امت کا صدیق ___امیر المومنین علی علیہ السلام ___بہشت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرنے والا___جعفر طیار ___اللہ اوراس کے رسول ص کا شیر ___امیر حمزہ ___اور رسول اکرم ص کے دو بزرگوار نواسے ___حسن ص و حسین ص ___ہم ہی میں سے ہیں ۔
''مَنْ عَرَفَنِیْ فَقَدْ عَرَفَنِیْ وَمَن لَّمْ یَعْرِفْنِیْ اَنْبَأْتُہ، بِحَسَبِی وَنَسَبِی '' میرے اس مختصر سے تعارف سے جوبھی مجھے پہچان گےا سو پہچان گےا اور جس نے ابھی تک نہیں پہچانا میں اسے اپنے حسب و نسب سے متعارف کراتا ہوں تو ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
''اَیُّہَا النَّاسُ !اَنَا ابْنُ مَکَّۃَ وَمِنیٰ ،اَنَاابْنُ زَمْزَمَ وَصَفَا ،اَنَا ابْنُ مَن حَمَلَ الرُّکْنَ بِاَطْرَافِ الرِّدَآءِ ،اَنَا ابْنُ خَیْرِ مَنِ ائْتَزَرَ وَارْتَدیٰ ،اَنَاابْنُ خیرمَنِ انْتَعَلَ وَاحْتَفیٰ اَنَاابْنُ مَن حَجَّ وَلَبّٰی ،اَنَا بْنُ مَن بَّلَغَ بِہٖ جِبْرَائِیْلُ اِلٰی سِدْرَۃِ الْمُنْتَھیٰ ،اَنَاابْنُ مَنْ دَنیٰ فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنیٰ ،وَاَنَاابْنُ مَن صَلّٰی بِمَلَائِکَۃِ السَّمَآءِ اَنَاابْنُ مَن اَوْحیٰ اِلَیْہِ الْجَلِیْل مَااَوْحیٰ اِلَیْہِ الْجَلِیْل مَااَوْحیٰ ،اَنَاابْنُ مُحَمَّدِ نِ الْمُصْطَفیٰ، اَنَاابْنُ عَلِیِّ نِ الْمُرْتَضیٰ، اَنَاابْنُ مَنْ ضَرَبَ خَرَاطِیْمَ الْخَلْقِ حَتّٰی قَالُوْا لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ ''
میں مکہ ومنیٰ کا فرزند ہوں ،میں زمزم اور صفا کا فرزند ہوں ،میں اس ہستی کا فرزند ہوں جس نے اپنی ردا کے ساتھ حجر اسود کو اٹھایا اور اپنی جگہ پر نصب کیا میں سب سے بہترین طواف و سعی کرنے والے کا فرزند ہوں ،میںبہترین حج کرنے والے اور بہترین تلبیہ کہنے والے کافرزند ہوں ، میں اس نبی کا فرزند ہوں جو براق پر سوار ہوا ،میں اس رسول ص کا فرزند ہوں جسے راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی گئی ۔

میں اس کا فرزند ہوں جسے جبرائیل سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے ، اور میں اس کا فرزندہوں جو مقام ِ قاب قوسین اوا دنیٰ کی منزل تک جا پہنچا ، میں اس کا فرزند ہوں جس نے آسمان کے فرشتوں کو نماز پڑھائی میں اس کا فرزند ہوں جس کی طرف رب جلیل نے وحی فرمائی ہے ، میں محمد مصطفی کا فرزند ہوں ،میں علی مرتضیٰ کا فرزند ہوں ،میں اس کا بیٹا ہوں جس نے بڑے بڑے سرکشوں کی ناک زمین پر رگڑ ی آخر کار انہوں نے کلمہ توحید کا اقرار کیا ۔
''اَنَا ابْنُ مَنْ ضَرَبَ بَیْنَ یَدَی رَسُوْلِ اللّٰہِ بِسَیْفَیْنِ، وَطَعَنَ بِرُمْحَیْنِ ،وَھَاجَرَالْھِجْرَتَیْنِ وَبَایَعَ الْبَیْعَتَیْنِ، وَقَاتَلَ بِبَدْرٍوَّحُنَیْنٍ ، وَلَمْ یَکْفُرْ بِاللّٰہِ طَرْفِۃَ عیْنٍ ،اَنَاابْنُ صَالِحِ الْمُؤْمِنِیْنَ، وَوَارِثِ النَّبِیِّیْنَ ، وَقَامِعِ الْمُلْحِدِیْنَ ، وَیَعْسُوْبِ الْمُسْلِمِیْنَ ، وَنُوْرِالْمُجَاہِدِیْنَ ، وَزَیْنِ الْعَابِدِیْنَ ، وَتَاجِ الْبَکَّآئِیْنَ، وَاَصْبَرِالصَّابِرِیْنَ ، وَاَفْضَلِ الْقَآئِمِیْنَ ، مِنْ آلِ یٰسِیْنَ ، رَسُوْلِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ،اَنَاابْنُ الْمُؤَیَّدِ بِجِبْرَائِیْل الْمَنْصُوْرِ بِمِیْکَآئِیْلَ''
میں اس کا فرزند ہوں جس نے رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے دوتلواروں اور دو نیزوں کے ساتھ جنگ کی ، جس نے دوبار ہجرت اور دوباربےعت کی ، بدرو حنین میں کافروں کے ساتھ لڑے اور پلک جھپکنے کی دیر کے لئے خدا کے ساتھ کفر نہیں کیا۔
میں صالح المومنین کا فرزند ہوں ،میں وارث انبیاء کا فرزند ہوں ، میں ملحدین کو تباہ کرنے والے اور مومنین کے سردار کا بیٹا ہوں ، میں اس کا بیٹا ہوں جو مجاہدوں کا نور ہے ، عبادت گزاروں کی زینت ہے ،گریہ کرنے والوں کا سرتاج ہے ، سب صابروں میں سے بڑا صابر ہے ،تمام نمازیوں سے افضل ہے ، رب العالمین کے رسول ؐ ___یسین ___کی آل ؑ سے ہے ، میں اس کا فرزند ہوں کہ جبرائیل نے جس کی تائید کی ہے ، اور میکائیل نے جس کی نصرت کی ہے ۔
''اَنَاابْنُ الْمُحَامیٰ عَنْ حَرَمِ الْمُسْلِمِیْنَ ،وَقَاتَلَالْمَارِقِیْنَ وَالنَّاکِثِیْنَ وَالْقَاسِطِیْنَ، وَالْمُجَاہِدِ اَعْدَآئَہ، النَّاصِبِیْنَ ، وَافْخَرِمَن مَّشیٰ مِنْ قُرَیْشٍ اَجْمَعِیْنَ ،وَاَوَّلِ مَنْ اَجَابَ وَاسْتَجَابَ لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلِہٖ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ، وَاَوَّلِ السَّابِقِیْنَ ،وَقَاصِمِ الْمُعْتَدِیْنَ ،وَمُبِیْدِ الْمُشْرِکِیْنَ، وَسَہْمٍ مِّن مَرَامِی اللّٰہِ عَلَی الْمُنَافِقِیْنَ،وَلِسَانِ حِکْمَۃِ الْعَابِدِیْنَ ،وَنَاصِرِ دِیْنِ اللّٰہِ وَوَلِیِّ اَمْرِ اللّٰہِ وَبُسْتَانِ حِکْمَۃِ اللّٰہِ ،وَعَیْبَۃِ عِلْمِہ، سَمِحٌ، سَخِیٌّ، بَھِیٌّ،بُہْلُوْلٌ، زَکِیٌّ ، اَبْطَحِیٌّ ،رَضِیٌّ ، مِقْدَامٌ ، ھَمَّامٌ ، صَابِرٌ، صَوَّامٌ، مُھَذّبٌ، قَوَّامٌ، قَاطِعِ الْاَصْلَابِ وَمُفِرِّقِ الْاَحْزَابِ، اَرْبَطِہِمْ عِنَانًا، وَاَثْبَتِہِمْ جِنَانًا، وَاَمْضَاہُمْ عَزِیْمَۃً، وَاَشَدِّہِمْ شَکِیْمَۃً، اَسَدٌبَاسِلٌ، یَطْحَنُھُمْ فِی الْحُرُوْبِ، اِذَاازْدَلَفَتِ الْاَسِنَّۃُ،وَقَرُبَتِ الْاَعِنَّۃُ طَحْنَ الرَّحیٰ ، وَیَذْرَئُھُمْ فِیْہَا ذَرَوالرِّیْحِ الْھَشِیْمِ، لَیْثِ الْحِجَازِوَ کَبْشِ الْعِرَاقِ، مَکِیٌّ مَّدَنَیٌّ، خِیْفِیٌّ عَقَبِیٌّ، بَدَرِیٌّ اُحَدِیٌّ، شَجَرِیٌّ مُہَاجِرِیٌّ''
میں اس کا فرزند ہوں جس نے مسلمانوں کے حرم کی حفا ظت کی ، اور مارقین و ناکثین و قاسطین کے ساتھ جنگ کی اور دشمنانِ خدا کے ساتھ لڑتے رہے ۔
میں قومِ قریش کی قابلِ فخر ترین شخصیت کا فرزند ہوں ،میں اس ہستی کابیٹاہوں جس نے سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول ص کی دعوت پر لبیک کہااور نبوت کی تصدیق کی ، اس کا فرزند ہوں جو سابقین میں سب سے پہلا ہے ، اور حد سے تجاوز کرنے والوں کی کمر توڑنے والا ہے، مشرکین کو تباہ کرنے والا ہے ، میں اس کا فرزند ہوں جو منافقین کے سروں پر خدا کے برسنے والے تیروں میں سے ایک تیر ہے ، جو خدا کے عبادت گزار وں کی زبانِ حکمت ہے ، جو دینِ خدا وندی کا ناصرو مددگار ہے ، جو اللہ کے امر کا ولی ہے ، حکمتِ الٰہی کا بستان ہے ، اللہ کے علم کا حامل ہے ۔
میں اس کا فرزند ہوں جو جوانمرد اور سخی ہے ، خوبصورت ہے ، تمام خوبیوں کا مجموعہ ہے ، سید بزرگوار ہے ، بطحا کا رہنے والا ہے ، راضی برضائے الٰہی ہے ، مشکلات میں آگے بڑھنے ولا ہے ، صابر ہے ، ہمیشہ روزے سے رہنے والا ہے ، ہر آلودگی سے پاک اور بہت بڑا نمازی ہے۔
میں اس کا بیٹا ہوں جس نے دشمن کی کمر توڑ کے رکھ دی ، میں اس کا بیٹا ہوں جس نے کفر کی تمام جماعتوں کو شکست دے کر تتر بتر کردیا ، جس کا دل ثابت و استوار ، جس کا ارادہ محکم اور پائیدار ہے ، جس کا وار بہت کاری ہے ، جو شیر کی مانند شجاع ہے ، حجاز کے بیشہئ شجاعت کا شیر ہے ، عراق کے لوگوں کا سردارو رہنما ہے ، مکی ہے مدنی ہے ، خیفی اور عقبی ہے ، بدری و احدی ہے ، شجری اور مہاجر ہے ۔
''مِنَ الْعُرُبِ سَیِّدُہَا وَمِنَ الْوَغیٰ لَیْثُہَا ، وَارِثُ الْمَشْعَرَیْنِ ، وَاَبُوالسِّبْطَیْنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ، ذَاکَ جَدِّیْ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِبٍ !''
وہ عربوں میں ہو تو ان کا سردار ہوتا ہے اور میدانِ جنگ میں ہو تو شیرخدا ہو تا ہے ، خدا کے دو مشعروں ___مزدلفہ اور عرفات___کا وارث ہے ، پیغمبرص کے دو نواسوں ___حسن ع اور حسین ع ___کا والد ہے ، لوگو!یہی میرا دادا علی ص بن ابی طالب ہے ۔
پھر فرمایا:
''اَنَا ابْنُ فَاطِمَۃَ الزَّہْرَا ءِ ، اَنَا ابْنُ سَیِّدَۃِ النِّسَآءِ ''میں فاطمۃ الزہراء(ص) کا فرزند ہوں ! میںتمام عورتوں کی سردار کا فرزند ہوں ۔
اسی طرح آپ اپنا تعارف کراتے رہے یہاں تک کہ دربار میں ایک کہرام برپا ہو گےا ،لوگوں کی دھاڑیں بلند ہوہو کر یزید کے تاج و تخت اور قصر و محل پر برقِ اجل بن کر گر رہی تھیں ، یزید کو خطرہ لاحق ہو گیا کہ کہیں کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو جائے جس سے دربار میں انقلاب آجائے ،لہٰذا اس نے مؤذن کو اذان کہنے کا حکم دے دیا ، مؤذن نے اذان کہنا شروع کردی اور امام ع نے خطبہ دینا بند کردیا ۔
جب مؤذن نے کہا:
''اَللّٰہُ اَکْبَرُ ،اَللّٰہُ اَکْبَرُ ''
تو امام(ع) نے فرمایا:
''اللہ سے بالا تر کوئی چیز نہیں ،جب اس نے کہا:
''اَشْہَدُ اَن لَّآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ''
تو امام ؑ نے فرمایا:
''میرا گوشت و پوست اور خون و جلد اس بات کی گواہی دےتے ہیں کہ وہ ذات وحدہ، لاشریک ہے ۔
جب مؤذن نے کہا :
''اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ ''
توامام ع نے منبر ہی کے اوپر سے یزید کی طرف منہ کر کے فرمایا:
''مُحَمَّدٌ ھٰذَا جَدِّی اَمْ جَدُّکَ یَایَزِیْد؟'' یزید! یہ محمد (مصطفی ع)میرے نانا ہیں ےا تےرے ؟اگر تو کہتا ہے کہ تیرے نانا ہیں تو غلط کہے گا اور کافر ہو جائے گا اور اگر کہتا ہے کہ میرے نانا ہیں ،تو پھر تو نے اس کی عترت کو کیوں تہہ تیغ کیا ؟
ایک اور روایت کے مطابق جب امام ع نے :''اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدَ ارَّسُوْلُ اللّٰہ ''سنا ،تو آپ ع نے اپنا عمامہ سر سے اتار کر موذن سے فرمایا:
''تجھے اسی محمدع کی قسم ! ذرا رک جا !!''
پھر امام(ع) نے فرمایا:
''یزید !یہ محمدص تیرے نانا ہیں یا میرے ؟ اگر تو انہیں اپنا نانا بتائے گا
تو سب جانتے ہیں تو جھوٹ بول رہا ہے ،اور اگر کہے گا کہ میرے نانا ہیں اور ہے بھی ایسا ہی تو پھر مجھے بتا کہ میرے بابا کو تونے ظلم کی تلوار سے کیوں شہید کیا ہے ؟اس کے مال اور متاع کوکیوں لوٹا ہے ؟ اور اس کے اہلِ بیت ع کو کیوں قیدی بنایا ہے ؟''
یہ جملے کہے اور اپنا گریبان چاک کر کے رونے لگے اور فرمایا:
''خدا کی قسم !اس وقت پوری دنیا میں صرف میں ہی ہوں جس کے نانا رسول اسلام(ص) ہیں تو مجھے بتاؤ کہ اس شخص نے میرے والد کو بے جرم و خطا کیوں قتل کردیا ؟ کیوں ہمیں رومیوں کی مانند قیدی بنایا؟ ''
پھر آپ نے ارشاد فرمایا:
''اے یزید !اس قدر عظیم جرم کے ارتکاب کے بعد پھر بھی کہتا ہے کہ ''محمد ، اللہ کے رسول ہیں !!اور قبلہ کی طرف منہ کرتا ہے ؟'' افسوس ہے تجھ پر ،قیامت کے دن میرے نانا اور بابا تیرے دامن گیر ہوں گے تو اس وقت تو کیا جواب دے گا ؟''
یہ سن کر یزید نے مؤذن سے کہا :
''نماز کے لئے اقامت کہو!''
لوگوں میں سخت شورو غل کھڑا ہو گےا کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی ،کچھ لوگ نماز پڑھے بغیر کھسک گئے ۔
_____(نفس المہموم ص٤٥١)_____
ایک اور روایت کے مطابق حریت کے پیکر امام مظلوم سید سجا د(ع) نے اپنا تعارف یوں کرایا :
''اَنَاابْنُ الْحُسَیْنِ الْقَتِیْلِ بِکَرْبَلَاء ، اَنَاابْنُ عَلِیِّ نِ الْمُرْتَضیٰ ، اَنَاابْنُ مُحَمَّدَ نِ الْمُصْطَفیٰ ،اَنَا ابْنُ فَاطِمَۃَ الزَّہْرَآءِ ، اَنَا ابْنُ خَدِیْجَۃَ الْکُبْریٰ ،اَنَاابْنُ سِدْرَۃَ الْمُنْتَھیٰ ، اَنَا ابْنُ شَجْرَۃَ الطُّوبیٰ ''
میں کربلا کی گرم ریت پر قتل ہونے والے حسین(ع) کا فرزند ہوں ، میں علی(ع) مرتضیٰ کا بیٹا ہوں ،میں محمد مصطفی(ص) کا پیارا ہوں،میں فاطمہ زہرا ء کا راج دلارا ہوں ، میں خدیجہ الکبریٰ کا نورِ نظر ہوں ،میںسدرۃ المنتھیٰ کا بیٹا ہوں ، میں شجرہ طوبیٰ کا فرزند ہوں ،میں اس کا فرزند ہوں جسے خاک وخون میں غلطان کیا گیا ، میں اس کا فرزند ہوں جس کے غم میں جنات نے گریہ کیا، میں اس کا فرزند ہوں جس پر فضا میں پرندوں نے نوحے پڑھے اور ماتم کیا۔
امام(ع) کے خطبے کا رد عمل :
حیاۃ الام الحسین(ع) جلدس٣ ص٣٩٥ میں ہے :
جب کاروانِ حریت کے سالارِ اعظم نے اس قدر مؤثر اور بلیغ انداز میں خطبہ دیا تو حاضرینِ مسجد اس سے زبردست متاثر ہوئے ،ان میں آزادی کے جذبات بیدار ہونا شروع ہو گئے ،اور جرأت و جسارت ان کے اندر پیدا ہو گئی ،دربارِ یزید میں ایک بڑا یہودی عالم بھی موجود تھا ،اس نے پوچھا :
___:یہ جوان کو ن ہے ؟ یزید نے کہا:
___:علی بن الحسین!
___:کون حسین!
___:علی بن ابی طالب کا بیٹا!
___:اس کی ماں کو ن ہے ؟
___:محمد(ص) کی صاحبزادی
___:سبحان اللہ !یہ تو تمہارے نبی کا بیٹا ہے جسے تم نے قتل کیا ہے ؟تم کیسے برے جانشین ہو اپنے پیغمبر کے؟اگر ہمارے پیغمبر ،حضرت موسیٰ - نے اپنا کوئی فرزند ہمارے درمیان چھوڑا ہوتا تو ہم اس کا پرستش کی حد تک احترم کرتے ،جبکہ کل تمہارے پیغمبر کا انتقال ہوا ہے ، اور آج اس کے فرزند پر چڑھائی کر کے اسے قتل کردیا ہے ،لعنت ہے تم پر !!تم کیسی امتِ مسلمہ ہو ؟!
یہ سن کر یزید کو غصہ آگیا ،اس کے حکم پر اس کو دربار میں خوب پیٹا گیا ، پھر وہ کھڑا ہو کر کہنے لگا :
''اگر تم چاہتے ہو مجھے قتل کرو،تو مجھے اس کی فکر نہیں ، کیونکہ میں نے تورات میں پڑھا ہے کہ ''جو شخص اولادِ پیغمبر(ص) کو قتل کرتا ہے وہ ملعون ِ ابدی ہوتا ہے اور اس کاٹھکانہ جہنم ہے ''۔
زوجہ یزید کا ردِ عمل :
بحارالانوار ج ٤٥ ص ١٤٢ میں ہے کہ:
اس کے بعد یزید نے حکم دیا کہ امام(ع) کے مقدس سر کو محل کے دروازے پر لٹکایا جائے ،یزید کی بیوی ہند بنت عبد اللہ بن عامر نے جب یہ سنا کہ یزید نے امام مظلوم کے سر کو اس کے گھر کے دروازے پر لٹکا دیا ہے تو اس نے دربار اور محل کے درمیان لٹکائے ہوئے پردے کو پھاڑا اور بغیر مقنعہ و چادر کے دربار میں آگئی ،اس وقت یزید نے کھلی کچہری لگائی ہو ئی تھی ، اس نے یزید سے کہا :
''یزید ! تو نے فرزندِ زہرا(ع) بنت محمد ص کا سر میرے گھر کے دروازے پر لٹکادیا ہے ؟''
یہ کیفیت دیکھ کر یزید اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنی عبااس کے سر پر ڈال دی ، اور کہا:
''ہاں اب تم حسین پر گریہ و زاری کرو ،خوب آنسو بہاؤ اس لئے کہ سارے قریشی اس پر رورہے ہیں، خدا عبید اللہ ابن زیاد کو غارتکرے اس نے حسین کو قتل کرنے میں جلدبازی سے کام لیا ہے ''
یزید کی پشیمانی پر تبصرہ !
ناظرین محترم ! اس طرح کی باتیں اس امر کا سبب بنیں کہ جن کی رو سے یزید کا غرور ٹوٹ گیا اور اس کی خوشی عذر و معذرت خواہی اورمعافی تلافی میں بدل گئی ۔
ابتداء میں تو وہ اس قدر مغرور ہو گےا تھا کہ امامِ مظلوم کے مبارک لبوں اور دانتوں پر چھڑی مار مار کر خوش ہو تا تھا اور خوشی کے اشعار پڑھتا تھا ،اب وہ اس قدر بدبخت اور بے چارہ ہو چکا تھا کہ مظلوم کے قتل کی نسبت ابن زیاد کی طرف دے کر خود کو بری الذمہ قرار دینے لگ گیا۔
کتاب تذکرہ سبط ابن جوزی اور کامل ابن اثیر میں ہے کہ :
''جب امام حسین - کا سر مبارک شام لاےا گےا تو اسے دیکھ کر یزید بہت خوش ہوا ،اورابن زیاد کے اس اقدام کو سراہا اور اپنی خوشنودی کا اظہا ر کیا، اس کے لئے انعام و اکرام اور ہدئے بھیجے ،لیکن ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ اپنے اس قابلِ نفرت فعل کے بارے میں لوگوں کی نفرت اور غصے کا احساس کرنے لگ گیا اس نے خود سن اور دیکھ لیا کہ لوگ اسے گالیاں دے رہے ہیں ، لہٰذا وہ اپنے کردار اور گفتار پر اظہارِ پشیمانی کرنے لگ گیا اور کہنے لگ گیا :
''خدا ابن زیاد پر لعنت کرے اس نے حسین ؑ پر اس قدر سختی کی کہ اس نے زندگی کو موت پر ترجیح دی اور شہادت کا راستہ اختیار کیا !''
وہ یہ بھی کہتا تھا کہ :
''میں نے ابن زیاد کا کیا قصور کیا تھا کہ اس نے مجھے یہاں تک پہنچا دیا کہ لوگ مجھ سے نفرت کر رہے ہیں ؟اور ہر نیک اور بد کے دل میں میرے بارے میں نفرت کا بیج بودیا !''
_____(قمقمام زخارص٥٧٧)ّ_____
جلال الدین سیوطی (تاریخ الخلفاء ص٢٠٨ میں )کہتے ہیں :
''فَسُرَّ لِقَتْلِہِمْ اَوَّلاً ثُمَّ نَدِمَ لَمَّا مَقَّتَہُ الْمُسْلِمُوْنَ عَلیٰ ذَالِکَ وَابْغَضَہُ النَّاسُ وَحَقَّ لَہُمْ اَن یُّبْغِضُوْہُ ''
اولادِ رسول کو قتل کر کے پہلے تو وہ بہت خوش ہوا لیکن جب مسلمان اس کے اس اقدام پر ناراض ہوئے اور سخت غضبناک ہوئے تو پھر پشیمان ہو ااور اظہارِ ندامت کرنے لگا ۔
البتہ یہ ایک تاریخی ریکارڈ ہے کہ حکامِ وقت چاہے وہ سربراہا نِ مملکت ہوں،بادشاہ ہوں ، وزیراعظم ہوں یا کسی ملک کے صدر جب کوئی ایسا کارنامہ انجام دیتے ہیں ،جس سے عوامی غیظ و غضب وجود میں آجاتا ہے تو وہ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے اپنے کرتوتوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنا شروع کردیتے ہیں ۔
یزید عنید پلید کی بھی بعینہ یہی کیفےت ہے ،جب اس کے دربار میں عقےلہ بنی ہاشم زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا ،سید الساجدین امام زین العابدین - کے بصیرت افروز خطبات، امام محمد باقر - کا آنکھیں کھول دینے والامختصر مگر جامع خطاب ، اورا بوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کااحتجاج ،اس کی خود اپنی بیوی ہند بنت عبد اللہ بن عامر اور دوسرے بہت سے افرادکا احتجاج اس حد تک موثر ثابت ہوئے کہ اسے مجبوراً اپنی سیاسی حکمت عملی میں تبدیلی کرنا پر گئی ، اور اس کی ساری ذمہ داری ابن زیاد بدنہاد پر ڈالنا پڑی اور کہنا پڑا ''لَعَنَ اللّٰہُ ابْنَ مَرْجَانَۃَ اِنَّہ، قَتَلَ''خدا مرجانہ کے بیٹے پر لعنت کرے اس نے ہی نواسہ رسول (ص) کو قتل کیا ہے ۔
یہاں پر یہ فیصلہ تو بعد میں کریں گے کہ کون قاتل ہے ،کون نہیں ؟یزید قاتل ہے یا ابن زیاد ؟ البتہ یہ فیصلہ تو یزید نے خود ہی کردیا ہے کہ حسین کا قاتل لعنتی اور ملعون ہے ، اور یزید کے ہواخواہوں اور طرفداروں کے منہ پر خود یزید ہی نے ایسا طمانچہ مارا ہے جس کی ٹیسیں وہ قیامت تک یادرکھیں گے ، کہ قاتل ملعون ہے ، اگر ثابت ہو جائے یزید قاتل ہے تو وہ ملعون ہے اگر ابن زیاد ہے تو وہ ملعون ہے ، اور جو ملعون ہوتا ہے وہ کبھی نہ تو ''رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ''بن سکتا ہے اور نہ ہی ''رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ ''۔
حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے واقعہ کربلا کے بعد جب عبید اللہ بن زیاد شام آیا تو یزید نے اسے کافی انعام واکرام سے نوازا،مال و دولت سے اس کے خزانے بھر دئے ،اسے اپنے ساتھ حرم سرا میں لے گیا اور شراب کی ترنگ میں مست ہو کر کہتا تھا (جیسا کہ تذکرہ سبط ابن جوزی ص١٤٦ میں ہے )

اِسْقِنِیْ شُرْبۃً تُرْوِیْ مَشَاشِیْ
ثُمَّ مِلْ فَاَسْقِ مِثْلَہَا ابْنَ زِیاد
صَاحِبِ السِّرِّ وَالْاَمَانَۃِ عِنْدِیْ
وَلِتَسْدِیْدِ مَغْنَمِیْ وَجِھَادِیْ
قَاتِلِ الْخَارِجِیّ اَعْنِیْ حُسَیْنًا م
وَمُبِیْدِ الْاَعْدَآءِ وَالْاَضْدَاد
مجھے شراب کا جام پلا!جو میرے بدن کے ایک ایک حصے کو سیراب کردے ،پھر مڑ کر اسی طرح کی شراب ابن زیاد کو بھی پلا ۔
میرے نزدیک میرے رازوں کاامین اور دیانتدار شخص ہے اور میرے جنگ اور غنیمت کے امور کو بھی پختگی عطا کرتا ہے ۔
(معاذ اللہ )خارجی یعنی حسین کا قاتل ہے اور میرے تمام دشمنوں اور مخالفوں کا تباہ کرنے والاہے ۔
مورخ طبری (تاریخ طبری جلد ٥ ص٢٥٥میں )لکھتے ہیں کہ :
''فَسُرَّ بِقَتْلِہِمْ اَوَّلاًوَّحَسُنَتْ بِذَالِکَ مَنْزِلَۃُ عُبَیْدِ اللّٰہِ عِنْدَہ، ، ثُمَّ لَمْ یَلْبَثَ اِلَّاقَلِیْلاً حَتّٰی نَدِمَ قَتْلَ الْحُسَیْنِ(ع)''
پہلے پہل تو بہت خوش ہوا اور اس سے اس کے نزدیک ابن زیادکی قدرو منزلت بڑھ گئی ،لیکن ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اسے قتلِ حسین ع پر پشیمان ہونا پڑا،حتیٰ کہ اسے کہنا پڑا :
''لَعَنَ اللّٰہُ ابْنَ مَرْجَانَۃَ فَبَغَّضَنِیْ اِلَی الْمُسْلِمِیْنَ وَزَرَعَ لِیْ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْعَدَاوۃ ،فَبَغِّضَنِیَ الْبِرَّوَالْفَاجِرَبِمَااسْتَعْظَمَ النَّاسُ مِنْ قَتْلِیْ حُسَیْنٍا''
خدا مرجانہ کے بیٹے ___ابن زیاد___پر لعنت کرے کہ اس نے ہر مسلمان کے دل میں میری دشمنی ڈال دی ہے اور اس کے دل میں میری عداوت کا بیج بو دیا ہے لہٰذا اب مجھے ہر نیک اور بد انسان دشمن سمجھتا ہے ،اس لئے لوگ میرے حسین کے قتل کرنے کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ یزید کے بارے میں لوگوں کا غم و غصہ اور اس کی معاشرے میں رسوائی اور بدنامی نے اسے اپنی روش کو تبدیل کرنے پر مجبور کردیا ۔
MUHAMMAD MAHDI FAZIL
About the Author: MUHAMMAD MAHDI FAZIL Read More Articles by MUHAMMAD MAHDI FAZIL: 3 Articles with 3712 views I am agry to meet all World... View More