حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما
بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ
تعالیٰ سے محبت کرو ان نعمتوں کی وجہ سے جو اس نے تمہیں عطا فرمائیں اور
مجھ سے محبت کرو اﷲ کی محبت کے سبب اور میرے اہل بیت سے میری محبت کی خاطر
محبت کرو۔
:: ترمذی شریف،کتاب مناقب، باب مناقب أهل البيت النبي صلي الله عليه وآله
وسلم، 5 / 664، الرقم : 3789،
شعب الإيمان، 1 / 366، الرقم : 408.
حضرت عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب قریش کی جماعت سے ملتے
اور وہ باہم گفتگو کررہے ہوتے تو گفتگو روک دیتے ہم نے حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اس امر کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جب میرے اہل بیت سے کسی کو
دیکھتے ہیں تو گفتگو روک دیتے ہیں؟ اﷲ رب العزت کی قسم! کسی شخص کے دل میں
اس قت تک ایمان داخل نہیں ہوگا جب تک ان سے اﷲ تعالیٰ کے لیے اور میرے
قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے۔
:: ابن ماجہ شریف،مقدمة، باب فضل العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه، 1 /
50، الرقم : 140،
حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہِ رسالت
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اللہ! قریش جب آپس میں ملتے
ہیں تو حسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو ایسے
چہروں سے ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے (یعنی جذبات سے عاری چہروں کے ساتھ)
حضرت عباس فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر
شدید جلال میں آگئے اور فرمایا : اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری
جان ہے کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک اﷲ
تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میری قرابت کی خاطر تم
سے محبت نہ کرے۔ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : خدا کی قسم کسی شخص کے دل میں
اس وقت تک ایمان داخل نہ ہوگا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ اور میری قرابت کی
وجہ سے تم سے محبت نہ کرے۔
:: نسائی شریف 5 / 51 الرقم : 8176،
مسندامام احمدبن حنبل، 1 / 207، الرقم : 1772، 1777، 17656، 17657، 17658،
شعب الإيمان، 2 / 188، الرقم : 1501،
مستدرک، 3 / 376، الرقم : 5433، 2960
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا ان لوگوں کا کیا ہو گا جو
یہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبی تعلق قیامت
کے روز ان کی قوم کو کوئی فائدہ نہیں دے گا کیوں نہیں! اﷲ کی قسم بے شک
میرا نسبی تعلق دنیا و آخرت میں آپس میں باہم ملا ہوا ہے اور اے لوگوں! بے
شک (قیامت کے روز) میں تم سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا پس جب تم آ گئے تو
ایک آدمی کہے گا یا رسول اﷲ! میں فلاں بن فلاں ہوں پس حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کا فلاں بن فلاں کہنا پایۂ ثبوت کو
پہنچے گا اور رہا نسب تو تحقیق اس کی پہچان میں نے تمہیں کرا دی ہے لیکن تم
میرے بعد تم احداث کرو گے اور الٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔
:: مستدرک، 4 / 84، الرقم : 6958،
مسند، 3 / 18، الرقم : 11154،
مجمع الزوائد، 10 / 364
مسندابویعلی، 2 / 433، الرقم : 1238،
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے بہترین وہ ہے جو میرے بعد میری اہل کے لئے
بہترین ہے۔
:: مستدرک، 3 / 352، الرقم : 5359،
مجمع الزوائد، 9 / 174.
فيض القدير، 3 / 497،
مسند الفردوس، 2 / 170، الرقم : 2851،
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک
مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی محبوب تر نہ
ہو جاؤں اور میرے اھلِ بیت اسے اس کے اہل خانہ سے محبوب تر نہ ہو جائیں اور
میری اولاد اسے اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے اور میری ذات اسے
اپنی ذات سے محبوب تر نہ ہو جائے۔
:: شعب الإيمان، 2 / 189، الرقم : 1505،
مجمع الزوائد، 1 / 88.
مسند الفردوس، 5 / 154، الرقم : 7795،
معجم الکبير، 7 / 75، الرقم : 6416،
حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم اہل بیت کی محبت کو لازم پکڑو پس بے شک وہ
شخص جو اس حال میں اﷲ سے ملا کہ وہ ہمیں محبت کرتا تھا تو وہ ہماری شفاعت
کے صدقے جنت میں داخل ہوگا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان
ہے کسی شخص کو اس کا عمل فائدہ نہیں دے گا مگر ہمارے حق کی معرفت کے سبب۔
:: مجمع الزوائد، 9 / 172.
معجم الأوسط، 2 / 360، الرقم : 2230،
’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آل رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی ایک خادمہ تھی جو ان کی خدمت بجا لاتی اسے ’’بریرہ‘‘ کہا جاتا
تھا پس اسے ایک آدمی ملا اور کہا : اے بریرہ اپنی چوٹی کو ڈھانپ کر رکھا
کرو بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں اﷲ کی طرف سے کچھ فائدہ نہیں
پہنچا سکتے۔ راوی بیان کرتے ہیں پس اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کو اس واقع کی خبر دی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی چادر کو
گھسیٹتے ہوئے باہر تشریف لائے درآنحالیکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی دونوں رخسار مبارک سرخ تھے اور ہم (انصار کا گروہ) حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے غصے کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چادر کے گھسیٹنے
اور رخساروں کے سرخ ہونے سے پہچان لیتے تھے پس ہم نے اسلحہ اٹھایا اور حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ گئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ!
آپ جو چاہتے ہیں ہمیں حکم دیں پس اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے! اگر آپ ہمیں ہماری ماؤں، آباء
اور اولاد کے بارے میں بھی کوئی حکم فرمائیں گے تو ہم ان میں بھی آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کو نافذ کر دیں گے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور
فرمایا : میں کون ہوں؟ ہم نے عرض کیا : آپ اﷲ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں لیکن میں کون ہوں؟ ہم نے عرض کیا : آپ محمد
بن عبداﷲ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : میں حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کا سردار ہوں لیکن
کوئی فخر نہیں، میں وہ پہلا شخص ہوں جس سے قبر پھٹے گی لیکن کوئی فخر نہیں
اور میں وہ پہلا شخص ہوں جس کے سر سے مٹی جھاڑی جائے گی لیکن کوئی فخر نہیں
اور میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والا ہوں لیکن کوئی فخر نہیں ان
لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو یہ گمان کرتے ہیں کہ میرا رحم (نسب و تعلق)
فائدہ نہیں دے گا ایسا نہیں ہے جیسا وہ گمان کرتے ہیں۔ بے شک میں شفاعت
کروں گا اور میری شفاعت قبول بھی ہو گی یہاں تک کہ جس کی میں شفاعت کروں گا
وہ یقیناً دوسروں کی شفاعت کرے گا اور اس کی بھی شفاعت قبول ہو گی یہاں تک
کہ ابلیس بھی اپنی گردن کو بلند کرے گا شفاعت میں طمع کی خاطر (یا کسی طور
اس کی شفاعت بھی کوئی کر دے)۔
:: مجمع الزوائد، 10 / 376
حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم اہل بیت کی محبت کو لازم پکڑو پس وہ شخص جو
اس حال میں اﷲ سے (وصال کے بعد) ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہو تو وہ ہماری
شفاعت کے وسیلہ سے جنت میں داخل ہو گا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت
میں مجھ محمد کی جان ہے کسی بھی شخص کو اس کا عمل ہمارے حق کی معرفت حاصل
کئے بغیر فائدہ نہیں دے گا۔
:: معجم الأوسط، 2 / 360، الرقم : 2230،
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے علی! تو اور تیرے
(چاہنے والے) مددگار (قیامت کے روز) میرے پاس حوض کوثر پر چہرے کی شادابی
اور سیراب ہو کر آئیں گے اور ان کے چہرے (نور کی وجہ سے) سفید ہوں گے اور
بے شک تیرے دشمن (قیامت کے روز) میرے پاس حوض کوثر پر بدنما چہروں کے ساتھ
اور سخت پیاس کی حالت میں آئیں گے۔
:: مجمع الزوائد، 9 / 131
معجم الکبير، 1 / 319، الرقم : 948،
حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رکھا ہے
کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے اسے اور اس کے چاہنے والوں کو آگ سے چھڑا (اور بچا)
لیا ہے۔
:: فيض القدير، 3 / 432
مسند الفردوس، 1 / 346، الرقم : 1385،
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
: اہل بیت مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک دن کی محبت پورے سال
کی عبادت سے بہتر ہے اور جو اسی محبت پر فوت ہوا تو وہ جنت میں داخل ہو
گیا۔
:: مسند الفردوس، 2 / 142، الرقم : 2721
حضرت زید بن ارقم سے مرفوعاً روایت ہے کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ اگر کسی
کو نصیب ہو جائیں تو وہ آخرت کے عمل کا تارک نہیں ہو سکتا (اور وہ پانچ
چیزیں یہ ہیں) : نیک بیوی، نیک اولاد، لوگوں کے ساتھ حسن معاشرت اور اپنے
ملک میں روزگار اور آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت۔
:: مسند الفردوس، 2 / 196، الرقم : 2974
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں درخت ہوں اور فاطمہ اس کے پھل کی
ابتدائی حالت ہے اور علی اس کے پھول کو منتقل کرنے والا ہے اور حسن اور
حسین اس درخت کا پھل ہیں اور اہل بیت سے محبت کرنے والے اس درخت کے اوراق
ہیں وہ یقیناً یقیناً جنت میں (داخل ہونے والے) ہیں۔
:: مسند الفردوس، 1 / 52، الرقم : 135
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : چار شخص ایسے ہیں قیامت کے روز
جن کے لئے میں شفاعت کرنے والا ہوں گا (اور وہ یہ ہیں : ) میری اولاد کی
عزت و تکریم کرنے والا، اور ان کی حاجات کو پورا کرنے والا، اور ان کے
معاملات کے لئے تگ و دو کرنے والا جب وہ مجبور ہو کر اس کے پاس آئیں اور دل
و جان سے ان کی محبت کرنے والا۔
:: کنز العمال، 12 / 100، الرقم : 34180 |