پاکستان بھی ان ممالک میں صف اول ہے جہاں خواتین کو
جسمانی تا صنفی تشد د کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ہر سال تقریبا ہزاروں
کیسز سامنے آتے ہیں۔اب ہمیں اس بات کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ خواتین کو چار
د یواری میں بند نا رکھا جائے لیکن اب بھی ایسی سوچ رکھنے والے لوگ موجود
ہیں جو خواتین کو صدیوں پرانی روایتوں کے پیرائے میں دیکھتے ہیں اور انہیں
کسی بھی قسم کے ریاست دینے پر تیار نہیں۔خوا تین پر تشد د کے زیا دہ سے
زیادہ واقعات وہاں رونما ہوتے ہیں جہاں جہالت ہے شدہ خواندگی انتہا ئی کم
ہے اور وہیں بنتِ حوا کو جبری ، جسمانی ،نفسیاتی ،صنفی تشد د کا نشان بنایا
جاتا ہے ۔ ایک جانب گاؤں دیہاتوں میں خواتین مردوں کے شان بشان کام کرتی
ہیں ایندھن کا انتظام ،لکڑیوں کی کٹا ئی، فصلوں کی کاشتکاری حتیٰ کر
مویشیوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں تو دوسری جانب مردوں کی مردانگی جاگتی ہے تو
اس کی تمام تروناداری کو فراموش کر کے انہیں پنچائیت کے کہنے پر سزا دی
جاتی ہے ضرورت اس امر کی ہے ک تعلیم کو جتنا زیادہ ہوسکے توعام کیا جائے
اور گاؤں دیہاتوں کی سطح پر اسکولوں کا قیام بہت ضروری ہے جس سے انکے آنے
والی نسل عملی آب سے سیراب ہو اور پرانے اور فرسودہ نظام سے ان کی آنے والی
نسل بچ سکے۔ لیکن افسوس کے سا تھ خواتین سے نارواں سلوک کا آؑ غاز ہم گھر
سے ہی کرتے ہیں ان سے زبردستی لڑکا پیدا کرنے کی جاہلانہ مطا لبہ کرتے ہیں
اور بیٹی کی پیدائش پر اسے طعنا دیتے ہیں اور بیٹے اور بیٹی میں واضع فرق
بھی ماں باپ پیدا کرتے ہیں لہزا مثاوی سوچ و فکر اور خواتین کیلئے یکساں
نظامِ زندگی کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔۔
|