نواز شریف کو دلوں سے نکالا جاسکتا ہے؟

نواز شریف ایک نظریے کانام بن چکا ۔ اس کی مخالفت میں لوگ موجودہیں لیکن بطور خاص پنجاب کی اکثریت نواز شریف کو دل و جان سے اس لیے پسند کرتی ہے کہ انہوں نے دوسرے حکمرانوں کے برعکس بالعموم پاکستان اور بطو ر خاص پنجاب کی ترقی و خوشحالی کے لیے زیادہ فائدے مند اور ددر رس منصوبے متعارف کروائے بلکہ اپنی ذاتی نگرانی میں کامیابی سے ہمکنار بھی کیا ۔ مجھے یاد ہے نواز شریف نے جب 1992ء میں لاہور تا اسلام آباد موٹروے کی تعمیر شروع کی تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی۔نواز شریف کا اقتدار ختم ہواتو بے نظیر بھٹونے وزیر اعظم کا حلف اٹھا تے ہی پہلا کام لاہور تا اسلام آباد موٹروے کو ختم کرنے کا کیا۔ جب ریاستی ضمانت آڑے آئی تو اسے دولائن تک محدود کردیاگیا ۔ عوام نے اسے توہین سمجھ کر اگلے الیکشن میں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت سے نواز دیا۔ انہوں نے ایک بار پھر موٹروے کو چار لائن تک وسعت دے کر اپنی نگرانی میں پایہ تکمیل کو پہنچا یا ۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسی موٹر وے پر اس کی مخالفت کرنے والے بھی سفر کرتے ہیں اور بڑی تعداد میں عوام بھی مستفید ہوتی ہے ۔ نواز شریف نے اسلام آباد کو پشاور اورطور خم تک ملانے کے لیے ایک اور موٹر وے کی بنیاد رکھی جس پر آج بھی جی ٹی روڈ سے زیادہ لوگ سفر کرتے ہیں جو عمران خان کو پسند کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اسی دورمیں نواز شریف سیلاب زدہ علاقوں میں خود جاکرکچے گھروں کو اپنے ہاتھوں سے تعمیر کرتے دیکھے گئے ‘ اسی نواز شریف چھ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کونا قابل تسخیر بنایا جس پر آج ٹکے ٹکے کے لوگ غداری کے فتوی دیتے ہیں۔اسی نواز شریف کے ایما پرلاہور تاسیالکوٹ براستہ کھاریاں میرپور آزادکشمیر سے مظفر آباد تک موٹر وے پر کام جاری ہے ۔لاہور تک فیصل آباد ‘فیصل آباد سے عبد الحکیم تک ‘ لاہور سے براہ راست ملتان تک موٹر وے مکمل ہوچکا ہے ۔تیز رفتار مواصلاتی رابطے ترقی و خوشحالی کی بنیاد بنتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے دورمیں بیس بائیس گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی اور سرکلر ڈیٹ بھی پانچ سو ارب سے اوپر جاچکاتھا ۔ کرپشن کے گراف میں حد درجہ اضافہ ہوچکاتھا۔ یہی پیپلز پارٹی کے لوگ جو اب بھوک مٹاؤ کارڈ متعارف کروارہے ہیں انہی لوگوں نے روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگاکر عوام سے ووٹ لیے اور عوام کو بھول کر اپنا ہی پیٹ بھر کر چلتے بنے ۔ آصف علی زرداری جو شاطرانہ سیاسی چالوں کی بدولت ‘ سب پر بھاری نظر آتے ہیں انہوں نے اسٹاک مارکیٹ کا ہی بیڑا غرق کردیا ۔ کروڑ پتی سے ککھ پتی میں تبدیل ہوکر لاکھوں سرمایہ کار قبروں میں اتر گئے ۔ بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ ‘ عدم تحفظ اور رشوت خوری کی بڑھتی ہوئی وبا کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری ختم ہوچکی تھی ۔پاکستان عالمی سطح پر ایک ناکام ریاست کالقب حاصل کرچکا تھا۔ نواز شریف نے 2013ء میں حکومت سنبھالی تو اسٹاک مارکیٹ میں اس قدر سرمایہ کاری ہوئی کہ اس کا شمار دنیا کی بہترین مارکیٹ میں ہونے لگا ۔تمام بین الاقوامی اشاریے مثبت سمت بڑھنے لگے ۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لیے دس ہزار میگاواٹ بجلی کے پروجیکٹس لگا ئے گئے ۔جس گھریلو صارفین کو بائیس گھنٹے اور صنعتوں کو چوبیس گھنٹے بجلی کی فراہم کی جانے لگی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں جو صنعتیں بند ہوچکی تھیں ان کو دوبارہ چالو کرنے میں مدد ملی اور بے روزگاروں کو روزگار ملنے لگا۔چین کی جانب سے سی پیک پروجیکٹ پر پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا آغاز ہواتو اندرون اور بیرون ملک ‘ دشمن طاقتیں حرکت میں آئیں ‘امریکہ ‘بھارت اور اسرائیل سی پیک کے کھلے دشمنوں میں شامل تھے ۔ان ممالک نے خود بھی مخالفت کی اور پاکستان میں اپنی لابیوں کو حرکت دی ۔ سب سے پہلے میڈیا کو خریدا گیا۔میڈیا پرسن کسی بھی منصوبے اور شخصیت کے بارے میں جو چاہیں راہ ہموار کر سکتے ہیں ۔اس بات کاتو ہر پاکستانی گواہ ہے کہ ٹی وی چینلز کی اکثریت نواز شریف سے ذاتی دشمنی تک اتر آئی تھی۔ انہوں نے پانامہ سیکنڈلز کو اس قدر ہوا دی کہ نواز شریف کا نام شامل نہ ہونے کے باوجود انہیں مورد الزام ٹھہرا دیا گیا ۔ 1997ء میں شائع ہونے والی حکیم محمد سعید کی کتاب "جاپان کی کہانی"میں عمران خان کے کردار کے بارے میں خصوصی طورپر ذکر کیاگیا کہ یہودی لابی انہیں پروموٹ کرکے پاکستان پرمن پسند ایجنڈے کی تکمیل چاہتی ہے ‘ ۔ عمران خان کے ساتھ شیطانوں کا شیخ بھی مل گیا اور کینیڈا والی سرکار ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی میدان میں اتار کر لانگ مارچ اور پے درپے دھرنوں کا آغاز کردیاگیا ۔سیاسی ماحول کوگرمانے اور نواز شریف کو اقتدار سے اتارنے کی پس پردہ اورکھلے عام سازشوں کا آغاز ہوگیا ۔جب دھرنوں کے بحران سے نواز شریف بچ نکلے تو انہیں عدالتی گرداب میں پھنسانے کی کامیاب کوشش ہوئی ۔ پاکستانی اس بات کے گواہ ہیں کہ جب ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرانے کے لیے امریکی دباؤ جب حد سے زیادہ بڑھا تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی ‘آئی ایس آئی کے چیف جنرل پاشا ‘وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور وزیر اعلی پنجاب سمیت سب نے ریمنڈ ڈیوس کو جہاز پر سوار کرکے امریکہ روانہ کردیااور لواحقین کو جتنی بڑی رقم ادا کی وہ بھی پاکستانی قوم کے ٹیکسوں کی رقم تھی ۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں سامنے کوئی اورہوتا ہے ‘ پس پردہ کوئی نہ کوئی طاقتور لابی کام کرتی ہے ۔ اب نیب ‘عدالتیں اور ریاستی ادارے ن لیگ کے تعاقب میں ہیں جبکہ ایسے ہی الزامات عمران خان اور ان کے حواری کے خلاف لگتے ہیں تو انہیں باعزت بری بھی کر نے کے ساتھ ساتھ صادق آمین بھی قرار دیاجاتا ہے ۔ بنی گالہ کی تعمیر کے حوالے سے جھوٹ بولا گیا ‘سرکاری ہیلی کاپٹر پر انکوائری سرد خانے میں ‘ الیکشن کمیشن گوشوارے میں جھوٹے اندراج ‘ سیتا وائٹ اور اس کی بیٹی کے بارے میں جب اعتراض اٹھایاگیا توخود پیش نہ ہونے کے باوجود عمران الیکشن کے لیے اہل قرار پائے ۔ میں نواز شریف کی وکالت نہیں کررہا اور نہ ہی وہ میری نظرمیں فرشتے ہیں ‘ مجھے عدالتی فیصلے پر بھی اعتراض نہیں۔ نواز شریف نے اگرکرپشن کرکے جائیداد بنائی ہیں تو انہیں سزا ملنی چاہیئے لیکن آصف علی زرداری کے سرائے محل ‘ دوبئی اور لندن میں اربوں ڈالر کی جائیدادوں ‘لاہور میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اربوں روپے کے محلات بطور رشوت دینے کا نوٹس بھی تو ہوناچاہیئے ۔ انصاف کا ترازوصرف ایک جانب جھکتا ہے تو اضطرابی کی لہر پیدا ہونا فطر ی امر ہے ۔بچے بچے کی زبان پر ایک ہی بات ہے کہ عمران خان کووزیر اعظم بنانے کے لیے نواز شریف کو منظر سے ہٹا دیاگیا ہے۔عمران خان فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں ‘ ایک ایسے شخص کو ایٹمی پاکستان کی چابی پکڑانا انتہائی خطرناک فیصلہ ہوگا ۔ نواز شریف جیل میں ہو یا ملک سے باہر ا اسے نہ تو منظر سے ہٹایا جاسکتا ہے اور نہ ہی عوام کے دلوں سے اسے نہیں نکالا جاسکتا ۔ نواز شریف کے لیے صائب مشورہ ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان بننے سے اجتناب کریں ان دونوں کے انجام سے بھی سے بچیئں۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 668618 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.