کشمیر کا مؤذن

تحریر: ام محمد عبداﷲ، کوئٹہ
یہ 13 جولائی 1931ء کی تاریخ ہے۔ سرینگر کی جیل میں قید مسلمان کشمیری رہنما کا نعرہ آزادی لگانے کے جرم کی پاداش میں ٹرائل ہو رہا ہے۔ ہزاروں مسلمان سرینگر کی سینٹرل جیل کے باہر جمع ہیں۔ وقت اذان آن پہنچا ہے۔ مجمع سے ایک مسلمان نوجوان کھڑا ہو کر اذان دینے لگتا ہے مگر جیل کے باہر کھڑے ڈوگرا فوجی کو خدائے واحد کی کبریائی کی صدا ناگوار گزرتی ہے۔ نوجوان گولی مار کر شہید کر دیا جاتا ہے۔ اتنے میں ایک اور نوجوان کھڑا ہوتا ہے اور پہلے نوجوان کی نامکمل اذان کو مکمل کرنے لگتا ہے مگر وہ بھی ڈوگرا فوجی کی گولی سے شہادت پا جاتا ہے۔ غیرت ایمانی کشمیری لہو میں جوش مارتی ہے۔ دوسرے کی شہادت تیسرے مؤذن کو پکارتی ہے۔ سینٹرل جیل کا احاطہ میدان کار زار بن جاتا ہے۔ 19 سال کے نوجوان سے لے کر 75 سال کے کشمیری مسلمان بزرگ تک سب مؤذن بن جاتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے جانشین سینے پر گولی کھاتے اذان مکمل کر دیتے ہیں۔ ڈوگرا راج کے فوجی بے بسی اور بے چارگی سے تلملاتے کر رہ جاتے ہیں کہ یہ 21 جانیں تو اپنے رب کی طرف کسی نہ کسی دن لوٹنی ہی تھیں مگر وہ اپنی تمام تر طاقت کے باوجود تکمیل اذان کو نہیں روک پائے، جذبہ حریت کو نہیں دبا پائے۔

اہل سماعت جموں و کشمیر کی حسین وادی میں ایک زیر تکمیل اذان آج بھی سن رہے ہیں۔ ڈوگرا فوج کی جگہ بھارتی فوجی درندے تعینات ہیں۔ ایک مؤذن کی شہادت کے بعد دوسرا اس کی جگہ لے رہا ہے۔ اذان وادی کے اطراف میں ہر سو گونج رہی ہے۔
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا یہ ہے کہ زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

بھارت کی ساڑھے 7 لاکھ فوج بے بسی سے تلملا رہی ہے۔ ہر حد تک ظلم و استبداد کے باوجود نہ اس اذان کی گونج کم ہوتی ہے اور ناں مؤذن ڈر کر پیچھے ہٹتے ہیں۔ 8 جولائی 2017 کو تو بالخصوص بھارتی فوج کی بدحواسی، بے بسی اور تلملاہٹ اپنے نکتہ عروج کو پہنچتی ہے۔ کہیں کرفیو کا نفاذ ہے تو کہیں انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔ بھارتی مسلح فوج نہتے اور معصوم کشمیری عوام پر اپنی بندوقیں تانے اذان کی گونج سے لرز رہی ہے کہ آج برہان مظفر وانی کی شہادت کو پورا سال گزر چکا ہے۔برہان مظفر وانی صرف ایک نوجوان نہیں تھا۔ وہ آزادی کا استعارہ تھا۔ وہ پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ الا اﷲ کا عملی مظاہرہ تھا۔ وہ نو عمر مجاہد خود اپنی ذات میں ایک تاریخ تھا۔

وہ اپنی کم سنی میں بھارتی فوج کی جہالت اور غرور کے سامنے معاذ اور معوذ رضی اﷲ عنہم کے مجاہدانہ جذبے کا عکس لیے تھا۔ وہ محمد بن قاسم کی مانند کشمیری بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت کے تحفظ کے لیے برسر پیکار تھا۔ وہ تحریک آزادی کشمیر میں ایک نئی روح پھونکنے والا مسیحا تھا۔ سوشل میڈیا پر اس کے آڈیو وڈیو پیغامات کشمیری نوجوانوں میں تحریک آزادی اور پاکستان سے محبت میں اضافے کا باعث بن رہے تھے۔ کئی نوجوان آزادی کا خواب آنکھوں میں سجائے اس مجاہد کے کاروان آزادی میں شامل ہو رہے تھے۔

برہان وانی شہید مسلم اکثریت کو ختم کرنے کے لیے ہندوؤں کی اسرائیلی طرز پر آباد کاری کے شدید مخالف تھے لیکن کشمیری ہندو پنڈت کی کشمیر میں رہنے کے مخالف نہیں تھے۔ ہندو زائرین پر حملے کے بھی مخالف تھے اور اپنے ساتھی مجاہدوں کو بھی اس عمل سے روک دیا تھا کہ ہندو زائرین پر حملہ نہیں کیا جائے۔ وہ بھارتی فوجیوں پر تواتر سے حملوں کی دھمکیاں دیتے اور ان پر موقع ملتے ہی حملہ کرکے جانی نقصان پہنچایا کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک جھڑپ میں انہوں نے جام شہادت نوش کیا۔ پاکستانی پرچم میں لپٹ کر اپنی آخری آرام گاہ تک پہنچنے والے اس مؤذن مجاہد کے جنازے میں لاکھوں کشمیریوں نے شرکت کی۔

شہید برہان وانی اور ان کے ساتھی شہدائے کشمیر کا لہو اقوام عالم سے مطالبہ کر رہا ہے کہ جموں کشمیر کی متنازع حیثیت اور اس کے باشندوں کا حق خودارادیت تسلیم کیا جائے۔ آبادی والے علاقوں سے فوجی انخلاء اور عوام کش فوجی قوانین کاخاتمہ کر کے مسئلہ کشمیر کا مستقل اور پائیدار حل کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق نکالا جائے۔

8 جولائی 2018 کو برہان مظفر وانی کی شہادت کو دوسرا سال مکمل ہونے کو ہے۔ اس شہید مؤذن کی آواز چہار سو پھیل رہی ہے۔ وادی کے پہاڑوں سے ٹکرا کر جب یہ آواز پلٹتی ہے تو اس کی گونج میں ایک اور نعرہ بھی شامل ہو جاتا ہے۔پاکستان سے رشتہ کیا؟ ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ اس اذان کا جواب اہل پاکستان پر واجب ہی نہیں فرض بھی ہے۔ اس فرض کو نبھانے کے لیے ہمیں چاہیے کہ ہم سیاسی، سفارتی، قانونی ،صحافتی، علمی، عسکری غرض ہر محاذ پر کشمیری عوام کے ساتھ کھڑے ہوں۔یہ زیر تکمیل اذان ان شاء اﷲ ضرور پایہ تکمیل کو پہنچے گی۔ بس خیال رہے کہ جب یہ اذاں مکمل ہو تو ہم اہل پاکستان مظفر برہان وانی سمیت تمام شہدائے کشمیر کے سامنے سرخرو ہوں۔ آمین
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1144773 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.