زندگی اک قوس وقزح

آسمان پر دور دور تک ابر چھائے ہوئے تھے۔ ابھی تھوڑی دیر قبل ہی خوب بارش ہوئی تھی۔میں چھت پر کھڑی قوس و قزح کو دیکھ رہی تھی۔میرے ذہن میں یہی بات چل رہی تھی کہ میری زندگی میں بھی اب تک بہت سے رنگ آچکے ہیں۔ٹھنڈی ہوا چلنا شروع ہوئی تو میں جلدی سے نیچے کی طرف آگئی جہاں سب جمع تھے۔

ہر کوئی اپنی اپنی سنا رہا تھا مگر میں اپنی سنائی جا رہی تھی۔سب کو اعتراض تھا کہ فراز سے شادی کیوں کر رہی ہوں۔میں نے ٹھان لی تھی کہ مجھے فراز سے ہر صورت میں شادی کرنی چاہے۔کسی کو کیا پتا تھا کہ میں نے اس سے وعدہ کرلیا تھا کہ میں اس سے ہی شادی کر لوں گی، میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد سے کبھی وعدہ نہیں توڑا تھا۔اسی وجہ سے جب میں نے فراز کو خوشیاں دینے کا سوچ لیا تھا تو پھر سب کے سامنے اس کے حق میں دلیل دینے لگ گئی تھی۔ میں نے صاف صاف کہا دیا تھا کہ میں شادی کروں گی تو فراز سے ہی کروں گی۔اس میں کیا حرج ہے کہ وہ پڑھا لکھا نہیں، وہ اچھا کما سکتا ہے، اس کی کرائے کی چند دکانیں تھیں جس سے وہ مجھے بھوکا نہیں مرنے دے گا۔

میرے والدین اور بہن بھائی سب نے بالآخر نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ میری شادی کی تاریخ طے کر دی۔جس روز میری سالگرہ ہوتی تھی اس دن ہی ہماری منگنی ہو گئی تھی۔میں اس روز بہت خوشی محسوس کر رہی تھی ۔میری ایک خالہ کی وفات کے بعد دوسری خالہ نے بہت پہلے ہی کہا دیا ہوا تھا کہ وہ مجھے فرحت کو اپنی بہو بنا لیں گی۔اُن کی وفات کے بعد فراز کا مجھے ایک ایس ایم ایس آیا تھا جس میں اس نے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا مگر میں نے گھر والوں کی جانب سے پابندی کا کہہ دیاتھا۔اس نے اپنی والدہ یعنی خالہ والی بات دہرائی کہ امی کو بہت شوق تھا کہ تم اس گھر میں آؤ۔میں نے اپنی جانب سے کہہ دیا تھا کہ اگر میرے والدین کو پسند ہوا تو مجھے بھی تم سے شادی پراعتراض نہیں ہوگا۔میری والدہ نے بھی بہن کی بات پر یہی کہا تھا کہ جب اس کی مرضی یہی تھی تو مجھے کوئی حق نہیں ہے کہ میں اس حوالے سے کوئی رکاوٹ ڈال دوں۔

میری بات سے آپ کو یوں لگ رہا ہو گاکہ میں بہت خوش نصیب واقع ہوئی ہوں کہ جس کی ہر بات کو مان لیا جاتا تھا ،اب ایسا بھی کچھ نہیں تھا۔یہ تو قسمت کی بات تھی کہ میری کوشش سے فراز کے ساتھ بات طے ہو گئی تھی۔ورنہ شادی تو نصیب کی بات ہے جہاں لکھی ہو ، ہو جاتی ہے۔اگر ایسا کچھ نہ ہوتا تو پھر میری شادی جمیل سے ضرور ہو جاتی ۔جو کہ میرے ساتھ ایک اسکول میں پڑھایا کرتا تھا۔اس نے ہی میرے بھائی کو میرے کہنے پر ٹیوشن بھی پڑھائی تھی۔بعدازں مجھے اسکول کے ہی چند طالب علموں کی وساطت سے معلوم ہوا تھا کہ وہ میرے لئے کیا جذبات رکھتا ہے۔جب میں نے پہلی مرتبہ موبائل فون لیا تھا تو میرے علم میں بات آئی تھی کہ میں نے محض اس سے رابطے کیلئے یہ لیا تھا مگر درحقیقت ایسی کوئی بات نہیں تھی۔مگر کچھ طلبہ میں یہ بات پھیل چکی تھی۔جمیل کی پسند کو میں جان چکی تھی مگر وہ ایک آنکھ بھی مجھے نہیں بھایا تھا۔میں نے اس کو صاف انکار بھی کر دیا تھا ۔اس نے اپنی کوشش کی تھی ،اس نے جب جب رشتہ گھر تک بھیجا ، والدین نے صاف انکار ہی کر دیا تھا۔میں نے شروع سے ہی والدین کی مرضی پر خود کو چلانے کے ساتھ اپنی بھی منوائی تھی تو مجھے اس انکار پررنج نہیں تھا۔مگر فراز سے شادی کا فیصلہ ایک وعدے پر کر لیا تھا کہ مجھے خوشی دینی تھی۔

میں نے اُنیس سال کی عمر میں ٹیوشن بھی پڑھانا شروع کر دیا تھا۔دوسری طرف میری زندگی میں نت نئے واقعات رونما ہو رہے تھے۔ایک طرف میں جہاں اپنے شاگردوں کو اچھے سے پڑھاتی تھیں۔وہیں دوسری طرف میری سادگی میرے لئے مسائل بھی کھڑے کر رہی تھی۔میرے والدکے ایک دوست کا بیٹا بھی مجھے پسند کرنے لگ گیا تھا۔یہ پسندیدگی میری لا علمی میں تھی۔مگر جب ایک بار میرے بات نہ کرنے پر وہ گھر رہنے آیا اور واپس چلا گیا تو اس کی بہن نے اس حوالے سے مجھے بتایا تو میں نے معذرت کرلی تھی۔ مگرپھر میں نے بات کرنا چھوڑ دی تھی کہ میں کوئی تعلقات استوار نہیں کرنا چاہتی تھی۔اس کے ہاں سے تین مرتبہ رشتہ آیا اور گھر والے نے اس وجہ سے نہیں کیا کہ مجھے بہت دور شادی کے بعد جانا پڑتا۔شروع میں آپ کو بتا چکی ہوں کہ میں نے اپنی ضد پر جو شادی کی تھی ،وہ اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد ہی کر لی تھی۔جس کے بارے میں ان کو ہوا تک نہیں لگنے دی تھی۔

میں اپنی زند گی کو اپنی من مانی سے جی رہی تھی۔میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد سے کبھی فرمائش نہیں کی تھی۔گھر میں مالی حالات شروع میں کافی تنگ تھے۔بچپن میں کھیلنے کو گڑیا تک نہیں ملتی تھی۔لباس کے حوالے سے بھی احساس کمتری کا شکار ہو گئی تھی۔والد کی جب پنشن شروع ہوئی اور ان کی ذریعہ معاش میں بہتری آئی تو گھر میں بہت آسودگی سی آگئی تھی۔جس کی وجہ سے پہلے بہن کو اعلی تعلیم دلوائی اور پھر اس کو رہنے کیلئے باہر بھیجوایا ۔جس نے وہاں پر اپنی تعلیم تو حاصل کی مگر بھائی کو بھی وہاں پر بلوا لیا تھا۔یہ میرا وہ بھائی تھا جس کی وجہ سے میں بہت کچھ سہہ لیتی تھی۔ایک بار میں نے امی کے دیے ہوئے پیسے جو بھائی نے گم کر دیئے تھے۔اس کی ذمہ داری خود پر لے کر مار تک خود کھائی تھی۔اب جب بھائی باہر سے واپس آیا تو مجھے کچھ رقم بھی دی اور نم آنکھوں سے خوشی کا اظہار بھی کیا کہ بہن نے بھائی کے لئے اس قدر قربانی دی۔اس طرح کے کئی واقعات میری زندگی کا حصہ ہیں۔یہ سب اس لئے بتا رہی ہوں کہ کوئی پڑھے تو یہ سبق حاصل کرے کہ زندگی میں حوصلہ ہار دینا، گھبرا جانا اور مشکلات سے ڈر جانا کوئی خاص عمل نہیں ہے۔ان سب سے نبرد آزما ہونا اور زندگی میں آگے بڑھتے جانا ہی سب سے اہم عمل ہے۔

ایک بار میں جب بھائی کے ساتھ قرآن پڑھنے گئی اور راستہ بھول گئی، کسی شخص نے ہمیں واپس گھر کے قریب چھوڑا اور ہمارے مالک مکان کو بتایا کہ بچے دور تک آ گئے تھے۔اس پر اس نے والد صاحب کو بتا دیا تھا جس پر ہماری بہت پٹائی ہو گئی تھی۔اسی طرح سے ایک بار انار توڑ کر لانے پر بھی خالہ نے ہمیں کڑی دھوپ میں کھڑا کر دیا تھا۔مگر اس کے بعد کبھی ہم نے ایسا کام نہیں کیا۔زندگی نے جو سبق دیا وہ اپنے پلے باندھ کر میں آگے کو چلتی رہی ، رکی نہیں۔

ہم کرائے کے مکان میں رہتے رہے اور مکان بھی بدلتے رہے، پھر ایسا ہوا کہ اپناگھر خدا کے فضل و کرم سے بنا لیا ۔اس میں جہاں کچھ تعاون آپی کا تھا وہیں بھائی کی طرف سے بھی مدد شامل تھی ۔ابو جتنا کر سکتے تھے و ہ کر رہے تھے۔میری زندگی کا سفر بھی رخصتی کے بعد رکا نہیں تھا ۔میں جو زندگی بھر مشاہد ہ کرتی آئی تھی، میں نے اپنی ساس، سسر اور نند کے ساتھ دیور کو بھی پرکھ لیا تھا۔مجھے امید نہیں تھی کہ میرے ساتھ روایتی ساس بہو جیسے معاملات پیش آئیں گے۔شادی کے پہلے روز کے بعد سے ہی میرے لئے حالات نے کروٹ لینی شروع کر دی تھی۔میں کچھ بھی ایسا ویسا نہیں کرنا چاہ رہی تھی جس کی وجہ سے میرا گھر ابتدائی ایام میں ہی بربادی کی بنیاد رکھتا۔

مگر انگلینڈ سے آپی کی آمد پر ملنے کی ضد نے نہ صرف فراز بلکہ میری ساس کو بھی قدرے پریشان کر دیا تھا۔میں اپنی بے بسی پر رو دی تھی کہ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔شادی کے بعد جب میں کہیں جانے کے لئے بیوٹی پارلر گئی ،وہاں پر میری میک اپ آرٹسٹ کے ساتھ بات چیت کو جس طرح سے میری نندوں نے رائی کا پہاڑ بنا لیا تھا۔اس سے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس طرح سے پرسکون رہنا مشکل ہوگا۔مگر میں ایک طرف اپنے وعدے پر قائم تھی ، جس کی وجہ سے مجھے اپنے گھر کو بچاؤ کے لئے اقدامات کرنا ضروری تھے۔مگر دوسری طرف میری ساس بھی شروع کے دنوں کے بعد سے بدلنا شروع ہو گئی تھیں۔انہوں نے روایتی ساس بننا شروع کر دیا تھا۔میرے تمام تر کاموں پر نکتہ چینی کرناان کا دل پسند مشغلہ بنا گیا تھا۔

میں جتنی اچھی کھانے کی اشیاء بناتی ، ان کو اس میں کوئی نہ کوئی نقص نظر آجاتا تھا، انہوں نے مہمانوں کے سامنے بھی مجھے کچھ نہ کچھ کڑوی باتیں سنانا اپنا مقصد بنا لیا تھا جس کی وجہ سے میں اندر ہی اندر سے ٹوٹ رہی تھی۔سچ بتاؤں میں تو اپنے شوہر کی کم عقلی یا سمجھداری کی بدولت خود کو تمام تر حالات کا ذمہ دار بنا رہی تھی۔کیونکہ میرے خیال میں کسی اور کی غلطی اس قدر نہ تھی جو کہ میں نے اپنے لئے تسلیم کرکے حالات کو سدھارنے کی کوشش شروع کی ہوئی تھیں۔دوسری طرف نندوں نے بھی لگائی بجھائی کر رکھی تھی۔ میرا بھائی جب ملنے کے لئے آیا تو میری نند نے میرے حوالے سے بات منفی انداز میں کی تو بھائی نے فورا سے جواب دے دیا تھا کہ آپ کی طرف سے بھی کچھ ہوتا ہوگا تو ہی فرحت آپ کو آگے سے کچھ کہتی ہونگی۔میری نند نے اس بات کودل پر لے لیا تھا اور اس نے ساس کے کان بھرنا شروع کر دیئے تھے۔ساس نے سسر کو بھی اپنی باتوں میں الجھا کر ان کو بھی میرے خلاف کر دیا تھا۔تمام تر حالات اس رخ پر جا رہے تھے کہ میری اس گھر سے رخصتی کرائی جا سکے۔مجھے آج تک علم نہیں ہو سکا ہے کہ جب میں انکی پسند سے وہاں گئی تھی تو پھرمیرے خلاف اس قدر سب کیوں ہو گئے تھے۔کیا میں اس قدر بھی حق نہیں رکھتی تھی کہ میں اپنی خواہشات کو پورا کر سکوں۔کیا یہ ضروری تھا کہ میں اپنے آپ کو مار کر اپنی ساس اور باقی افرادکو خوش کروں؟ کیا میں ایک لڑکی اپنے آپ کے لئے کوئی بات کہہ نہیں سکتی ، آخر ایک عورت ہی عورت کی دشمن کیوں بن جاتی ہے،اپنی بیٹی کے لئے جو ساس سوچتی ہے وہ بہو کے لئے کیوں نہیں ہوتا ہے؟

فراز نے اپنی ناسمجھداری کی بدولت میرے لئے بھی مسائل کھڑے کر دیئے تھے اگرچہ انہوں نے کئی مرتبہ محبت کا اظہار کیا تھا، وہ میرے لئے سب کرنے کے لئے تیار ہوتے تھے مگر اپنی والدہ اور بہنوں کے دباؤ پر میرا کھل کر ساتھ نہیں د ے پا رہے تھے۔بصورت دیگر جس دن ہماری کسی بات پر ساس نے لڑائی شروع کی تھی تو انہوں نے ہمیں گھر سے باہر نکل کر الگ ہو جانے کا بھی کہہ دیا تھا جس پر وہ عمل نہ کر سکے تھے۔انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ میں نے گندم میں زہر رکھوا یا تھا کہ سب مر جائیں ۔جس سے مجھے اپنے شوہر کے ساتھ زندگی خوشگوار رہنے کا موقع مل سکے۔

اسی لڑائی کے دوران ہی میں ساس نے مجھے زیوارت اور دو لاکھ روپے جو رکھنے کو دیئے تھے۔ اس پر بھی باتیں سنانی شروع کر دی تھیں کہ میں وہ پیسے پلاٹ خریدنے میں خرچ کرنا چاہ رہی تھی مگر انہوں نے اس پر بھی خوب لے دے کی تھی جس پر یہ معاملہ بھی ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا۔میری زندگی میں شروع سے ہی احساس کمتری موجود تھی۔جو کہ وقت کے گذرنے کھے ساتھ ساتھ بڑھ رہی تھی۔میں نے اپنی والدہ کو بھی رو ز روز کی لڑائی کے حوالے سے اعتماد میں لیتے ہوئے بتا دیا تھا۔انہوں نے بھی ساس کے ساتھ معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی مگر ان کے بھی کان پر جوں تک نہ رینگی۔پھر جب کسی بات پر ہماری آپس میں لڑائی ہوئی تو میں نے انکی بیٹیوں کے حوالے سے چند باتیں کیں۔ تو وہ ذرا سہم سی گئی کہ اگر وہ اچھال دی جاتی تو پھر ان کی بھی اچھی خاصی سبکی ہو سکتی تھی۔مگر میں نے کبھی ایسا نہیں چاہا تھا، میں نے تو بس انکو تلخ حقیقت بیان کر دی تھی۔میری شروع سے ہی عادت ہے کہ میں دل میں کوئی بھی بات نہیں رکھتی ہوں اور ٓصاف سی بات کر دیتی ہوں۔جھوٹ کم بولتی ہوں ، مگر جب بول دوں تو پھر حالات کا بھی سامنا کر لیتی ہوں۔

میری اسی عادت نے ہی جب ساس نے زیورات مانگے تو میں بول دیا کہ امی کے گھر رکھوائے ہیں،جبکہ وہاں نہیں تھے، میری اس بات پر جب لڑائی حد سے بـڑھی تومیں اپنے میکے آگئی ہوں، اب واپس جانے کا دل نہیں کرتا ہے کہ وہاں پر سوائے شوہر کے کسی اور پر اعتبار کا دل نہیں ہے، میری وفاداری کا صلہ بھی انہوں نے یہی دیا کہ چپ اختیار کر لی ہوئی ہے۔اب میں سوچ بچار میں ہوں کہ میں کیا کروں، اگر جاؤں واپس تو سب حالات کے سامنے کے ساتھ ساتھ ساس ،نند، سسر اور دیور کے طنز کے تیر برسیں گے،میں ابھی خاموش ہوں مگر میں چاہتی ہوں کہ جو لکھ پائی ہوں، وہ آپ سب سمجھ کر مشورہ دیں کہ میں کیا کروں، شاید میری قسمت سنور جائے۔آپ کے جواب کی منتظر رہوں گی۔ْْْْْْْْْْْْْ
 

Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 479816 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More