گرتے وقت صبا کے سر پر ایک نوکیلا پتھر چبھا تھا اس کو
اپنے گرم گرم خوں کا ذائقہ اس کے ہونٹوں پر آیا تھا اس کے ہاتھ سے اٹیچی
چھوٹ کر سڑک کے کنارے کھائی میں گم ہوگیا تھا۔دور سے آتی گاڑی کی پیڈ لائٹس
جب اس کی آنکھوں میں پڑیں تب تک اس کے ہوش و ہواس رخصت ہوچکے تھے۔جب صبا کو
ہوش آیا تو وہ ایک خوبصورتی سے سجائے ہوئے ایک بیڈ روم میں پلنگ پر دراز
تھی ۔اس کے سرہانے ایک روشن اور پرنور چہرے والی خاتون بیٹھی قرآن پاک کی
تلاوت کررہی تھیں ۔اس کے جاگنے کا ادراک ہوتے ہی وہ بے ساختہ بولیں:
بسم اللہ بیٹا تمھاری طبیعت کیسی ہے؟
صبا بے اختیار اٹھ کر بیٹھی اس کا سر ایک دم چکرا گیا ۔اس کے ہاتھ اس کے سر
کی جانب گیا تو احساس ہوا کہ اس کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی ۔اس خاتون نے
پیار سے پوچھا:
بیٹا! تم امید سے ہو اس حالت میں تم اکیلی بغیر کسی کے ساتھ اور سامان کے
کہاں جارہی تھی؟
وہ ناسمجھی سے اس خاتون کو تکتی رہی ۔اس خاتون نے اس سے اس کا نام پوچھا:
مگر بڑے ذہن پر زور دینے کے باوجود اس کو کچھ یاد نہیں آیا۔ وہ بے اختیار
بستر سے اتر کر بھاگی ۔دروازہ کھول کر وہ اندھادھند باہر بھاگی مگر سامنے
سے آتے شخص سے زور سے ٹکرا کر گر پڑی ۔وہ شخص اونچی آواز میں چیخا اور
بولا:
اندھی ہو کیا؟
صبا کو بس یہ احساس تھا کہ وہ محفوظ نہیں ہے اور اسے بھاگ جانا چاہیے ۔اس
نے دوبارہ اٹھ کر زدقند لگائی اور آنافانا مین گیٹ کے پاس پہنچ گئی مگر
شومئی قسمت یہاں اس کا واسطہ دو تنومند گارڈز اور دو جثیم السیشین کتوں سے
پڑا ۔صبا کتوں سے ڈر کر واپس بھاگی اور دروازے میں داخل ہوتے ہوئے پھر اس
اجنبی سے ٹکرا گئی مگر اس دفعہ اس اجنبی نے چیخنے کے بجائے ایک چٹاخ دار
تھپڑ اس کے گالوں پر رسید کیا اور صبا ایک بار پھر اپنے ہوش و حواس کھو
بیٹھی ۔جب دوبارہ اس کو ہوش آیا تو اس نے دیکھا کہ وہ بوڑھی عورت اور وہ
خوفناک اجنبی ایک دوسرے سے بحث و مباحثہ میں مصروف تھے ۔ اس بحث پر کان
دھرنے سے اسے سمجھ آیا کہ یہ بحث اس کے متعلق ہورہی تھی ۔
اجنبی کا نام خاور تھا اور وہ عورت اس کی ماں تھی وہ اس کو بی بی جان کہہ
کر مخاطب کررہا تھا ۔ ایک پرس ان کے سامنے کھلا پڑا تھا ۔ان کی گفتگو سے
اسے پتا چلا کہ وہ خاور کے مرحوم بھائی کی بیوہ ہے۔ بی بی جان روتی جاتیں
اور کہتی جاتیں :
"ہائے کاش میں ان کی شادی کے لیے مان جاتی تو آج میرا بیٹا زندہ ہوتا ۔"
خاور اپنی ماں کو تسلی تشفی دیتے ہوئے اس بات پر مصر تھا کہ "بی بی جان
یہ لڑکی نوسر باز ہے اور جہانزیب بھائی کی بیوہ بن کر کے بڑے بھائی کی
تجوری اور جائیداد لوٹنے کے ارادے سے ادھر آئی ہے ۔"
صبا نے اپنے ذہن پر زور ڈالنے کی کوشش کی مگر اس کا دماغ ایک دفعہ پھر
اندھیرے میں ڈوب گیا۔جب صبا کو دوبارہ ہوش آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کو ڈرپ
لگی ہوئی تھی ۔ایک جوان سال لڑکی اس کے پاس کرسی پر بیٹھی تھی ۔صبا کے
جاگنے پر اس نے صبا کو اٹھنے میں مدد دی ۔اس کا منہ ہاتھ دھلا کر اس کے
کپڑے بدلوائے ۔پھر اس کو ناشتہ کروایا ۔وہ لڑکی بار بار اس کو تارا میم
کرکے مخاطب کر رہی تھی ۔اس کے ذہن پر ایک خلا سا طاری تھا ۔اس کو آئینہ میں
اپنی شکل بھی اجنبی لگ رہی تھی ۔اس کو اپنا نام ، اپنی شناخت کچھ یاد نہیں
آرہا تھا ۔اس کو بس خطرے کا احساس تھا ۔اس کی چھٹی حس اس کو بتا رہی تھی کہ
وہ حادثے سے پہلے بھی بھاگ رہی تھی اور اب بھی اسے بھاگ جانا چاہیے ۔مگر
اپنی جسمانی کمزوری اور حالت نے اسے مجبور کررکھا تھا ۔کچھ دیر بعد دو
ڈاکٹر اس سے ملنے آئے ۔ان کے سفید کوٹ دیکھ کر اس پر ہذیانی کیفیت طاری
ہوگئی اس نے بے ساختہ اپنے ارد گرد پڑی چیزیں ان پر پھینکنی شروع کردیں وہ
ہذیانی انداز میں چیخ رہی تھی
"تم لوگ بے وفا ہو، تم لوگ قاتل ہو، تم اعتبار، احساس، انسان ہر ایک کے
قاتل ہو۔"
خاور ایک انجیکشن لیے کمرے میں داخل ہوا اور اس نے تارا(صبا) کے بازو میں
لگا دیا اور اس کے بعد صبا ہوش و حواس کھو بیٹھی ۔ |