محبت اور ماں

تحریر: فائزہ خالد، ڈسکہ
کچھ چیزیں، چیزیں نہیں رہتیں احساسات بن جاتی ہیں۔ کسی کے ہونے کا احساس، کسی کی محبت کا احساس، کسی کی یادوں کا احساس۔ چیزیں بھلے ہی بے جان ہوتی ہیں مگر انسے وابستہ احساسات زندہ ہوتے ہیں۔ احساسات سانس لیتے ہیں، انہیں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تو آئیے کچھ احساسات کو ذیل میں لکھے گئے ایک افسانے کے ذریعے محسوس کرتے ہیں۔

اپنے کمرے کو رینویٹ کرنے کے بعد وہ چیزوں کا سرسری جائزہ لینے لگی۔ سب کچھ ترتیب سے رکھ دینے کے بعد وہ دروازے میں کھڑی اپنے کمرے کو مطمئن سے انداز میں دیکھنے لگی۔ دیواروں پر نیا پینٹ کروایا گیا تھا۔ اْس نے اپنے کمرے کا سارا فرنیچر تبدیل کروایا تھا۔ کمرے کا سارا پرانا سامان سٹور روم کی زینت کر دیا گیا تھا۔ اْس کا کمرہ بالکل باربی مویز میں دکھائے جانے والے کسی پرنسیس کے کمرے جیسا لگ رہا تھا۔ کمرے کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی بائیں جانب بیڈ رکھا ہوا تھا جس کی دونوں جانب سائیڈ ٹیبل رکھے ہوئے تھے۔ بیڈ کی لکڑی پر انتہائی شائستہ اور خوبصورت انداز میں سٹون ورک کروایا گیا تھا۔ بیڈ کے دائیں جانب ڈریسنگ ٹیبل رکھا تھا جبکہ بائیں جانب گیلری کا دروازہ تھا جو سیدھا لان کی جانب کھلتا تھا۔ بیڈ کے بالکل سامنے والی دیوار میں ایل سی ڈی پیوست تھی جبکہ کمرے کے عین وسط میں اوپر والی دیوار پر انتہائی مہنگا فانوس لگا ہوا تھا۔ کمرے میں سفید رنگ کے انتہائی خوبصورت جالی کے پردے بھی لگوائے گئے تھے۔

وہ اپنے کمرے کو ایک نظر دیکھنے کے بعد اپنے ساتھ والے کمرے کی جانب بڑھ گئی کمرے کا دروازہ کھولتے ہی اْس نے ایک نظر کمرے پر دوڑائی۔ یوں تو کمرہ انتہائی سلیقے سے سجایا گیا تھا، دیواروں پر نیا پینٹ کروایا گیا تھا، کمرے کی کھڑکیاں اور دروازے نئے پر دوں سے آراستہ تھے مگر فرنیچر وہی پرانا تھا۔ 28 سال پرانا مگر آج بھی اْسے بہت سنبھال کر رکھا گیا تھا۔ وہی پرانا لکڑی کا بیڈ جس کی پالش تو خراب ہو چکی تھی مگر لکڑی بالکل ٹھیک اور درست حالت میں تھی۔ شاید انتہائی پائیدار لکڑی سے بنایا گیا تھا یا سنبھالنے والے کا کمال تھا۔ بیڈ کی دونوں سائیڈ پر رکھے سائیڈ ٹیبلز کے درازوں کے ہینڈلز ٹوٹ چکے تھے اور بیڈ کے پائنتے کی جانب عین سامنے پرانا ڈریسنگ ٹیبل رکھا ہوا تھا۔ وہ ناگواری منہ پر سجائے کمرے کے اندر داخل ہو گئی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنی ماں سے مخاطب ہوئی۔ ماما، آپ نے اس مرتبہ بھی فرنیچر تبدیل نہیں کروایا؟

شیشے میں وہ اپنی ماں کے عکس کے پیچھے اس طرح کھڑی تھی کہ اْسے اپنی ماں کے عکس کے ساتھ اپنا عکس بھی دکھائی دے رہا تھا۔ جب اْسے اپنے سوال کے جواب میں دوسری جانب خاموشی دکھائی دی تو وہ دوبارہ مخاطب ہوئی ماما! اب آپ اس شیشے کو ہی دیکھ لیجیے، ایک جانب عکس موٹا دکھائی دیتا ہے تو دوسری جانب دبلا۔ آپ کو کتنی مرتبہ کہا ہے کم از کم اس ڈریسنگ ٹیبل میں شیشہ ہی نیا لگوا لیجیے اور یہ جو اس کی درازوں کے ساتھ والے خانے ہیں ان کے ٹوٹے ہوئے دروازے ہی ٹھیک کروا لیجیے۔ ماما! ایسا کیا ہے اس فرنیچر میں جو آپ کو اس سے اتنا لگاؤ ہے؟ مجھے تو اس میں کچھ خاص دکھائی نہیں دیتا۔

وہ شیشے میں اپنی ماں کے چہرے پر نمودار ہوتی ہوئی ہلکی سی مسکان دیکھ سکتی تھی۔ چند لمحات کی خاموشی کے بعد اس کی ماں مخاطب ہوئی بیٹا! یہ فرنیچر دیکھنے میں بھلے ہی پرانا ہو گیا ہے مگر میرے لیے یہ آج بھی بالکل نیا ہے۔ گویا ابھی ابھی اسے بازار سے خرید کر لایا گیا ہو۔ یہ فرنیچر بھلے ہی پرانا ہو گیا ہے مگر اس سے وابستہ احساسات بالکل نئے ہیں۔ ایک دم تازہ! آخری تین الفاظ انہوں نے گہرا سانس لیتے ہوئے اس انداز میں بولے گوکہ کسی گہری سوچ میں ہوں۔

چند لمحے کی خاموشی کے بعد وہ پھر سے گویا ہوئیں بیٹا! یہ فرنیچر تمہاری نانی نے مجھے جہیز میں بنوا کر دیا تھا اور اس سے وابستہ احساسات میری امی سے جڑے ہوئے ہیں۔ میں آج بھی اپنی ماں کا لمس اس فرنیچر پر محسوس کر سکتی ہوں۔ اس فرنیچر کی میرے کمرے میں موجودگی مجھے دلی راحت اور سکون دیتی ہے۔ اور یہ شیشہ؟ اسے میں پتہ ہے کیوں نہیں تبدیل کرواتی؟ کیونکہ اس شیشے میں جو سب سے پہلا عکس میں نے دیکھا تھا وہ میری ماں کا تھا۔ آج بھی اْن کا عکس مجھے اس شیشے میں دکھائی دیتا ہے، آج بھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ میرے پاس ہیں۔ وہ شیشے میں اپنی ماں کی آنکھوں میں اْمڈتے ہوئے آنسو دیکھ رہی تھی اور اس کی ماں اپنی آنکھوں سے اْسکی نانو کا عکس دیکھ رہیں تھیں۔ اس سے پہلے کہ اس کی ماں مزید کچھ کہتی، وہ اپنی ماں کے وجود کو اپنی بانہوں کے حصار میں لیتی ہوئی بولی ماما! کبھی کبھار آپ بہت مشکل باتیں کرتی ہیں۔ جو مجھے بالکل بھی سمجھ میں نہیں آتیں۔ وہ یہ کہہ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔
آج وہ خود اپنی بیٹی کو باہر جاتا دیکھ رہی تھی۔ جب کمرے کا دروازہ بند ہو ا تو وہ شیشے میں اپنے عکس سے مخاطب ہوئی ماں! مجھے آپ کی ساری باتیں سمجھ میں آ گئی ہیں۔ اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو اس کے رخساروں کو بھگوتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل پر گرے تھے۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1019878 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.