پنجاب کے ہر شہرہر علاقہ میں گداگری کی Developement کے
لیے نا جانے کس نے New Verson متعارف کروا دیا ہے جس میں برقعہ اور حجاب کا
اضافہ کیا گیا ہے۔ لہٰذا ہر شہر کے ہر سگنل پر ہرچوک،بازار حتیٰ کہ ہر رش
والی جگہ یعنی جہاں پبلک کافی مقدار میں موجود ہوتی ہے ۔یہاں تک کہ
یونیورسٹیز اور کالجز وغیرہ کے باہر انہوں نے اپنے Point بنا رکھے ہیں جس
میں نوجوان لڑکیاں اور بوڑھی عورتیں کالا یا ہلکے لال رنگ کا برقعہ پہنی
کھڑی ہیں اور منہ پر نقاب کر کے ہاتھ میں ایک لیمینیشن ہوا کاغذ پکڑا ہوا
ہے۔ جس پر انکا من گھڑت نوحہ تحریر ہے ۔لیکن لوگ اسے بھی بغیر پڑھے ہی انکو
پانچ یا دس روپے دے دیتے ہیں۔ میرے اس کالم کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ میں
کسی غریب کے خلاف ہوں یا ایسی کسی مہم کا آغاز کر رہا ہوں ۔ مگر مسئلہ کچھ
اور ہے جس میں معاشرے کی جنریشن کا بہت نقصان ہو رہا ہے ۔وہ یہ ہے کہ ان
عورتوں کے پاس دودھ پیتے بچے گود میں اٹھائے ہوتے ہیں جنکو اٹھانے کا بھی
اعتراض نہیں بلکہ اعترض یہ ہے کہ ان بچوں کو ڈرگ دے کر بے حوش کیا ہوتا ہے
تاکہ بچہ رو کر انہیں تنگ نہ کرسکے اور سویا ہوا بچہ یہ ظاہر کرے کہ یہ
بیمار ہے اور اس بچہ کی حالت دیکھ کر لوگ ان پر ترس کھائیں۔ اور پھر یہی
ہوتا ہے لوگ انکی ظاہری حالت دیکھ کر انہیں چند روپے بھیک کے طور پر دے کر
چلتے بنتے ہیں چونکہ اب انکے اس طرح کے کاموں سے عوام مذہبی Expliot ہوتے
ہیں اور جذباتی ہو کر انکے دل میں مدد کرنے کا جذبہ ابھرتا ہے جس سے وہ
انکی مدد کر دیتے ہیں ۔
لیکن بات یہ ہے کہ پچھلے کچھ برسوں سے میں دیکھ رہا ہوں اور کچھ شہروں میں
بھی جانے کا اتفاق ہوا ہے وہاں بھی یہی حال تھا کہ جناب نقاب پوش عورتیں
کھڑی ہیں ہاتھ میں انکے بینرز پکڑے ہیں جس پر لکھا ہوتا ہے ۔
’میرا گھر جل گیا ہے سارا سامان راکھ ہو گیا میری مدد کی جائے وغیرہ وغیرہ‘‘
یہاں بات سوچنے والی یہ ہے کہ پاکستان میں کہاں کہاں کس کس کے گھر میں ایسی
آگ لگ گئی ہے جسکی پاکستانی میڈیا کو بھی خبر نہیں اور یہ لوگ بینرز اٹھائے
سڑکوں پر آگئے ہیں اسکی تو کوئی سمجھ نہیں آتی۔۔!
مگر آج کل انکی گداگری کے لحاظ سے تھوڑی سی پالیسی تبدیل ہو گئی ہے جس میں
حجاب اور عورتیں تو وہی ہیں مگر آج کل بیماری کا جعلی سرٹیفیکیٹ یا اپنے ہی
ہاتھ سے لکھے گئے کا غذ کے ٹکڑے کی Lamination کروا کر وہ لوگوں کو دکھاتے
ہیں اور پیسے بٹورے جاتے ہیں ۔ جس پر میں نے ذاتی طور پر فیصل آباد کی
Parking & Horticulture Authority کے وائس چیئر مین حاجی خالد سعید صاحب کو
بھی آگاہ کیاتھا اور پوچھا کہ جناب یہ کیا چکر ہے؟آپ نے پارک وغیرہ میں
پودے لگوا کر انکو ہرا بھرا تو کر دیا مگر انہی پارکس میں بھیک مانگنے
والوں کی تعداد اور بڑھ گئی ہے برائے مہر بانی اسکا کچھ کریں لیکن انہوں نے
یہ بات کسی اور وقت پر کرنے کے لیے کہ کر یقین دلایا کہ کچھ کرتے ہیں ۔
بہر کیف یہی مانگنے والے اور والیاں کالجز اور یونیورسٹیز کے اطراف میں بھی
موجود ہوتے ہیں اور اگر انکے مانگنے پر پیسے نہ دیے جائیں تو اسکے ردِعمل
میں سٹوڈنٹس کو بد دعائیں دینے لگ جاتے ہیں ایسے واقعات اکثر طالبات کے
ساتھ پیش آتے ہیں ۔کچھ کہتے ہیں جی انہوں نے اصل غریب کا بھی حق مار دیا ہے۔
خیر میرے نزدیک یہ ایک ایسا گینگ ہے جسکا کاروبار ہی یہ ہے کیونکہ اگر یہ
گینگ نا ہوتا تو اچانک ایک ہی وقت میں برقعہ ٹرینڈ کیسے نافذ ہو سکتا ہے ؟اور
انکے ہاتھ میں ایک ہی طرح کے بینرز اس بات کی کھلی گواہی دیتے ہیں پتہ نہیں
ایسے کاموں پر گورنمنٹ کی پالیسی اور رولز اینڈ ریگولیشن کہاں چلے جاتے ہیں
حالانکہ اگر کوئی این جی اوبغیر گورنمنٹ کی اجازت کے چندہ مانگے تو اس پر
دہشت گردی پھیلانے کے لحاظ سے شک ضرور کیا جاتا ہے مگر ان جعلی دو نمبر
گداگر گینگز کے خلاف ناجانے ہماری حکومت اور انٹیلی جنس خاموش تماشائی کیوں
بنی ہوئی ہے۔پھر ناہی اس ایشو پر کوئی انسانی حقوق کی تنظیمیں بات کرتی
کیونکہ انکی اپنی کشمیر کانفرنسز ختم نہیں ہوتیں ۔ اب مجھے کوئی اس بات کا
جواب دے یا کم از کم یہ بات سوچ ہی لے کہ وہ بچہ جس کو ایک سے دو سال کی
عمر میں ڈرگ ملنے لگ جائے اور وہ اپنے بچپن کا زیادہ تر حصہ بے حوشی کی
حالت میں گزارے تو اسکی جوانی کیا ہوگی؟ Teen age میں اسکا کیا حال ہوگا؟
بڑھاپہ تو شاید وہ دیکھنے کا اہل ہی نہ ہو ممکن ہے کم عمری میں ہی چل بسے ۔مگر
یہ کوئی انسانیت نہیں ہے اور نا ہی انسانوں والا کام ہے ایک ملک میں رہتے
ہوئے اور جمہوریت کا نعرہ لگانے والوں کے لیے شرم کا مقام ہے کہ ایک عام
شہری اپنے ملک کے کسی چوک میں دومنٹ کچھ کھانے پینے یا بازار میں شاپنگ
کرنے نہیں جا سکتا کیونکہ اسکے اردگرد گداگر جمع ہو جاتے ہیں اور وہ بھی
جعلی گراگر جو اصل غریب کا حق بھی خود کھا جاتے ہیں اور اس جرم کو جرم تو
سمجھنا دور کی بات بلکہ اس بات کا احساس تک بھی نہیں ہوتاانکو۔۔
میں نے گداگروں کو Gang up ہونا اس لیے ٹھہرایا کہ اس طرح کے بہت سارے
واقعات کچھ سال پہلے الیکٹرانک میڈیا اپنے چینلز پر لائیو دکھاتے تھے جس
میں باقاعدہ آفس بنے ہوئے تھے اور وہ جعلی گداگر دیہاڑی پر کام کرتے او
رسارے پیسے پھر جو کرایہ پر لیے گئے بچے انکو شام میں واپس کر کے اپنے
گھروں کو جاتے لہٰذا آج کل سیاسی منشور میں یہ ایشو نظر نہیں آرہا ۔ اگر
کسی نے میری اس لکھی ہوئی تحریر کا مشاہدہ کرنا ہے تو صرف کچھ دیر کسی چوک
میں یا بازار میں کھڑے ہو کر دیکھ لے آپکے پاس حجاب ملبوس اگر کوئی خاتون
آئے اور بھیک مانگے تو کم ازکم آپ اس سے یہ ضرور پوچھیے گا کہ آپ بھیک کیوں
مانگ رہی ہیں صرف آپکی اس بات سے وہ آپ سے جان چھڑوائے گی چونکہ وہ خود
مشکوک ہے جس سے آپکو سب سمجھ آجائے گی کہ یہ لوگ عوام کو کس طرح دھوکہ دے
کر پیسہ بٹورتے ہیں حالانکہ انکے پاس آپکو اپنی جینوئن مجبوری بتانے کو
نہیں ہوتی (ختم شد)
|