اس انسان سے ہمیشہ خوف کھانا چاہیے جس کی اپنی کوئی سوچ
نہ ہواور اپنے فیصلے خود نہ کر سکتا ہو ،کتنی بھیانک بات ہے کہ اﷲ تعالی کی
طرف سے آزاد پیدا کئے گئے انسان کا خود پہ اعتماد و کنٹرول نہ ہو اور اپنی
زندگی اپنی مرضی سے نہ جئے بلکہ اس پہ کسی اور کا ختیار ہو۔ کیا ایسی زیست
خوشیوں اور خواہشات کا حاصل ہوسکتی ہے؟ ایسے انسان سے دوستی سے بھی پرہیز
کرنا ضروری ہے کیونکہ ایسا انسان ،انسان نہیں بلکہ مٹی کا ایک بت ہے ایسے
بت کسی ناگہانی مصیبت کی صورت میں کسی اور کے منتظر رہتے ہیں چونکہ ان کو
آرڈر لینے کی عادت ہوتی ہے اس لیے یہ خود کچھ نہیں کرسکتے۔اﷲ پاک فرماتے
ہیں کہ میں نے انسان کو اپنا نائب مقرر کیا ہے ،قاری تھوڑا سا غور فرمائیں
اس بات میں کہ اﷲ پاک نے ـانسان کو مخاطب کیا ہے یہ نہیں بولا کہ میں نے
مسلمان کو اپنا نائب مقرر کیا ہے( مسلمان کی تعریف تو اس سے بھی اعلی و
برتر ہے) یہاں سب انسانوں کی بات ہورہی ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب یا فرقے سے
تعلق رکھتے ہوں ایک اور جگہ اﷲ پاک فرماتے ہیں کہ میں نے انسان کو اشرف
المخلوقات بنایا ہے ،سبحان اﷲ۔ اب بھی سب انسانوں کی ہی بات ہورہی ہے آ پ
لوگ تصور کریں کہ کتنی مخلوقات ہیں دنیا میں، بلکہ ساری کائنات میں اور ان
سب میں میرے پیارے اﷲ پاک نے آپ کو اور مجھے ہی نہیں پوری انسانیت کواپنی
ساری مخلوق پہ نہ صرف برتری دی بلکہ عقل و شعور سے بھی مزین کیا تاکہ ہم
اپنی زندگی کو احسن طریقے سے گامزن کرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف آپس کے
معاملات کو بہترین طریقے سے سلجھا سکیں بلکہ ایک بہترین معاشرے کو تشکیل دے
سکیں اور اک دوسرے کے کام آنے کے علاوہ معاشرے کی تعمیر نو اور تشکیل نو
میں اپنا کردار ادا کریں۔
اﷲ پاک اانسانیت پہ دوطرح کے حقوق لاگو کرتا ہے حقوق اﷲ اور حقوق العباد،
اﷲ پاک فرماتے ہیں کہ میں اپنے بندے کو میرے حقوق معاف کرسکتا ہوں لیکن
میرا بندہ گر میرے بندوں سے ناحق کرے گا تو کبھی معاف نہیں کیا جائے گا
لہذہ ہمیں چاہیے کہ اﷲ پاک کے بتائے ہوئے حقوق کے تناظر میں خود کا محاسبہ
کریں ۔ ہم نمازیں پڑھیں روزے رکھیں یا ساری ساری رات ذکر و اذکار کی محفلیں
سجائیں یا بلکل بھی عبادت کی طرف رجوع نہ ہوں تو یہ معاملہ آپ کے اور رب
کائنات کے درمیان ہے وہ چاہے تو آپ کو بخش دے بے شک پوری کاینات سے بڑھ کر
آپ نے گناہ کمائے ہوں، وہ چاہے تو آپ کی پکڑ کرلے چاہے آپ نے ابلیس سے بھی
زیادہ عبادت کی ہویعنی ایک عبادت گزار ہونے کے باوجود بھی انسان اپنی عبادت
پہ مغرور نہیں ہوسکتا کہ وہ اس عبادت کے عوض بخشا جائیگا ،بخشش کا آسرا صرف
اور صرف اﷲ پاک کہ بے پایاں رحمت کے سوا کچھ نہیں ہے اس لیے اﷲ پاک سے اس
کی رحمت اور بخشش کی امید ہی رکھنی چاہیے ۔ حقوق اﷲ کے ضمن میں رب سے انسان
بخشش پاسکتا ہے لیکن حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق اﷲ پاک کسی صورت میں
معاف نہیں کرسکتا ۔ اس بات کا سیدھا سادا مطلب یہ بنتا ہے کہ جس نے بھی
اپنے مسلمان بھائی یا کسی بھی مذہب کے انسان کے ساتھ زیادتی کی ہے تو
مذکورہ مظلوم کے سوا بروز قیامت اسے رب بھی معاف نہیں کرے گا اس لیے کسی
بھی انسان سے زیادتی کا مطلب ہے کہ اصل میں انسان اپنے آپ سے ہی زیادتی
کرتا ہے اور بروز قیامت اس کی پکڑ لازمی اور سخت ہے جسے رب تعالی بھی معاف
نہیں کرینگے جسیے کہ رب کائنتا ت نے واضح فرمادیا ہے میں اپنے حقوق معاف
کرسکتا ہوں اپنے بندوں کے نہیں۔
زندگی کے بے بہا پہلو ایسے بھی ہوتے ہیں جن پہ ہم کبھی بھی غور کرنا پسند
نہیں کرتے اور نادانستگی میں ہم سے اپنے ہی بھائیوں سے زیادتی سرزد ہوجاتی
ہے جس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی اور ہم گناہ کی پرپہچ دلدل میں دھنستے چلے
جاتے ہیں ان پہلوؤں میں سے سب سے بھیانک اور بڑا پہلو ووٹ کاسٹ کرنا ہے صاف
ظاہر ہے کہ آ پ کا ووٹ کسی کے حق میں ہوتا ہے تو کسی کے مخالف بھی ہوتا ہے
اور گر آپ نے اپنا ووٹ کسی ظالم کے حق میں ڈال دیا ،وہ بھی محض اپنے
انفرادی یا دنیاوی فائدے لے لیے تو بروز قیامت آپ کا گریبان ان مظلوموں کے
ہاتھوں میں ہوگا جن پر آپ کے پسندیدہ و منتخب سیاستدانوں نے ظلم کمائے ہوں
گے اور پھر یہ عمل حقوق العباد کے زمرے میں آتا ہے جس کے بارے میں وحدہ
لاشریک فرماچکے ہیں کہ اس کی معافی ممکن نہیں ہے بجز اس کے کہ مظلوم خود
معاف کرے اور بروز قیامت مظلومین آپ کی کمائی ہوئی نیکیاں لیے بغیر ،آپ کو
کبھی معاف نہیں کریں گے کہ جب انسان کا کوئی رشتے دار بھی کام نہ آئے گا
اور وہ ایک ایک نیکی کو ترس رہا ہوگا اور ایسے میں مظلومیں کو ان پہ ظلم
کرنے والوں کی نیکیاں عطا کی جائیں گی اور جن ظالموں کے پاس دینے کو نیکیوں
کی قلت ہوگی تو رب تعالی اپنے فرشتوں سے فرمائیں گے کہ مظلومین سے جو جو
گناہ سر زد ہوچکے ہیں ان کو ظالمین کے کھاتوں میں ڈال دو ۔جو لوگ آپ کے ووٹ
کی وجہ سے اقتدار کے مزے لوٹ چکے ہوں گے وہ روز محشر کسی کے کام نہ آسکیں
گے نفسا نفسی کے عالم میں ہر ایک کو اپنی ذات کی فکر ہوگی۔
گر آپ اپنے ووٹ کی اہمیت کو سمجھتے ہیں تو آپ اپنا ووٹ کبھی بھی ضائع کرنا
پسند نہیں کریں گے بلکہ آپ کی کوشش اور نیت ہوگی کہ آپ ووٹ ایسے انسان کو
دیں جو انسانیت کے لیے دوسرے امیدواروں سے بہتر ہو ، اس کا مطلب ہوا کہ آ پ
نے انسانیت کے لیے سوچا ،اپنے محلے ،خاندان اور ملک کے لیے بیترین سوچا ،
یقینا یہ ایک بہت بڑی نیکی ہے یعنی آپ نے پوری انسانیت کے لیے سوچا ،بے شک
اس کا ثمر بے بہا اور لامحدود ہے کونکہ انسانیت کا سوچنا خدایہ وصف ہے اور
ایسا سوچنے والے پر میرے رب کو پیار آتا ہے کہ میرا بندہ میرے بندوں کے
بارے میں کتنا اچھا سوچتا ہے ۔ خدمت سے خدا ملتا ہے اور گر کوئی اچھا
امیدوار آپ کے ووٹ کے باعث انسانیت کی خدمت کرے گا تو وہ بہت بڑے ثواب کا
مستحق ہوگا ہی اور اس کے ساتھ ساتھ آپ بھی مسلسل اجر سے نوازے جائیں گے
جیسے جیسے وہ انسانیت کی خدمت کرے گا آپ کے اعمال کا پلڑا بھی بھاری ہوتا
جائے گا اور آپ کے لیے بلکہ آخرت کے لیے ذخیرہ ہوتا جائے گا اور بعید نہیں
اﷲ پاک کی رحمت جوش میں آئے اور آپ کا یہی عمل آپ کی نجات کا باعث ہو ۔ بے
شک ووٹ ایک امانت ہے اسلام کی ،قوم کی،مستقبل کی،آپ کی آنے والی نسلوں
کی،آپ کی ،آپ کے ایمان کی اور ان ایماندار لوگوں کی جو اس آس امید پہ
الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں کہ وہ ملک و قوم کی خدمت کریں گے ،براہ کرم
انھیں پہچانیں ،انھیں منتخب کریں ،انھیں ڈھونڈیں کیونکہ انھیں آپ کی ضرورت
ہے اور خبر دار ووٹ سوچ سمجھ کے دیں۔ آپ نے کبھی اپنے بچے کا داخلہ کروانا
ہو تو بیسیوں لوگوں سے مشورے کرتے ہیں اور جن لوگوں کو آپ نے سر پہ بٹھانا
ہوتا ہے ان کے بارے میں کبھی بھی فوری فیصلہ نہ کریں گر آپ دو امیدواروں کے
درمیان فیصلہ نہ کرسکیں تواستخارہ کریں۔اﷲ پاک مجھ پر آپ پر اپنی رحمتوں کا
نزول کرے اور آقا فخر موجودات صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے صدقے ہمیں بہترین
مسلمان حکمران نصیب فرمائے آمین۔ |