زندگی میں اچھائی کی اچھائی سنتے آۓ تھے اور اچھائ کی
بڑائ دیکھتے آۓ تھے لیکن وقت کے گزرتے اور تجربات سے گزرتے یہ بھی علم ہوا
کہ اچھائ کے ساتھ اچھے کی عاجزی اور دھیما پن اُسے قائم رکھ سکتے ہیں ورنہ
اچھائ ایک بڑی برائی بن کر رہ جاتی ہے جو دوسروں کا جینا بھی مشکل کر سکتی
ہے بلکہ کمزوروں پر حکومت کرنے لگتی ہے
خدمت کرتے کرتے خادم کے بجاۓ حاکم بن جانے کا خطرہ منڈلانے لگتا ہے
خاندانوں اور سیاسی اُفق پر اس کا نظارہ دیکھنے میں آتا رہتا ہے
روحانی نقطہ نظر سے دیکھا جاۓ تو یہی کہا گیا ہے کہ نیکی پر گُھمنڈ نیکی کو
برباد بھی کر سکتا ہے اور احسان جتا کر تکلیف پہنچانے سے بہتر ہے کہ نہ کیا
جاۓ
جس پر احسان کیا جاۓ اُلٹا اس کا شکرگزار ہوا جاۓ کہ اس نے قبول کیا اور
خدا کا شکر کیا جاۓ کہ اس نے آپ پر مہربانی کی کہ آپ سے کام لیا گیا
دیکھا گیا ہے کہ گناہ گار نادم ہو کر پرہیزگاروں سے بھی آگے نکل گیا
پرہیزگار نے جب لوگوں کو حقارت سے دیکھا تو پیچھے رہ گیا
اچھائی تکبر کے بعد اچھائی نہیں رہتی اور برائی تائب ہو کر برائی نہیں رہتی
|